آج فیض احمد فیض کا 37 واں یوم وفات ہے۔ اس موقع پر معروف ادبی نقاد ساقی فاروقی کا یہ مضمون از سر نو پیش کیا جا رہا ہے۔
ساقی فاروقی
اب کہ یاد کا چاند برج سکون میں ہے، داستان سنانے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ میرے ذہن میں مہینہ اور سنہ اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ تاریخی ترتیب تقریباً ناممکن ہے مگر کوشش کرتا ہوں۔ لندن آنے سے پہلے میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو وہ جیل میں تھے اور میں اردو کالج میں سائنس کا طالب علم۔ یہ 1952ء تھا یعنی میرے خاندان کی غربت کے عروج کا زمانہ تھا۔ جب صرف روٹی اور چٹنی پر گزارا ہو تو رسالہ خریدنے کی جرأت کہاں سے آئے۔ صدر کے دو تین بک اسٹالوں کا روزانہ پھیرا کرتا تھا۔ میری حریص نظریں دو چیزوں کی سخت متلاشی رہا کرتیں۔ منٹو کا نیا افسانہ فیض کی نئی نظم یا غزل۔ اس زمانے میں ان دونوں کی چیزیں صرف لاہور کے رسالوں میں چھپا کرتیں۔ فیض صاحب کا کلام جوں ہی چھپتا میں دو تین اسٹالوں کا چکر لگا کر حفظ کر لیتا۔ دوسرے دن کالج پہنچ کر اپنے دوستوں پر اپنی اولیت کی دھونس جماتا مگر منٹوں کے افسانوں کا معاملہ جدا تھا۔ ایک صفحہ یہاں دوسرا وہاں۔ اسٹال ختم ہو جاتے افسانہ ختم نہ ہوتا۔زیادہ عرصہ ایک ہی جگہ پر مفت خوری کرنا خطرے سے خالی نہ تھا کہ اسٹال کے مالکوں کی آنکھوں میں بے زاری اور دشمنی کے آثار نمایاں ہو جاتے۔ اس لئے اپنے ایک اور غریب دوست کو ساتھ لے جاتا۔ پلان کے مطابق میں پہلا صفحہ پڑھتا اور اسٹال کے دوسرے کونے میں کھڑا وہ دوسرا صفحہ ہضم کرتا۔ پھر ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے اور اگلے اسٹال کی طرف روانہ ہو جاتے اور راستے میں پلاٹ اور کرداروں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے۔ یوں صدر ہی کے اسٹالوں پر افسانہ ختم کر لیتے اور بولٹن مارکیٹ کے اسٹالوں پر جانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ایک بار ”امروز“ نے فیض صاحب کی کسی نئی نظم یا غزل کی اطلاع دی۔ غالباً سویرا یا نقوش یا ادب لطیف میں چھپی تھی۔ مجھے اپنے کرب کا عالم یاد ہے۔ میں چکر لگا لگا کے تھک گیا مگر صدر کے اسٹالوں میں یہ رسالے نہیں ملے۔ یہ معلوم کر کے کہ تمام رسالوں کا ٹھیکہ طاہر نیوز ایجنسی (بولٹن مارکیٹ) کے پاس ہے میں کالج ختم کر کے وہاں پہنچ جاتا۔ صرف یہ پتا چلانے کہ بلٹی آئی کہ نہیں۔ آخر پندرہ دن کے چکر کے بعد انہوں نے بتایا کہ لاہور سے نئے رسالے آئے ہیں۔ بغیر رسالہ دیکھے ایسی انجانی خوشی ہوئی کہ آنکھیں بھیگ گئیں۔ پوچھا پہلے کس بازار میں یہ رسالے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا صدر میں۔ میں نے کچھ سفر ٹرام پر کیا۔ ٹکٹ کلکٹر کو قریب آتا دیکھ کر عالم حیرت میں اتر گیا اور پیدل چلتا ہوا رسالے تک پہنچا۔آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ نظم تھی ”اے روشنیوں کے شہر“۔ مختلف اسٹالوں کی زیارت کے بعد نظم یاد کی۔ حفظ ماتقدم کے طور پر اپنی نوٹ بک میں مصرعے لکھتا گیا۔ نظم مکمل کر کے سیدھا اردو کالج پہنچا۔ کوئی نہ تھا۔ صبح کی کلاسیں ختم ہوچکی تھیں۔ شام کے لوگ ابھی نہیں پہنچے تھے۔ میں اِدھر اُدھر ٹہل کر وقت ضائع کرتا رہا کہ ناگہاں ابن انشا مرحوم نظر آئے۔و ہ ایم اے فائنل میں تھے اور میں آئی ایس سی (انٹرمیڈیٹ سائنس) کا طالب علم۔ میں نے جلدی جلدی اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ فیض صاحب کی نئی نظم آپ نے دیکھی۔ کہنے لگے، آپ روشنیوں کے شہر کا ذکر تو نہیں کر رہے، میں نے کہا ”جی ہاں….“ کہنے لگے وہ رسالہ مجھے پچھلے ہفتے مل گیا تھا، مجھے سخت صدمہ ہوا۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ ابن انشاء تو خاصے مشہور شاعر بن چکے تھے جب کہ مجھے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ ایک دو منٹ میرے پاس ٹھہر کر غالباً بابائے اردو سے ملنے انجمن ترقی اردو کی عمارت کی طرف چلے گئے اور میں کسی نئے شکار کی تلاش میں۔ فیض صاحب کی نظم کا ایسا نشہ تھا کہ میں ساری دنیا کو اپنی مستی میں شامل کر لینا چاہتا تھا۔ رقص کرنا چاہتا تھا۔ فیض صاحب کی شاعری کے عاشق لاکھوں ہیں مگر اتنی وحشت سے رم کتنوں نے کیا ہوگا۔ یہ باتیں قدرے تفصیل سے اس لئے لکھ دی ہیں کہ بعد میں ایک شاعر کی حیثیت سے جو اختلاف میں نے کیا اس کا پس منظر نمایاں ہو سکے اور مختلف اخباروں اور رسالوں میں گاہے گاہے جو ذاتی حملے اس تعلق سے مجھ پر ہوئے ہیں، ان کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس سلسلے میں دوچار باتیں اور۔
