عثمان خان سیال
افغانستان میں خلافت کا نظام دھوکہ اور سراب ہی نکلا۔ نہ تو کوئی مجوزہ اسلامی معیشت نظر آئی اور نہ ہی مجوزہ اسلامی سیاسی نظام۔ اسلامی نظام کے دعویدار جو نصف صدی سے انسانیت کی تذلیل کر رہے تھے اور انسانیت کا قتل عام کر رہے تھے، دہشتگردی کو جہاد قرار دے رہے تھے اور نوح انسانی کوہر لحاظ سے تباہ کرنے میں مصروف عمل تھے، آج جب چار کروڑ کی آبادی والے ملک پر قبضہ کر چکے ہیں اور حکومت بنا چکے ہیں تو اپنے ہی ہاتھوں عریاں ہو رہے ہیں بلکہ ننگے ہو چکے ہیں۔
نہ تو یہ دہشت گرد کوئی متبادل نظام نافذ نہ کرسکے، نہ ہی پہلے سے موجود نظام کو چلا پا رہے ہیں۔ وہی عالمی منڈی کی لبرل سرمایہ دار معیشت پورے ملک میں رائج کرنی کو کوشش ہے۔ طبقاتی سماج بھی وہی ہے۔ صرف دو چار تبدیلیاں نظر آئیں ہیں: برقعہ پہنا کر عورت کو کٹر پدر سری سماج کے قوانین کے تابع کرنا، عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگانا، اقلیتوں کے لیے عدم تحفظ کی فضا قائم کرنا، تعلیم اور صحت کے نظام کو تباہ کرنا۔
ہمارے یہاں ایسے دانش واروں کی بہتات ہے جو اسلامی سیاسی نظام اور اسلامی معیشت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور ماضی میں کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں طالبان کی حمایت کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے آنے سے اسلامی نظام نافذ ہو گا۔ یہ حضرات آج منظر عام سے غائب ہیں۔
ویسے بھی یہ اتنے جاہل اور قدامت پرست ہیں کہ پیدواری ذرائع، پیداواری رشتے، اقتصادی پیداوار اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی ڈھانچے، جو لازمی طور پر اپنے عہد کی سیاسی، معاشی اور ذہنی تاریخ کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ تبدیلی کے عام نظریہ کو ماننے سے انکاری ہیں بلکہ پیداواری ذرائع پر صدیوں پرانے پیدواری رشتے لگانے کے چکر میں ہیں۔ اقتصادی پیداوار اور سماجی ڈھانچہ پر کسی اور دور کا سیاسی اور معاشی نظام لگانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ کوئی نیا نظام اسلامی امارات افغانستان میں نافذ ہو رہا ہے تو ایک نظر افغانستان کے حالات پر ہی ڈال لیتے ہیں جہاں غربت کا ننگا ناچ جاری ہے، آزادی اظہار رائے کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے، صحافیوں کو مارا جا رہا ہے ہراساں کیا جا رہا ہے، عورتوں کے حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، بھوک نے تہذیب کے آداب چھین لیے ہیں، لوگ اپنے بچے بیچ رہے ہیں، گھر کا سامان تو کئی خاندانوں کا پہلے ہی بک چکا ہے۔
چار ماہ میں ہی انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔
جرائم بڑھ رہے ہیں۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے غذائی قلت کی شکار ہو رہے ہیں۔ ساڑھے پانچ بلین کا بجٹ جو زیادہ تر امریکی امداد اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر چلتا تھا مکمل ختم ہو چکا ہے۔ نوے فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گر رہی ہے۔ خواندگی کی شرح گر رہی ہے۔ صحت کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ سماج انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ غرض یہ کہ سماج میں کہیں مثبت تبدیلی کے آثار نظر نہیں آئے۔
عام معصوم افغانوں کو ایک فائدہ ہوا ہے کہ خودکش بمباری کم ہوئی ہے کیونکہ خودکش بمبار حکومت میں آ گئے ہیں۔ اب وہ اس جہاد سے قاصر ہیں کیونکہ جواز نہیں رہا لیکن بربریت کا شوق غیر انسانی سزاؤں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔
کم علمی کا عالم ان کے ہاں یہ ہے کہ طبقات کو مانتے ہی نہیں۔ عالمی معاشی نظام کا کچھ اتہ پتہ نہیں۔ گلوبلائزیش اور جدیدیت کو دشمن خیال کرتے ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ افغانستان میں فتح مکہ منانے والا پاکستانی میڈیا ناظرین کو بالکل نہیں بتا رہا ہے کہ فتح مکہ کے بعد افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