فاروق سلہریا
کچھ عرصہ قبل ’جدوجہد‘ نے ایک ادارتی نوٹ میں سوشل پورنوگرافی کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی: ”اگر جمالیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پورنوگرافی سے مراد ہے ننگا پن۔ ننگا پن بذاتِ خود تو ایک فطری چیز ہے مگر پورنوگرافی سے مراد ہے ایسا ننگا پن جس کی مدد سے سنسنی خیزی اور ہیجان برپا کیا جا ئے۔ یہی نہیں۔ پورنو گرافی ایک رومانی عمل کو حیوانی عمل تک محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بازار کی ایک جنس بنا دیتا ہے، ایک ایسی جنس جس میں کمزور کی عزت، عزت نفس، پرائیویسی، اس کے ظاہر و باطن کو بے لباس اور تار تار کر دیا جاتا ہے۔ منڈی کی طاقتیں اس سے منافع کماتی ہیں۔ پورن سٹار اپنا بدن بیچ کر پیٹ پالتے ہیں۔ ناظرین اس اخلاق باختہ عمل سے ایک ایسی گھٹیا ’تسکین‘ حاصل کرتے ہیں جو انہیں مستقل بے چین رکھتی ہے۔“ (تفصیلی اداریہ اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے)
چند روز قبل وفاقی وزیر شہر یار آفریدی نے نیو یارک سے ایک اپنی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ (مغرب) میں نہ صرف غربت ہے بلکہ انتہا درجے کی بے حیائی ہے۔ دوسری جانب ڈوئچے ویلے نے وینا ملک پر لباس اور آزادی نسواں کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا۔
ان دونوں ویڈیوز کا مواد اس قدر گرا ہوا ہے کہ ان کا جواب دینا دراصل حکمران طبقے کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے۔ کچھ عرصے سے پاکستان کے حکمران طبقے نے ایک نیا طریقہ کار وضح کیا ہے یعنی ایک نیا جال بچھایا ہے، وہ ہے: بیانئے کو سوشل پورنو گرافی بنا دو۔ بات ہی گالی سے شروع کرو۔ سوشل میڈیا نے اس کام کو اور آسان بنا دیا ہے۔ گالی کے جواب میں یا تو انسان خاموش رہ سکتا ہے یا گالی دے سکتا ہے۔ جوابی گالی کا انحصار طاقت کے توازن پر ہوتا ہے۔ اگر جاگیردار اور مالک گالی دے گا تو مزارع اور ملازم جواب میں گالی نہیں دے سکے گا۔ دے گا تو جان سے بھی جا سکتا ہے، نوکری سے تو پکاگیا۔
سوشل میڈیا پر طاقت کا توازن کئی چیزوں سے طے ہوتا ہے۔ گالی ریاست کے پالے ہوئے ٹرولز دے رہے ہیں یا ایک فرد۔ جہادی برگیڈ گالی دے رہے ہیں یا نام نہاد ’لبرل فاشسٹ‘۔
جب گالی گلوچ ممکن نہ ہو (کیونکہ ابھی ٹیلی ویژن چینل اس حد تک نہیں گرے کہ گالی گلوچ براہ راست براڈ کاسٹ کرنا شروع کر دیں، اگرچہ لیک ہونے والی بعض ویڈیوز میں ماردھاڑ اور گالم گلوچ سے ہم بخوبی واقف ہیں) تو پھر ٹاک شو میں فیصل واڈا کی طرح جیک بوٹ لے کر آ جائیں، کسی ریٹائر جنرل سے معیشت پر رائے لیں، عارف حمید بھٹی سے سیاست عالم پر تبصرہ کرائیں، حامد میر سے پانی والی گاڑی پر پروگرام کرائیں اور وینا ملک سے فیمن ازم پر لیکچر دلوائیں۔
ممکن ہے آپ مجھ پر ایلیٹسٹ ہونے کا فتوی جاری کر دیں۔ ہم سب کو اپنی رائے رکھنے اور دینے کا حق ہے۔ وینا ملک کو پورا حق حاصل ہے کہ برقعے سے لے کر بکنی تک اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن جب قومی و عالمی میڈیا ایجنڈے کے تحت ان کی رائے کو مسلط کرے اور تو یہ سوشل پورنوگرافی کے سوا کچھ نہیں۔