اب ہم 1955ء میں ہیں۔ میری پہلی غزل ”ادب لطیف“ میں چھپ چکی تھی۔ ترقی پسندوں کی سانس اکھڑ چکی تھی مگر نام نہاد ترقی پسند شاعری یعنی وہ شاعری جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ رات کب ختم ہوگی، وہ سحر کب طلوع ہوگی، اخباروں رسالوں میں اب بھی اپنی بہار دکھا رہی تھی اور یہ بدسرشت خزاں نصیب سیکنڑوں شاعروں کو مار کر بھی نہیں مری اور آج بھی بعض مردوں کے یہاں زندہ ہے۔ فیض صاحب نے ”سحر“۔ ”شام“۔ ”مقتل“۔ ”دار“۔ ”سنگ“۔ ”لوح“۔ ”قلم“۔ ”صلیب“ اور ایسے ہی پچاسوں الفاظ کی قدر و قیمت کم کر دی تھی اور انہیں آفاقیت کے نگار خانوں سے گرفتار کر کے محدودیت کے زندانوں میں ڈال دیا تھا۔ یہ شاعری آسان تھی، اکہری تھی، جوشیلی تھی اور غیر ذاتی تھی۔ ایک رنگ کے مضمون کو سو ڈھنگ سے باندھنے والی تھی۔ میں نے بھی خوب خوب مشق کی۔ 1958ء تک سو سوا سو نظمیں لکھ کر مقتلوں اور صلیبوں کے انبار لگا دیئے۔ اس زمانے کے ”امروز“ اور لیل و نہار“ میں ہر ہفتے اپنی کسی نہ کسی نظم کا کمپا لگا کے ”سحر“ کا انتظار کرتا۔ (فیض صاحب دونوں کے چیف ایڈیٹر تھے)۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ زبان کی زنجیر اور ہاتھ کی گرہ کھل گئی۔ دوسر ا یہ کہ اپنی اور دوسروں کی ایک پرت کی شاعری سے دل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مکدر ہوگیا۔ میں نے ”شمشاد کی صلیبیں“ کے سوا اپنی تمام نظمیں نذر آتش کر دیں اور آج تک اس راکھ کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔
مگر 1936ء کی تحریک کو معاف کرنا اس لئے آسان ہے کہ اس نے ہمیں فیض جیسا البیلا شاعر دیا جس کی ساحرانہ اور درد مند شخصیت نے اپنی تمام فنی جمالیات کے ساتھ اس قسم کی شاعری کو ایک ایسے نقطہ عروج پر پہنچایا کہ دوسرے ترقی پسند شاعر بونے نظر آنے لگے۔ بلکہ یہ کہنا بھی ناجائز نہیں کہ انہوں نے رجائی اور رومانی شاعری کے بیشتر امکانات پورے کر کے دکھا دیئے اور بقیوں کے لئے اس کا جواز تقریباً ختم کر دیا۔
یہاں فیض صاحب کی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں سے بحث نہیں۔ اس پر میں تفصیلی طور پر کہیں اور لکھ چکا ہوں۔ میرا مسئلہ میرا جی، راشد، محمد حسن عسکری، ممتاز شیریں بلکہ ان کے فوراً بعد ابھرنے والوں انتظار حسین، ناصر کاظمی، سلیم احمد، منیر نیازی اور وزیر آغا جیسے لوگوں سے الگ تھا۔ اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ میں اپنی اس تقریر کا اقتباس پیش کروں جو میں نے سردار جعفری کو لندن میں خوش آمدید کرتے ہوئے ان کی سترویں سالگرہ پر کی تھی۔
جناب والا…میرا سیاسی مسلک آپ سے جدا نہیں ہے کہ کمیٹڈسوشلسٹ ہوں بلکہ یہاں بسنے کے بعد اور بائیں کی طرف سرک گیا ہوں مگر شاعری میں صرف ایک ہی خیال اور ایک ہی جذبے کو متھنے کا قائل نہیں کہ میری کمٹ منٹ صحافت سے نہیں شاعری سے ہے جو پوری ذات کا مکمل اظہار مانگتی ہے…‘
میں نے اپنا سیاسی مسلک اور شاعرانہ مذہب آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب آئیے ہم فیض صاحب کی طرف لوٹ چلیں۔ 1962ء میں انتظار حسین نے ”ادب لطیف“ کی ادارت سنبھالی اور ناصر کاظمی مرحوم سے صلاح و مشورہ کر کے مجھے دعوت دی کہ میں کوئی ”گرما گرم“ مضمون لکھوں۔ عجب زمانہ تھا۔ میں ہمہ آتش رہا کرتا۔ مدیر کی ”گرما گرم“ کی قید غیر ضروری تھی۔ دو صفحے کا ایک مضمون ”میں سب کا مخالف ہوں“ لکھ کر بھیج دیا۔ اس پر نودس مہینے تک واویلا ہوتا رہا۔ میرے خوب خوب لتے لئے گئے مگر انتظار حسین کے مزے آگئے۔ یہ آگ ذرا مدھم ہوئی تو انہوں نے میری حمایت بلکہ میری تعریف میں دو صفحے کا مضمون لکھ کر بجھتے ہوئے شعلے پھر سے تیز کر دیئے۔ میرے مضمون میں ایک فقرہ یہ بھی تھا ”کیا ادیبوں میں کوئی ایسا نہیں رہا جو فیض کو سیاسی اعزاز اور ادبی اعزاز کا فرق بتا سکے۔“
فیض صاحب کو لینن پیس پرائز مل چکا تھا اور 1963ء میں جب میں لندن پہنچا تو وہ ایک مکان خرید کر یہیں بسے ہوئے تھے۔ آتے ہی میرے دوست عباس احمد عباسی مرحوم نے بتایا ”تمہارا فقرہ فیض صاحب کو سنا چکا ہوں۔ وہ صرف مسکرا دیئے تھے۔“ میرے مزید اصرار پر عباس نے یہ بھی بتایا ”فیض صاحب نے یہ ضرور کہا تھا کہ بھائی —ی— ی یہ سب تو ہوتا ہی رہتاہے۔“
جنوری 1964ء میں ایک پروگرام کے سلسلے میں بی بی سی پہنچا تو عباس نے بتایا کہ ”ہمیپسٹڈ کے اسپینیرڈس ان (ایک پب کا نام) میں شام کو فیض صاحب آئیں گے، پہنچ جانا تاکہ تعارف کرا دوں“ میں کڑکڑاتی سردی میں کپکپاتا ہوا پہنچا تو عباس کے ساتھ غالباً تقی سید بھی بیٹھے ہوئے تھے اور بیر چل رہی تھی مگر فیض صاحب وہسکی پی رہے تھے۔ جوں ہی عباس نے مجھے خوش آمدید کہا فیض صاحب اٹھ کر کھڑے ہوئے اور نہایت گرم جوشی سے گلے ملے۔ آئندہ بیس سال تک ان سے یہاں وہاں اِدھر اُدھر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اپنے طور پر گلے شکوے اختلافات سب کئے مگر ان کی گرم جوشی اور تپاک کبھی نہ بھولا۔ اس دن ان کی بے لوث محبت سے اس قدر مانوس ہوا کہ ڈیڑھ گھنٹے تک کچھ نہیں بولا بس ان کے استفسار پر یہ ضروربتایا کہ حصول تعلیم اور تلاش معاش کے سلسلے میں آنکلا ہوں۔ ان کے سامنے میری خاموشی کا یہ پہلا اور آخری دن تھا۔
