ناصر اقبال
جدوجہد آن لائن کے شمارے بتاریخ 03 ستمبر 2021ء کو زیر عنوان ’عوامی جمہوریہ چین، ابھرتی سپر پاور؟‘ پر ہمارا مضمون موجود ہے، جس میں ماضی اور حال کی سپر پاورز کی ترکیب یا ارتقا کے ضروری اجزا اور دیگر عوامل پرمختصر بحث کی گئی ہے۔ دوستوں سے درخواست کہ اس کالم کو پڑھنے سے پہلے ایک نظر اسے بھی دیکھ لیں۔
آج یوکرائن پر روسی یلغار کو ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکاہے او ر معاملہ کسی بہتر حل کی طرف جاتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ حسب معمول میڈیا اور سوشل میڈیا پر انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا بازار گرم ہو چکا ہے اور متضاد قسم کی خبروں کا چلن عام ہو گیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ کسی کو بھی حتمی خبر کی خبر نہیں ہے۔ اس سارے قضیے میں صرف ایک بات ہی اچھی اور حتمی ہے اور وہ یہ ہے کہ یوکرائن کی عوام نے اپنی آزادی کی بقا کی ٹھان لی ہے۔ اس سلسلے میں ہم پاکستانی میڈیا کو مستثنیٰ کرتے ہیں کیونکہ ان کے تئیں عمران خان اور اپوزیشن کی لڑائی ہی دنیا کے سب سے بڑے اور اہم ا یشوز ہیں۔ احتیاطً ہم اپنے اس کالم میں کسی بھی ملکی یا غیرملکی اخباری خبر کا حوالہ نہیں دینگے اور صرف حتمی تاریخی حقائق کی روشنی میں معاملے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرینگے۔
یاد رہے کہ ہمارا موضوع یہ نہیں کہ یوکرائن کا کیا ہو گا یا ہو چکا ہے، موضوع یہ ہے کہ روس کا کیا ہو گا۔ کیا روس جنگ جیت پائے گا اور جیت جانے کی صورت میں اپنے آپ کو ایک سپر پاور کے طور پر دنیا سے منوا پائے گا، کیونکہ ابھی تک یہی بات سامنے آ سکی ہے کہ روس دوبارہ سے اپنے آپ کو سپر پاور منوانا چاہتا ہے۔
دنیا میں ہمیشہ سپر پاور کے اعزاز کے لیے دوڑ لگی رہی ہے۔ کبھی روم، کبھی ایران و ترکی اور کبھی برطانیہ و امریکہ۔
ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی نے ایک دفعہ اپنے دربار میں اعلان فرمایا کہ اس نے ہندوستان پر حملے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، لہٰذا تمام درباریوں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ حملے کا مناسب جواز تلاش کریں یا گھڑ لیں۔ تاریخ میں مناسب جواز کا ذکر تو نہیں ملتا البتہ ہندوستان پر حملہ ضرور ہوا۔
ماضی اور حال کی تمام سپر پاورز میں کم از کم ایک قدر مشترک ضرور رہی ہے کہ وہ ہمسایہ یا چھوٹے ممالک پر حملوں کا کوئی جھوٹا سچا جواز بنا کر حملہ آور ہوئے۔ سپر پاور بننے کی اس تاریخی دوڑ کے ضمن میں یوکرائن پر حالیہ روسی حملہ اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ روسی قیادت نے حملے کے لیے کسی بھی قسم کے معقول جواز کو بنانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ عالمی دانشور میڈیا پر جو نت نئے جواز ایجاد کر کے پیش کر رہے ہیں، ان کے بارے میں شائد مسٹر پیوٹن جانتے ہی نہ ہوں۔ نیٹو کا بہانہ محض ایک بودا جواز ہے۔ بغیر کسی جواز یا بغیر کسی مناسب جواز کے حملوں سے روس شاید اپنے آپ کو سپر پاور ہی نہیں بلکہ سپر پاور پلس کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ یوکرائن سے جنگ سے پہلے بھی مسٹر پیوٹن 4 جنگیں لڑ چکے یہ ان کی پانچویں جنگ ہے۔