لاہور (جدوجہد رپورٹ) معروف صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف نے ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن 15 نومبر تک بہر صورت جاری کرنے کیلئے کہہ دیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان دسمبر سے قبل تبادلہ روکنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اپنے وی لاگ میں انکا کہنا تھا کہ وفاقی وزرا اسد عمر، فواد چوہدری اورشاہ محمود قریشی کی 4 روزہ سفارتکاری کے نتیجے میں پیر کے روز آرمی چیف اور وزیراعظم عمران خان کی طویل ملاقات ہوئی۔ آرمی چیف نے وزیراعظم کو بتایا کہ اگر آپ واقعی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے مخلص ہیں اور انہیں آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں تو ان کیلئے ضروری ہے کہ انہیں کور کی کمانڈکرنے دی جائے۔ ایڈیشنل چارج دیئے جانے کا اقدام فوج میں ممکن نہیں ہے، یہ فوج ہے کابینہ نہیں ہے۔
اسد طور کے مطابق وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ تمام کورکمانڈرز اور آرمی چیف کا مشترکہ اور متفقہ فیصلہ ہے کہ فیض حمید کور کمانڈر پشاورہونگے اور ندیم احمد انجم ڈی جی آئی ایس آئی ہونگے۔ وزیراعظم کو یہ ہی نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا اور یہ کام جلد سے جلد کیا جائے۔
وزیر اعظم نے دسمبر تک فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی رہنے دیئے جانے کا مطالبہ کیا، جس پر آرمی چیف نے انہیں 15 نومبر تک تبادلہ موخر کرنے کی حامی بھری اور بتایا کہ 15 نومبر کو ہر حال میں تبادلے کا نوٹیفکیشن کرنا ہو گا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس پر بھی اتفاق نہیں کیا۔
اسد طور نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان کو انکے روحانی حلقہ نے جو زائچہ بنا کر دیا ہے اور جو استخارہ ہوا ہے اس کے مطابق 4 دسمبر کو اس سال کا آخری سورج گرہن ہو گا اور اس سورج گرہن کے وزیر اعظم کی ذات اور حکومت کے مستقبل پر منفی اور برے اثرات ہونگے۔ ان اثرات سے انکو صرف اور صرف فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس آئی ہی بچا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبادلوں پر عملدرآمد کیلئے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے وزیراعظم ہچکچا رہے ہیں۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم کے مشیران انہیں نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے منانے کی کوشش کر رہے ہیں، انکا یہ خیال ہے کہ اس طرح سے سول ملٹری تعلقات بحال ہو جائیں گے لیکن ایسا اب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
اسد طور نے اس صورتحال کو 1999ء کی صورتحال سے مماثل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی وزیراعظم نوازشریف ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پربضد تھے او رآرمی چیف کی مرضی کے برخلاف ضیا الدین بٹ کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا، جو وزیر اعظم کو گھر جانے سے تو نہ روک سکے، تاہم انکا اپنا کورٹ مارشل ہو گیا تھا۔
دریں اثنا، پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد احمد چوہدری نے سیاسی و عسکری قیادت میں اختلافات کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کا ہے۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے میں اتفاق رائے ہے اور سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر ہیں۔
منگل کے روز میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کیلئے قانونی طریقہ اپنایا جائے گا۔ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پیر کی شب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے مابین ایک طویل ملاقات ہوئی ہے۔ کبھی بھی وزیراعظم آفس ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھائے گا جس سے فوج کا وقار کم ہو اور نہ ہی جنرل باجوہ ایسا کوئی اقدام اٹھائیں گے کہ سول سیٹ اپ کی عزت میں کمی ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے آئی ایس پی آر کی جانب سے فوج میں تبادلوں سے متعلق بتایا گیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کورکمانڈر پشاور جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کر دیا گیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم آفس کی جانب سے تاحال ان تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔
صحافتی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے تبادلے سے خوش نہیں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ انکا تبادلہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے گریزاں ہیں اور وزیراعظم ہاؤس اور ’راولپنڈی‘ کے مابین تناؤ کی کیفیت کو کم کرنے کیلئے 3 وفاقی وزرا مسلسل 4 سے 5 روزتک متحرک رہے، جس کے بعد پیر کے روز وزیر اعظم اور آرمی چیف کے مابین طویل ملاقات ہوئی۔
بعض ذرائع کے مطابق تاحال ان تبادلوں کے معاملے پر دونوں میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