میں ان دنوں گولڈرس گرین کے ایک کمرے میں رہتا تھا۔ کاروار ابھی نہیں خریدی تھی۔ ان کا قیام فنچلے میں تھا۔ ہمارے درمیان کوئی تین میل کا فاصلہ تھا۔ ہفتے میں ایک روز کبھی ٹیوب کبھی بس میں یہ فاصلہ طے کر کے انہیں کسی پب میں لے جاتا۔ایک دو گھنٹے کا ساتھ رہتا۔ میرے گرم گرم سوالات اور ان کے نرم نرم جوابات کا منظر آنکھوں میں ہے۔ یہ نشستیں مہینوں جاری رہیں۔ انہیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو میرے بہت سے اندیشے جھاگ کی طرح…نہیں…انار کلی والے امتیاز علی تاج کی ”کل کی گڑیا“ کی طرح بیٹھ گئے۔ وہ مجھ سے عمر میں 25 برس بڑے تھے اور بین الاقوامی شہرت کے مالک، میں ایک نوجوان شاعر جو ابھی اپنے استعارے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ انہیں بھی میرے مزاج کا علم ہوگیا۔ شاید اسی لئے انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری شوخیوں کو طرح دے دی تھی۔ 1983ء اور 1984ء میں بعض ’رازناآشناؤں‘ نے فیض صاحب سے شکایت کی کہ دیکھئے ساقی آپ سے اتنی گستاخی کرتے ہیں اور آپ کچھ نہیں کہتے۔ ان کا جواب بھی خوب تھا۔ ”ارے بھائی ساقی تو ساقی ہے نا…“ سنا ہے شکایت کرنے والے… "Yes Sir” کہہ کر خاموش ہوگئے۔ ان عزیزوں کو یہی نہیں معلوم کہ ادب میں سوال کرنا، بزرگوں سے اختلاف کرنا یا ان کی خامیوں کی نشاندہی کرنا گستاخی یا بے ادبی نہیں بلکہ:
Yes Sir, Yes Sir,
Three bags full, Sir
You are great Sir
کہنا بدتہذیبی اور بدتمیزی ہے۔ یہ بات ان بدبختوں کو بتاتے بتاتے زبان سوکھ گئی۔ اب یہ ہے کہ خدا مجھے صبردے۔
اب جو باتیں یاد آرہی ہیں، ان کی تاریخی ترتیب کی ذمہ داری اپنے حافظے سے اٹھا رہا ہوں۔ وہ باتیں نہیں دہراؤں گا جو اپنے مضمون ”حسن کوزہ گر“ میں لکھ چکا ہوں مگر اس سلسلے میں فیض صاحب اور ایلس کے ری ایکشن کا حوالہ ضروری ہے۔ ایک بار یہ دونوں زہرا نگاہ اور ماجد علی کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے (پہلے وہ یعنی فیض صاحب اپنے مکان میں رہے، پھر اسے بیچ کر چلے گئے اور جب آتے اپنے اور راشد صاحب کے کالج کے دوست محمد افضل مرحوم کے یہاں قیام کرتے مگر جب سے ماجد علی اور زہرا نگاہ لندن منتقل ہوئے وہ انہی لوگوں کے فلیٹ میں ٹھہرتے کہ جگہ بھی مرکزی تھی اور آرام بھی زیادہ تھا)۔ ماجد علی کے دوست صغیر صاحب نے ہم سب کو کھانے پر بلایا۔ وہیں پاکستان امبیسی کے وجاہت صاحب بھی موجود تھے جو اب آزاد کشمیر میں پولیس کمشنر ہیں۔ بڑے مخلص آدمی ہیں۔ میرا بھی بڑا خیال کرتے ہیں۔ کہنے لگے ”ساقی صاحب، اقبال کے بعد فیض صاحب کے علاوہ اور کون ہوا….“ قبل اس کے کہ میں کوئی جواب دوں فیض صاحب نے انہیں روکا ”ارے بھئی —ی— ی یہ تو ادھر کے آدمی ہیں نا…“ ان کا اشارہ راشد صاحب کی طرف تھا۔ میں نے کہا ”فیض صاحب یہ آپ نے بڑی زیادتی کی۔ میں ادھر کا بھی ہوں اور ادھر کا بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اپنا آدمی ہوں“ یہ کہہ کر میں نے ان سے وہ حکایت بیان کی جو مجھ تک سلیم احمد کے ذریعے پہنچی تھی اور یوں تھی۔ سرسید احمد خاں جس زمانے میں ہر مسلک کے مسلمانوں کی بقا کے لئے اپنے کالج کے واسطے چندہ جمع کر رہے تھے، کسی بدقماش یا بدمعاش نے ان سے سوال کیا ”سر، اگر آپ حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کے وقت زندہ ہوتے تو کس کو ووٹ دیتے، حضرت عثمانؓ کو کہ حضرت علی ؓ کو۔“ اس شرپسندی کا جواب ایسا تھا کہ سرسید کے دماغ کی زودبینی اوربزلہ سنجی دونوں کی داد واجب ہے۔ ان کا فقرہ یہ تھا۔ ”اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو اپنے لئے کوشش کرتا۔“ خوب قہقہ پڑا۔ مگر ایلس نے مجھ سے کہا (اور یہ ہماری پہلی ملاقات تھی) ”ساقی جو باتیں تم نے میرے اور فیض کے سلسلے میں راشد والے مضمون میں لکھی ہیں، میں نے پور امضمون تو نہیں پڑھا مگر فیض والا اقتباس ’نیا دور‘ سے چرا کر ’نوائے وقت‘ نے نہایت تزک و احتشام سے چھاپا تھا، وہ نامناسب ہیں، صحیح نہیں ہیں“ میں نے جوابا اپنی گفتگو میں بتایا —”ایلس آپ میرا Dilemma سمجھنے کی کوشش کریں، راشد صاحب تو یہ باتیں بتا کر چلے گئے، میں مضمون لکھنے بیٹھا تو اپنے آپ سے بہت الجھا، جو باتیں میرے شعور کا حصہ تھیں انہیں جھٹک کر ذہن سے کیسے نکال دوں، نہ لکھوں تو راشد کی ساری شخصیت کا احاطہ کیسے ہو، لکھوں تو آپ کی اور فیض صاحب کی خست سامنے آتی ہے، غرض پاکستان جا کر اعجاز بٹالوی، ضیا جالندھری اور حمید نسیم سے Check کیا، انہیں بھی راشد صاحب نے یہ واقعات بتا رکھے تھے، سو اس حصے کو مضمون سے نکالنا میرے اختیار میں نہ رہا۔“ پھر میں نے 1947ء کے بعد کے سب سے اچھے غزل گو ناصر کاظمی کا مصرع پڑھا ؎ اے بے گہنی، گواہ رہنا…..‘ ایلس کی تشفی نہیں ہوئی اور میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ ”جب بھی آپ کے میاں پر مضمون لکھنے کی نوبت آئی And I owe him an article — میں آپ کا اعتراض قلم بند کر دوں گا کہ واقعات کے دونوں رخ سامنے آجائیں۔