بات یہ ہے کہ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ بس چلانے کے لئے اسے ڈرائیور رکھا جاتا ہے جس کے پاس لائسنس ہو۔ یہ فیصلہ ووٹ کے ذریعے نہیں ہو سکتا کہ زمین گول ہے یا چپٹی۔ میرا خیال ہے اگر پاکستان میں زمین کے گول ہونے کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے ہوا تو عین ممکن ہے اکثریت زمین کے چپٹا ہو نے کے حق میں ووٹ دے۔
یہ بھی ذہن میں رہے: ریاست کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ شہریوں کی تربیت کرے۔ انہیں تعلیم دے۔ انہیں یہ بھی بتائے کہ بیماری کی صورت میں پیر سے پھونک نہیں کرانی، ڈاکٹر سے دوا لینی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقینی بنائے کے گاوں اور محلے میں ڈاکٹر اور دوا دارو کا مناسب اور مفت انتظام موجود ہے۔ تعلیم اور ترقی کے اس ریاستی کام میں میڈیا اس اک ایک اہم ترین آلہ ہوتا ہے۔ اس لئے فیمن ازم پر بات کے لئے وینا ملک اور فزکس پر لیکچر کے لئے حامد میر کو سکرین پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ جب وینا ملک فیمن ازم پر بات کریں گی، آپ اس سوشل پورنوگرافی سے ممکن ہے لطف اندوز ہوں، مگر سیکھ کچھ نہیں سکیں گے۔ حامد میر نے پانی والی گاڑی دکھا کر حب الوطنی کو بہت تقویت دی تھی مگر سائنس کی والدہ کو جلا وطنی پر مجبور کر دیا تھا۔
مصیبت یہ ہے کہ جب ریاست نے نئیو لبرل ٹرن لیا (جس کا مطلب ہے کہ نج کاری کر دی جائے، تعلیم اور صحت اسے ملے جس کی جیب میں پیسے ہیں) تو میڈیا کو بھی منڈی بنا دیا گیا۔ اب میڈیا کا کام ایک طرف پیسے بنانا ہے تو دوسری جانب ریاست کے ساتھ مل کر اس نئیو لبرل نظام کوقائم رکھنا کیونکہ میڈیا سیٹھ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے دور میں ان کی کمائی کروڑوں میں ہوتی تھی۔ اب اربوں میں ہو رہی ہے۔
کسی بھی نظام کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی سوچ کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ نوم چامسکی اسے مائنڈ کنٹرول کا نام دیتے ہیں۔ اس کے کئی حربے ہوتے ہیں۔ بیانئے کو سوشل پورنوگرافی بنا دینا اس کی تازہ ترین شکل ہے جسے پاکستان میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ مکالمہ ممکن نہیں رہتا۔ مکالمہ اور مباحثہ جمہوریت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جمہوریت ہمارے معاشی، سیاسی، مذہبی و شہری حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔
ریاست نے اس سارے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے آسان سا حل یہ نکالا ہے کہ بیانئے کو پورنائز کر دو۔ جو اس سوشل پورنوگرافی میں حصہ نہ لے وہ مارجنلائز (Marginalise) ہو کر خود ہی سیاست سے باہر ہو جائے گا۔ طالبانائزیشن بھی اسی کا نام ہے۔ ہر فیصلہ بندوق کرے گی۔ مکالمے کی گنجائش نہیں ہے۔ یوں سوشل پورنوگرافی اور طالبانائزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
خیر پوچھنا صرف یہ تھا کہ ڈوئچے ویلے اس سوشل پورنوگرافی کا حصہ کیوں بن رہا ہے؟ کیا جرمنی میں فیمن اسٹ بحثوں میں صرف پورن سٹارز کو مدعو کیا جاتا ہے؟ یا مکالمے کی سوشل پورنوگرافی صرف پاکستان کے لئے جاری کی جانے والی اردو سروس کے لئے مختص ہے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