جامشورو (فیصل مستوئی) مورخہ 2 ستمبر 2021ء کو سندھ یونیورسٹی جامشورو میں طلبا و طلبات نے فیسوں میں اضافے کے خلاف بھر پور احتجاجی مظاہرہ کیا۔
آئے روز سندھ یونیورسٹی میں انتظامیہ کی طرف سے طلبا و طالبات پر فیسوں میں اضافے کے حملے کئے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ ایک طرف تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کا شکار ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ کی بے پناہ کرپشن اور نا اہلی کا شکار ہیں۔ جہاں کورونا وبا کی وجہ سے یونیورسٹی کی سرگرمیاں کافی عرصے سے مکمل بند رہیں، وہی اس عرصے میں یونیورسٹی کے تمام اخراجات جس میں ٹرانسپورٹ، بجلی اور اسٹاف کے روزمرہ کے اخراجات شامل ہیں، طلبہ سے فیسوں کی مد میں لئے گئے۔ لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ نے ایم فل/ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی فیسوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
ایم فل کی فیس 70 ہزار سے بڑھا کر 1 لاکھ 59 ہزار کر دی گئی ہے اور پی ایچ ڈی کی فیس 1 لاکھ 59 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ 59 ہزار کردی گئی ہے جو مجموعی طور پر 100 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
کورونا کی وجہ سے جہاں محنت کشوں کے کندھوں پر بے روزگاری اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے وہاں پھر ان کے کندھوں پر ان کے بچوں کی تعلیم میں بے پناہ فیسوں کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا ہے۔ بھاری فیسیں برداشت نہ کرنے کی وجہ سے غریب طلبا و طالبات تعلیم کے زیور سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ طبقاتی سماج کے اندر تعلیم کو کاروباری مرکز بناتے ہوئے تعلیم کو بھی طبقاتی بنیادوں پر بیچا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ دشمن اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلبہ نے ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ اور مختلف طلبہ تنظیموں کو ملاکر اس غیر قانونی فیسوں میں اضافے کے خلاف جدوجہد کرنے کا عہد کیا ہے۔
سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ پر ظالمانا اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلبا و طالبات نے وی سی ہاؤس سے اے سی ٹو تک احتجاج کیا جس میں فورسز اور وائس چانسلر نے آ کر احتجاج کو وی سی ہاؤس کے پاس ہی روک دیا۔ کافی ٹائم تک بات چیت کرتے ہوئے بنا کسی نتیجے پر پہنچے بات چیت ختم کر کے وائس چانسلر چلا واپس گیا اور طلبا و طالبات نے احتجاج کو جاری رکھا۔
طلبہ نے میڈیا کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ جب تک انتظامیہ فیسوں میں کمی نہیں کرتی تب تک جدوجہد جاری رہے گی اور اس جدوجہد کے دائرے کو مزید وسیع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہم چھین کے رہیں گے۔