“ فیض صاحب خاموش رہے تھے، اس لئے مجھے سخت تعجب ہوا جب 1983ء میں وہ آخری بار لندن آئے اور میں ان سے ملنے زہرا نگاہ کے یہاں پہنچا تو شکوہ سنج ہوئے۔ ”ساقی ہمیں بالکل یاد نہیں کہ ہم راشد کو بلا کر بھول گئے یا انہیں اپنے یہاں مدعو کر کے دوسروں کے یہاں لئے لئے پھرے؟“ میں اپنے صوفے سے اٹھ کر ان کے پاس جا بیٹھا، ان کا داہنا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھینچ لیا تاکہ یہ Great old man میرے خلوص کی گرمی کو محسوس کر سکے۔ میں نے کہا ”جواب بعد میں، پہل یہ بتائیے کہ نو دس سال بعد یہ بات ایک دم سے آپ کو کیسے یاد آگئی“ کہنے لگے ”ہم نے تمہارا راشد والا مضمون ہی نہیں پڑھا تھا، رات اس کی جستہ جستہ باتیں ظفر الحسن کی کتاب میں دیکھیں تو اس کا ذکر کر رہے ہیں“۔ زہرا نگاہ کی آنکھوں میں شریر چمک دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میری اس عزیز بہن نے رات یہ کتاب فیض صاحب کے حوالے کر کے مجھے کھانے پر اس لئے بلایا ہے کہ میری بے کسی کا تماشا دیکھ سکیں۔ میرے پاس کوئی نیا جواب تو تھا نہیں۔ وہی باتیں دہرا دیں جو پان سات سال پہلے ایلس کے اور ان کے سامنے کی تھیں جنہیں یہ بالکل بھول چکے تھے۔ ان کا آخری جملہ لکھ کر اس قصے سے درگزر کرتا ہوں۔ ”چلو دعوت دے کر ہم تو بھول سکتے تھے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایلس بھی بھول گئی ہوں“۔
اس بھولنے پر ایک اور قصہ یاد آیا کہ بھولتا نہیں۔لندن میں سات آٹھ سال پہلے تک غیر ادبی غل غپاڑے نہیں ہوتے تھے۔ اردو پڑھنے لکھنے والوں مین ایک غیر مرئی سکون تھا— Main Stream کے لوگوں میں بنے بھائی بہت پہلے رہ کر جا چکے تھے اور اب صرف گاہے گاہے اپنی بیٹی نجمہ اور داماد علی باقر سے ملنے آنکلتے۔ جب بھی آتے بلوا لیتے۔ میں حسب مزاج اور ان کی توقع کے مطابق ان سے خوب نوک جھونک کرتا۔ وہ نہایت صبر سے میرے جوش کی آگ پر اپنے عالمانہ استدلال سے پانی چھڑکتے۔ اپنی جوانی کو یاد کرتے اپنی یورپی محبوباؤں کے قصے سناتے۔ علی باقر مسکراتے اور نجمہ کہتی جاتیں کہ ”اب کے یہ سب باتیں امی کو ضرور بتاؤں گی۔“ غرض کہ ہم ایک دوسرے کو اپنے Points of View سے آگاہ کرتے مگر قائل کوئی نہ ہوتا۔ ایک بار رضیہ آپا آئیں اور اپنے میاں کے دفاع میں (جیسے میاں کو کسی دفاع کی ضرورت ہو، آخر کو ہندوستانی چہیتی بیوی تھیں نا) میری ایسی خبر لی کہ مجھے خاموش ہو جانا پڑا۔ بنے بھائی نے کہا ”اس لڑکے (میں 35، 36 سے کم کا نہ تھا) کی جان کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو۔“ پھر دونوں نے مجھے گلے لگا کر رخصت کیا۔ بعد میں علی باقر اور نجمہ نے بتایا کہ میرے جاتے ہی ”امی اور ابا“ نے میری شاعری اور شخصیت کی دل کھول کر تعریف کی۔ دروغ بر گردن اولاد مگر اس زمانے میں پیٹھ پیچھے تعریف کرنے کا رواج تھا۔ غرض میرے اور بنے بھائی کے گھرانے کے درمیان ایک ایسی اٹوٹ محبت قائم ہوگئی جو مرتے دم تک جاری رہے گی۔ میں باہر سے اپی تلوار کی طرح سخت سہی مگر اندر سے بریشم کی طرح نرم بھی ہوں۔ شاید۔اور ”شاید“ میں کیا مضائقہ ہے۔
بنے بھائی کے انتقال کے بعد میں دلی پہنچا تو رضیہ آپا نے کھانے پر بلایا۔میرے یار غار اور جدید ادب کے فتین نقاد محمود ہاشمی اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کے مجھے ان کے یہاں چھوڑ آئے۔ رضیہ آپا گلے لگا اس طرح ڈہک ڈہک کر روئیں کہ میرا کلیجہ چھلنی ہوگیا۔ میں دو تین گھنٹے بیٹھ کر چلنے لگا کہ دوسرے دن لاہور پہنچنا تھا۔ انہیں تاکید کر دی کہ اپنے بکھرے ہوئے افسانوں کا مجموعہ مرتب کر کے مجھے بھیج دیں تاکہ پاکستان میں کہیں چھپوا دوں۔ انہوں نے شرط لگائی کہ دیباچہ میں لکھوں۔ میں نے کہا اس سے بڑا اعزاز کیا ہو گا۔ دو تین مہینے بعد نجمہ آئیں تو مسودہ لیتی آئیں۔اس کے ساتھ رضیہ آپا کی چِٹھی بھی تھی۔ اس میں وہی تاکید کی کہ دیباچہ میں ہی لکھوں۔ ایک زمانے میں کئی افسانے میں نے لکھے تھے اور سینکڑوں کہانیاں پڑھی تھیں۔ فکشن کی تنقید پر بھی اچھی نظر تھی مگر برسوں سے شاعری کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا، اس لئے اس دیباچے کے لئے مواد جمع کر رہا تھا کہ کوئی نئی بات نکال سکوں کہ فیض صاحب لندن آئے۔ رضیہ آپا کی کتاب اور اپنے دیباچے کا ذکر ان سے اس لئے کہ کیا کہ وہ کسی بھلے پبلشر سے چھپوا دیں۔ کہنے لگے ”بھئی —ی —ی رضیہ کی کتاب کا دیباچہ تو ہم بھی لکھ سکتے ہیں نا۔“ میں نے کہا ”مگر انہوں نے تاکید کی ہے کہ میں لکھوں“ بولے ”تو تم بھی لکھ دو، ہم بھی لکھ دیں گے“۔ میری کہاں مجال کہ ان کے دیباچے کے ساتھ اپنا دیباچہ بھی چھپواتا۔ مسودہ انہیں دے آیا۔ غضب یہ ہوا کہ وہ کہیں رکھ کر بھول گئے۔ میں نے رضیہ آپا کو سارا ماجرا لکھ کر بھیج دیا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے انتقال سے پہلے دلّی میں ان سے ملنے گیا تو بہت بیمار تھیں۔ چلنے لگا تو انہوں نے میرے دونوں بازوؤں پر امام ضامن باندھے اور صرف اتنا کہا ”اگر فیض سے دیباچہ لکھوانا ہوتا تو میں مسودہ انہیں بھجواتی“۔ میں نے کہا ”آپ مجھے جی بھر کے ذلیل کر لیں۔ آپ کو اپنی شرمندگی کی داستان کیا سناؤں۔ بس مجھے صدق دل سے ایک بار معاف کر دیجئے اور مجموعہ دوبارہ مرتب کر کے بھیج دیجئے، آنکھوں سے لگا کر رکھوں گا“۔ انہوں نے اپنی موہنی مسکراہٹ کے ساتھ وعدہ کر لیا۔ میں مطمئن ہو کر چلنے لگا تو نجمہ اور علی باقر کے ساتھ کہنے لگیں ”اور ہاں دیباچے میں جدید یوں کی خوب خبر لینا۔“ میں نے کہا ”رضیہ آپا جدید تو میں بھی ہوں۔ اپنی خبر کیسے لوں گا“ بولیں ”تو، دوسرے قسم کا جدید ہے، میں تو جدید یوں کا ذکر کر رہی ہوں“ میں لندن چلا آیا۔ تین چار ماہ بعد رضیہ آپا کا انتقال ہوگیا۔ دل کٹ کے رہ گیا۔ پھر Guiltکا احساس کچھ کم نہ تھا۔ اس کے بعد بیسویں بار فیض صاحب سے ملاقا ت ہوئی۔ ہر بار اس مسودے کا ذکر کیا۔ انہیں اتنا تو یاد پڑتا تھا کہ افضل صاحب کے مکان میں انہوں نے کہیں رکھا تھا۔اس کے بعد ان کا حافظ ورنہ انکار میں چلا جاتا۔ ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ اداس ہوجاتے دیکھو سوچتے ہیں“ ضرور کہتے۔ پچھلے برس علی باقر ملنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ رضیہ آپا کی کہانیوں کے مجموعے چھاپ رہے ہیں، ساری کہانیاں جمع کر لی ہیں سو اب اس باب میں طبیعت کو کچھ سکون ہے۔ فیض صاحب کی یادوں کے چراغ کے پاس رضیہ آپا کے امام ضامن بھی دل کے طاق میں رکھے ہوئے ہیں کہ ان خیراتوں کا مستحق مجھ سے زیادہ اور کون ہوگا۔
فیض صاحب سے تنہائی میں جو باتیں ہوئیں وہ خاصی ذاتی قسم کی تھیں، ان میں سے دو ایک باتوں سے پردہ اٹھائے دیتا ہوں۔ وہ بھی اس لئے کہ ان سے فیض صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ایک بار ایک نئے شاعر نے (جو پرانی زبان اور کلاسیکی استعارے میں درک رکھتے ہیں اور جن کی صلیبیں میر انیس اور میرزا دبیر کے دریچے میں گڑی ہوئی ہیں) فرمائش کی کہ فیض صاحب کو ان کے ہاں لیتا آؤں۔ میں افضل صاحب کے گھر پہنچا تو ٹیلی ویژن پر فٹ بال کے ورلڈ کپ کا کوئی میچ دیکھ رہے تھے۔ تیار ملے۔ میں کار میں انہیں لے کر چلا۔ راستے میں Spaniard’s Inn (ہمارا پرانا پب) پڑتا تھا۔ میں نے کہا ”چلئے پرانی صحبتوں کی یاد تازہ کی جائے“ کہنے لگے ”کیوں نہیں“ اصل میں میرا دل اپنی نظمیں سنانے کے لئے مضطرب تھا۔ وہ بیٹھ گئے، میں جا کر شراب لے آیا اور اپنی دو نظمیں ”شیر امداد علی کا میڈک“ اور ’رات کے راج ہنس اور ہات“ سنائیں۔ دھیمے سُروں میں تعریف کی۔ اس طرح داد نہیں دی جیسی ’میڈک‘ والی نظم پر راشد صاحب نے دی تھی۔ شاید جوش آفرینی ان کے مزاج میں نہیں تھی۔ پھر کہنے لگے ”ان سب نظموں کی رسائی ہوگی، ہوگی کیوں نہیں، تمہاری بھی ہوگی، راشد کی بھی ہوگی، ذرا دیر لگے گی“ میں نے کہا ”آپ مجھے راشد صاحب سے کیوں بھڑا رہے ہیں، ان کی تو رسائی بھی ہوچکی،ان کا Impact بھی شدید ہے، نئے لوگوں پر، میرا جی کا بھی ہے۔“ میں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔ اس لئے ذرا ٹھہر کر پوچھا ”فیض صاحب، ویسے راشد کے بارے میں آپ کی اصلی رائے کیا ہے“۔ انہوں نے سگریٹ سے سگریٹ سلگائی اور گویا ہوئے ”سچی بات تو یہ ہے کہ اس کا دماغ مجھ سے بڑا تھا۔“ اس فقرے کے بعد اس دریا دل شاعر نے اپنے ہم عصر دوست کے بارے میں وہ باتیں بھی کیں جو ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“ والے انٹرویو میں ہیں مگر اس فقرے میں جو ہشت پہلو اعتراف چھپا ہوا ہے اس سے میرے دل میں فیض صاحب کا وقار بڑھ گیا۔ راشد صاحب نے اس طرح انہیں کبھی داد نہیں دی تھی۔ وہ دوسرے قسم کے آدمی تھے۔
اسی طرح انہیں ایک بار کسی محفل سے گھر واپس لے جا رہا تھا۔ ہمپسٹڈ کے ایک سنسان اور اندھیرے راستے میں گاڑی روک دی۔ رات کے د و بجے تھے اور سڑک کے دونوں طرف ہیبت ناک درختوں کی شاخیں اپنے پتوں کے دف بجا رہی تھیں۔ کہنے لگے ”اتنی ڈراؤنی جگہ پر کار کیوں روک دی۔“ میں نے کہا ”تاکہ خوف سے گھبرا کر آپ جلدی جلدی ان تمام خواتین کا نام بتا دیں جو آپ کے شعروں کے حجاب میں ہیں اور جن کا ذکر آپ کسی سے نہیں کرتے۔ آخر میری ہی نسل کے لوگ تو آپ کا نام آگے لے جائیں گے نا۔ اور آنے والوں کو بتائیں گے کہ راشد ایسے تھے، آپ ایسے تھے“۔ بولے ”بتاتے ہیں بھئی —ی— ی بتاتے ہیں مگر گاڑی تو چلاؤ“۔میں نے انجن اسٹارٹ کیا اور پوچھا ”یہ رقیب والی نظم کے پیچھے کون تھا؟“
”وہ ہمارے کالج کے زمانے کا ایک فلیم (Flame) تھا بھئی تم انہیں نہیں جانتے۔ یہ ہمارا پہلا عشق اور پہلی شکست تھی۔“
”اور رقیب کون صاحب تھے؟“
”انہیں بھی تم نہیں جانتے، ایک کاروباری آدمی ہیں“۔
”تو معاملہ کچھ آگے بڑھا کہ نہیں….؟“
”نہیں“
”اورد —ر— ج، سے؟“
”ہم ان سے بہت ڈرتے تھے۔ عشق کا سوال ہی نہ اٹھا۔“