چیچنیا سے جنگ (1999-2009ء)، جارجیا سے جنگ (2008ء)، کریمیا کی فتح (2014ء)، قازقستان میں فوجی آپریشن (2022ء)، مسٹر پیوٹن ان 4 جنگوں کے فاتح ٹھہرے کیونکہ بیرونی دنیا نے انہیں رشین فیڈریشن کا اندرونی معاملہ جانا اور کسی قسم کی مداخلت نہ کی۔ روسی قیادت آج یوکرائن سے جنگ کو بھی فیڈریشن کا اندرونی معاملہ ہی قرار دے رہی ہے، لیکن انگریزی کہاوت کے مصداق کہ ’Everyday is not Sunday‘۔ روسی قیادت کا خیال تھا کہ ادھر سے حملہ ہو گا اور یوکرائنی افواج مسٹر زیلنسکی کا تختہ الٹ دیں گی اور وہ اشرف غنی کی طرح فرار کا راستہ اختیار کریں گے، یوکرائنی عوام پھولوں کے ہار لے کر روسی افواج کا استقبال کریں گے اور بیرونی دنیا کسی قسم کا رد عمل نہیں کرے گی، کیونکہ روسی قیادت کا فرمان ہی حکم الٰہی ہے۔ مگر یہ سب ہو نہ سکا، اب صورتحال یہ ہے کہ ایک کامیڈین جنگی ہیرو بن چکا، یوکرائنی عوام و افواج نے اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کا پختہ عزم کر لیا ہے اور گوریلا جنگ شروع کر دی۔ نیٹو کی صورت دنیا نے ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے جدید فوجی ہتھیاروں کے ذریعے سے ان کی مدد کرنا شروع کر دی۔ دو چار دن کی فتح کن جنگ اب روسی قیادت کے لیے ایک ایسی اندھیری رات میں بدل چکی جو بقول شاعر جو نہ روتے کٹے ہے اور نہ سوتے کٹے ہے۔ روس پر عائد عالمی معاشی، سماجی اور سیاسی پابندیوں کے اثرات تو آنا ابھی باقی ہیں۔
یاد رہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد آج تک دنیا کی کوئی بھی فوج شہری جنگ جیت ہی نہیں سکی۔ اس کی بہترین مثالوں میں ویتنام، بیروت، ڈھاکہ، کابل و قندھار (دو تین دفعہ)، بغداد، دمشق، کردستان وغیرہ کی جنگیں ہیں، جہاں حملہ آور افواج کو کبھی فتح حاصل نہ ہوسکی۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کیوو، جو کہ یوکرائن کا دارالحکومت اور اہم شہر ہے، کا سقوط ہو سکے۔
اٹلی، جاپان او ر نازی جرمنی نے سپرپاور بننے کے چکر میں ہمسائیہ ممالک پر بلا جواز حملے کئے (دوسری جنگ عظیم) لیکن اندازے کی غلطی سے اپنے باقی کے دانت بھی تڑوا بیٹھے۔ شائد اسی قسم کی غلطی اب روس بھی کرنے جا رہا ہے یا کر چکا ہے۔
دوستوں کو یاد ہو گا 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں ہونے والی معاشی بدحالی کے سبب، جس کی بدترین مثال یہ ہے کہ روسی خواتین کی تجارت پاکستان جیسے ممالک میں بھی ہونا شروع ہو گئی تھی، عالمی برادری کی مدد سے روس نے اپنے وسائل کو ترقی دی اور دنیا کو تیل اور گیس کو فروخت کر کے اپنے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کیا اور اپنی عزتیں محفوظ کیں۔ آج کا روس یا مسٹر پیوٹن کا روس اپنی محسن دنیا کو بات بات پر ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
ہمارے ہاں سکول کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ ”درخت کی جس شاخ پر بسیرا کرو اسے مت کاٹو“۔ آج کی روسی قیادت شائد یہ بنیادی سبق بھی نہیں جانتی خدا جانے اب انجام گلستان کیا ہو گا۔