”اور ب— م— م، سے؟ سنا ہے کہ آپ دونوں کئی بار ایک ہی کمرے میں سوئے بھی؟“
”تو سونے سے کیا ہوتا ہے، بھئی بعض لوگوں پر نظر کا حق ہوتا ہے بعض پر دل کا، وہ حق تو ہم ادا کرتے رہے۔“
”بدن کے بھی تو کچھ حقوق ہوتے ہیں؟“
”تم یورپ میں آکر بس گئے ہو اور بھول گئے ہو کہ ہر عشق کے لئے ضروری نہیں کہ آدمی بستر بھی ساتھ ساتھ لے کر چلے، دوستیاں رہیں کئی خواتین سے اور خوب رہیں اور بس۔“
”یہ جو بھری محفلوں میں آپ خوبصورت خوبصورت لڑکیوں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بیٹھے رہتے ہیں یا ان کے شانوں اور گردنوں کو سہلاتے رہتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میری روح پر خلجان طاری ہوتا رہتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے دوچار میرے حوالے کر دیجئے۔ دوسرے یہ کہ کیا آپ کا دل نہیں دھڑکتا؟“
”بھئی دھڑکتا ہے جبھی تو دل کا اور نظر کا حق ادا کرتے رہتے ہیں نا؟“
غرض کہ میں فلانے کا اور فلانے کا ذکر کرتا گیا مگر موصوف فقط ”دل کا حق“ اور ”نظر کا حق“ کی رٹ لگاتے رہے۔ ایسے شرمیلے تھے کہ یہ باتیں کرتے وقت بھی چہرے پر طرح طرح کے رنگ آتے جاتے رہے۔ یہ سوچ سوچ کر رشک آتا ہے کہ میں تو اپنے جہنم زار میں چل رہا ہوں اور وہ کم سن حوروں کا ہاتھ اپنے میں لئے، نظر اور دل کا حق ادا کر رہے ہوں گے۔
ایک محفل میں ایک چھوٹا موٹا ہنگامہ ہوگیا۔ اس کا سرسری ذکر میں اپنے مقالے ”نظم کا سفر“ میں کرچکا ہوں۔ پورا واقعہ یوں تھا۔ مغنیِ تبسم کی بہن اور بہنوئی نے اپنے فلیٹ میں ایک محفل برپا کی۔ تقریباً 50 مہمان تھے۔ ہم سب چھٹ بھئے (میں، احمد فراز، شہرت بخاری وغیرہ) اپنا اپنا کلام سنا چکے تو فیض صاحب کی باری آئی۔ انہوں نے اپنی کچھ نئی چیزیں سنائیں۔ ابھی داد کے ڈونگرے برس ہی رہے تھے کہ میں نے فرمائش کی۔ ”فیض صاحب آج پھر اپنی وہ معرکہ آر انظم ”رقیب سے“ سنائیے۔“ انہوں نے اپنے سہج سہج انداز میں نظم شروع کی۔ ایک ایک مصرعے پر تحسین کا طوفان اٹھتا رہا۔ سب سے زیادہ زور شور سے میں داد دے رہا تھا کہ نظم کا بیسواں مصرع ”جزترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں“ آن پہنچا میں نے کہا ”بس، نظم یہیں ختم ہو جاتی ہے، آگے مت سنائیے۔“ ایسے دلدار آدمی تھے کہ مان گئے۔ پھر احمد فراز نے کہا، محمد علی صدیقی نے کہا، شہرت بخاری نے کہا۔ ہندوستان کے مشہور مصور حسین صاحب نے کہا مگر فیض صاحب بولے ”نہیں بھئی جب ساقی نہیں سننا چاہتا تو ہم کچھ اور سنائیں گے“۔ اور انہوں نے پبلک کے بے حد اصرار کے باوجود نظم نہیں سنائی۔ شہرت جیسے بھلے مانس کم کم پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے میرے کان میں کہا ”اب تم کہو۔“ میں نے تو من کی موج (Impulse) میں آ کر ایک بات کہہ دی تھی۔ شاید ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی ہو کہ آس پاس بیٹھے ہوئے برے برے شاعروں کو بتایا جائے کہ نظم کیسے شروع کرنی چاہئے اور کہاں ختم کرنی چاہئے۔ پھر اس سے زیادہ مہلک باتیں فیض صاحب سے اور راشد صاحب سے اور سجاد ظہیر صاحب سے اور سردار جعفری صاحب سے کر چکا ہوں۔ کینے کے بغیر۔اور نیت کی صفائی کے ساتھ۔ یہ کشادہ قلب بزرگ تھے اور ہیں۔ ان کے دلوں میں میری طرف سے کبھی رنجش پیدا نہیں ہوئی۔ فیض صاحب جب بھی آتے زہرا نگاہ سے فون کروا کے مجھے ضرور بلواتے۔ میں ان سے ضرور چھیڑ چھار کرتا۔ وغیرہ وغیرہ۔خیر۔
اب مجھے اپنے الفاظ تو یاد نہیں مگر شہرت کے کہنے پر میں نے فوراً کہا تھا ”غریبوں کی حمایت اور مزدور کے گوشت کا تقاضا تھا کہ آپ ایک الگ نظم کہتے، اور آپ نے کئی عمدہ عمدہ نظمیں ان مسائل پر کہی ہیں، اس نظم میں آخری 12 مصرعے پیوند لگتے ہیں۔ اس لئے میں نے گستاخی کی تھی۔ اب یہ ہے کہ آپ پوری نظم سنائیے۔میری بات کا برا نہ مانئے۔“ مگر وہ بہانہ کر کے ٹال گئے۔ دوسرے دن محمد علی صدیقی نے مجھے بتایا تھا کہ اردو کے ایک ادارے میں سارے عندلیب بیٹھے آہ و زاریاں کر رہے تھے۔ میں نے اپنے طور پر اس بات سے طمانیت حاصل کی کہ تمام عندلیبوں کو کام پر لگا رکھا ہے۔
زہرا نگاہ کے یہاں آئے دن نشستیں ہوتی رہتی ہیں اور کمال کی مگر جب جب فیض صاحب ان کے یہاں ٹھہرنے آتے، گھر کی بہار اور محفلوں کی رونق بڑھ جاتی۔ اور میرے پھیرے بھی۔ ان پھیروں میں ان سے سیکڑوں باتیں ہوئیں اور ساری باتیں زہرا نگاہ اور ماجد علی کے سامنے ہوئیں۔ یہاں صرف ان چیزوں کا ذکر کروں گا جن سے فیض صاحب کی شاعری یا شخصیت کو سمجھنے میں کسی نہ کسی قسم کی مدد مل سکے۔
ایک اتوار کی صبح کو پہنچا تو دیکھا ایک جوڑا فیض صاحب سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو رہا ہے۔ میں زہرا نگاہ کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہفتے بھر سے طرح طرح کے لوگ فیض صاحب سے ملنے چلے آرہے ہیں اور یہ کہ ”آج والے لوگ“ بسکٹ بناتے ہیں اور فیض صاحب کے لئے بسکٹوں کے کئی ٹن لائے ہیں اور فیض صاحب کے ساتھ گھنٹے بھر بیٹھ کے گئے ہیں“۔ اتنے میں فیض صاحب ”تو ہاں بھئی…یہ کہاں غائب رہے“ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ میں نے کہا ”ابھی بتاتا ہوں مگر پہلے آپ یہ بتائیے کہ ایرے غیرے چپڑ قناتیوں کے ساتھ آپ اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں؟“
”بھئی اتنی محبت سے یہ لوگ فون کرتے ہیں اور آتے ہیں۔ ہم ان کا دل کیسے دکھائیں“۔
”لیجئے فیض صاحب، آپ بھی کمال کرتے ہیں، دل ہوتا کس لئے ہے، دکھانے کے لئے تو ہوتا ہے…“ میں نے ذرا دل لگی کی۔ ”پھر یہ کہ آپ فرصت کا رونا روتے ہیں۔ اصل میں آپ نے اپنے آپ کو بہت پھیلا رکھا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا وقت آپ کے پاس رہا نہیں۔ پچھلے دس پندرہ سال میں جو غزلیں نظمیں آپ نے لکھی ہیں وہ آپ کے معیار کی نہیں۔ آپ سے توقعات کچھ اور ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آپ نے جو ’طرز سخن‘ ایجاد کی تھی وہی گلشن میں ”طرز فغاں“ ٹھہری ہے مگر آپ وقت کی کمی کے باعث اپنی سطح سے بہت نیچے اتر گئے ہیں۔ پھر آپ کی گفتگو اور آپ کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ کم از کم 20 سال سے آپ نے کوئی نئی کتاب نہیں پڑھی۔ یہ اردو ادب کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔“
یہ مضمون لکھتے وقت سوچ رہا ہوں کہ شاید یہ باتیں سخت تھیں اور لہجے میں بھی، ڈپلومیسی نہیں تھی مگر جس آدمی سے دل کی دھڑکن کی طرح قربت محسوس ہو اس کے ساتھ ڈپلومیسی کا سوانگ رچانا صرف غیر مہذب لوگوں کا کام ہے اور دوغلاپن میرے احاطہ اختیار میں نہیں۔ ادھر کے لوگوں میں میر تقی میر، حسرت موہانی اور یاس یگانہ چنگیزی ایسوں اور ادھر کے لوگوں میں بیت ہو فن، از راپونڈ اور ڈی اچ لارنس جیسوں سے اپنے مزاج کو ہم آہنگ پاتا ہوں۔ دل دکھانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ خود اپنا دل بھی دکھتا ہے اور حساس آدمی کا شاید کچھ زیادہ ہی۔ سو یہ درد تو سائے کی طرح زندگی کے ساتھ ساتھ ہے۔
ماجد علی اور زہرا نگاہ نے میرے جملوں کا کھردرا پن ”چین جبیں“ سے کم کرنے کی کوشش کی مگر فیض صاحب کی ”نازنینی“ عجیب تھی۔ اپنے گرم تبسم سے اور اپنے نرم لہجے میں کہا تو صرف یہ کہا ”بھئی —ی —ی فرصت ہی نہیں ملتی نا۔اب پڑھیں تو کیسے پڑھیں۔ پھر ہم نے اپنا بہتر کام تو ختم کر دیا نا۔ اسی سے ہمیں جانچو، یہ نئی چیزیں اگر معیار سے ذرا گر گئی ہیں تو ہم کیا کریں، شاعر کو اس کے بہتر کلام ہی سے پرکھا جاتا ہے۔“
ایک شام میں ماجد علی کے ہاں گیا تو دیکھا کہ احمد فراز پہلے ہی سے پہنچے ہوئے ہیں۔ بہترین وسکی اور بہترین انواع و اقسام کے کھانے کے لئے زہرا نگاہ کا گھر چار دانگ میں مشہور ہے مگر مجھے یہ امید نہیں تھی کہ فقرے بازی کے لئے اللہ ٹارگٹ (Target)بھی مہیا کر دے گا۔ فراز کو دیکھ کر آنکھوں کی چمک تیز ہوگئی۔ مالک حقیقی کے تحائف کو ٹھکرانا کفران نعمت ہے، اس لئے ادھر اُدھر کی گفتگو کے بعد جب احمد فراز نے فیض صاحب سے پوچھا ”آپ نے میری نظموں کے ترجمے دیکھ ڈالے؟“ فیض صاحب نے جواب دیا ”ادھر اُدھر سے نظر ڈالی ہے، رومانی نظمیں بہتر ہوگئی ہیں مگر…“ میں نے بات پکڑ لی اور کہا ”یونان کے ایک گم نام شاعر تھے۔ 1979ء میں انہیں نوبل پرائز مل گیا۔ اب اتنے گم نام نہیں رہے۔ ان کا نام ہے ’(Elytis)Alepoudhelis‘ جب ترجمہ باز پہنچے تو انہوں نے بڑی عمدہ بات کی اور بیان دیا کہ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ترجموں سے نہ لگایا جائے کہ ترجمے میں اچھے شاعروں کی سبکی ہوتی ہے اور برے شاعر بہتر ہو جاتے ہیں۔ اب اس بیچارے فراز کو لیجئے۔ ادھر آپ نے لاہور میں ایک بار ”مقتل“ لکھا۔ ادھر اسنے پشاور سے 30 ”مقتل“ بھیجے۔ ادھر آپ نے ایک ”جاناں“ لکھا۔ ادھر اور اس نے ”جاناں جاناں“ کا ورد شروع کر دیا۔ ادھر آپ نے ایک ”صلیب“ اٹھائی۔ یہ برادر پورا درخت کاٹ کر چل نکلا۔ نہ صرف یہ بلکہ اب آپ ہی کی طرح اٹک اٹک کر مشاعروں میں شعر بھی پڑھنے لگا ہے۔آپ ہی کی طرح سگریٹ پیتا ہے بلکہ راکھ بھی آپ ہی کے انداز میں جھاڑتا ہے….“ فیض صاحب کہنے لگے ”بھئی تم اپنا کام کئے جاؤ۔ انہیں اپنا کام کرنے دو۔“ میں نے کہا ”آپ کو تو لطف آتا ہے کہ لوگ آپ کی نقل کر رہے ہیں بلکہ آپ ان لوگوں کی پرورش بھی کرتے ہیں حالانکہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی زندہ اور بزرگ ہم عصر کی نقل کرنا اپنی موت کو دستک دینے کے مترادف ہے“۔ ان کا وہی نرم جواب ”بھئی سب آدمی تو زندہ نہیں رہتے نا۔ سب کو اپنا اپنا کام کرنے دو“۔ میں نے زچ ہو کر کہا ”جس طرح میر کا نام غالب سے غالب کا نام اقبال سے اقبال کا نام آپ سے اور راشد سے اور میرا جی سے چلا کہ آپ لوگ مختلف تھے (آپ اقبال کی طرح لکھتے تو آپ کانام کون لیتا)۔ اسی طرح آپ کا نام ناصر کاظمی، منیز نیازی جیسے لوگوں سے توآگے بڑھے گا کہ یہ آپ سے مختلف انداز میں چلے،ان سے نہیں جنہوں نے آپ کے لفظ پر لفظ لکھا اور مکھی پر مکھی ماری۔“ مگر واہ رے فیض صاحب۔ اپنے مسلک سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ واقعی دل آزاری ان کے مزاج میں نہیں تھی۔ آخر آخر میں بھی صرف یہی کہا ”ہاں ہاں تو وہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی غلط نہیں۔“ یہ ادا ان کے مزاج کی سب سے بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے لیکن میں اپنے آپ کو ان کی شخصیت کے اس پہلو سے کبھی متفق نہ کر سکا۔
اس پورے عرصے میں احمد فراز ہوں ہاں کے علاوہ کچھ نہیں بولے اس لئے کہ دوسرے دن انہیں میرے غیاب میں زہر اگلنا تھا۔ کھانا وانا کھا کے میں چلنے لگا تو وسکی بہت چڑھ چکی تھی اس لئے جب زہرا نگاہ نے کہا کہ میں فراز کو چھوڑتا جاؤں تو میں نے نشے کا حوالہ دیے بغیر بہانہ کیا ”بہن، میں انہیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا کہ جوں ہی کوئی خراب شاعر بیٹھتا ہے گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے“۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ دوسرے دن ملنے پہنچا تو فیض صاحب نے کہا۔ ”تمہارے بیٹھنے سے تمہاری گاڑی کے دو پہئے تو مستقل ہلتے ہوں گے۔“ میں ان سے لپٹ گیا۔
ایک چٹکلہ یاد آیا۔ اپنی زبان اور دوسروں کی طبیعت صاف کرنے کے لئے کراچی کے زمانے میں دوچار شریر شعر کہہ کر سینہ بہ سینہ چلوا دیے تھے مثلاً:
دونوں ”مفاعلاتن“ اک دوسرے کے والد
سید رفیق خاور، عبدالعزیز خالد
(لطیفہ یہ کہ یہ شعر پچھلے سال حبیب جالب نے میری اور شہریار اور زہرا نگاہ کی موجودگی میں، اپنا کہہ کر سنایا۔ میری یاددہانی پر انہوں نے اپنی تصحیح کر لی۔ خیر حافظے کی لڑکھڑاہٹ ہم سے ہو جاتی ہے۔ پھر شعر ایسا ہے کہ ہر آدمی کو اپنا معلوم ہوتا ہے)
اور دوسرا شعر (جو فیض صاحب کے شعر میں صرف تین الفاظ بدل کر ترتیب دیا تھا) تو خوب چلا بلکہ حق تو یہ ہے کہ قیوم نظر کی شاعری سے زیادہ چلا۔ یوں ہے:
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی ”نفرت“ مجھ سے
اک نظر تم مرا ”قیوم نظر“ تو دیکھو
(سید ابوالخیر کشفی نے ”افکار“ کے فیض نمبر میں اسے لاہوری شعر کہہ کر پیش کیا تھا۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ خالص کراچوی ہے اور اس بندہئ عاجز کا ہے)
خالد صاحب سے کراچی میں اور قیوم صاحب سے لندن میں یہ کہہ کر معافی مانگ لی تھی کہ یہ اشعار برائے بیت ہیں اور تفنن طبع کے لئے کہے گئے تھے اور ان سے دل آزاری مقصود نہیں تھی اور ان دونوں نے میرے خیال میں مجھے معاف بھی کر دیا مگر ایک دن بیٹھے بٹھائے فیض صاحب نے کہاکہ ”تمہارا قیوم نظر والا شعر بڑھیا ہے مگر لوگوں کے دل دکھانے سے آدمی کو پرہیز کرنا چاہئے۔ مذاق میں بھی نہیں۔“ میں کیا کہتا۔
میں پلٹ کر دو عشروں کی طرف دیکھتا ہوں تو فیض صاحب کی غیر معمولی فرشتہ صفتی پر صرف ایک داغ نظر آتا ہے۔ وہی تعلقات عامہ والا۔ اس کے کئی مناظر میری گنہہ گار آنکھوں نے دیکھے۔ ان کا انداز اتنا دقیقہ سنج یعنی Subtle ہوتا تھا کہ دل عش عش کہہ اٹھتا تھا۔ کلیدی صحافیوں سے بنائے رکھنا، بعض احمقوں کو بار بار خط لکھنا، ایک ہی طرح کی دیباچہ بازی کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سیاسی رویے کی کرشمہ سازیاں تھیں۔ اب سوچتا ہوں کہ ایسے سجیلے شاعر پر تو سات خون معاف تھے۔ وہ شاعر تھے اور شاعر رہیں گے نہ انہوں نے پیغمبری کا دعویٰ کیا نہ وہ پیغمبر تھے۔
12 ستمبر 1983ء کی تاریخ دل پر نقش ہے۔ وہ میرے یہاں کھانے پر مدعو تھے۔ حکم دیا کہ میں انہیں اپنے گھر کا ایک ایک کمرہ دکھاؤں۔ میں نے یہ کام اپنے بیوی (گن بلڈ جنہیں میں خباثت اور میرے تمام احباب پیار سے گنڈی کہتے ہیں) کے حوالے کر دیا۔ نیچے اوپر ہر جگہ گئے۔ گنڈی کے سلیقے کی کھل کر تعریف کرتے گئے۔ گنڈی پر بوسے نچھاور کرتے رہے اور ”دل کا حق“ اور ”نظر کا حق“ ادا کرتے رہے۔ شاید گنڈی اس سارے عرصے،میرے مزاج کے برے پہلو ”جلالیت“ کی شکایت کرتی رہیں۔ آکر صوفے پر بیٹھے تو مجھے بہت ڈانٹا پھٹکارا اور بڑی لعن طعن کی۔ میری عمر پوچھی۔ بتایا تو کہنے لگے اب وقت آگیا ہے کہ تمام اول فول چیزوں سے پرہیز کروں اور بس جم کر صرف شاعری کروں اور گالی گلوج تو قطعی طور پر بند کروں اور بخشش عام کروں اور بیوی کی فرمائش پر ”فیض اکیڈمی“ کا کاغذ لیا اور ”بادوستاں تلطف بادشمناں مدارا“ لکھ کر چلے گئے۔
فیض صاحب، اگر جوش گفتگو میں گاہے گاہے مجھ سے زیادتیاں ہوگئی ہوں تو مجھے معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ سے اتنی ہی محبت کی جتنی دوسروں نے کی مگر میں ”اپنا آدمی“ بھی ہوں اور آج آپ سے آخری فرمائش کرنے آیا ہوں۔ ذرا ”نسیم صبح چمن“ سے کہہ دیجئے کہ میرے گھر میں، جہاں آپ کے سانسوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں ”یادوں سے معطر“ تو آئے مگر ”اشکوں سے منور“ نہ جائے۔
لندن: 15 اکتوبر 1986ء