پاکستان

’مارچ میں بھی 77 افراد لاپتہ ہوئے‘

لاہور (جدوجہد رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ 4 سال سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے حوالے سے رپورٹ ایسے تضادات ظاہر کرتی ہے کہ ریاست کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے۔ ایک طرف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدثر نارو حادثاتی طور پر دریا میں ڈوب گئے، جبکہ دوسری طرف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدثر نارو خود ہی جان بوجھ کر کہیں لاپتہ ہو گئے ہیں۔

صحافی اسد طور کے ’ویلاگ‘کے مطابق مدثر نارو کی والدہ نے بھی عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے نے کوئی جرم نہیں کیا۔ تمام مائیں اپنے بچوں کو سچ بولنا سکھاتی ہیں۔ اگر میرا بیٹا سچ بولتا ہے تو یہ اس کا جرم بنا دیا گیا ہے کہ وہ 4 سال سے لاپتہ ہے۔

انہوں نے عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے بھی یہ بتایا کہ ایک میجر نے انہیں بتایا کہ انہیں کسی کرنل نے کہا ہے کہ مدثر نارو کے خاندان کو بتایا جائے کہ وہ ٹھیک ہے اور اسے جلد چھوڑ دیا جائے گا۔ تاہم اب 4 سال ہو گئے ہیں، اس کے بعد نہ تو کوئی رابطہ کیا گیا اور نہ ہی مدثر کو چھوڑا گیا ہے۔ اس وقت وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ اس طرح سے لوگوں کو اٹھایا جا سکتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، ہمیں تحفظ دیا جائے۔ معلوم نہیں میری طرح کی کتنی مائیں اس طرح انصاف کیلئے ماری ماری پھر رہی ہوں گی اور کتنے بچے اس طرح سے رل رہے ہونگے۔ اگر کسی بچے نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سامنے لایا جائے اور ٹرائل کیا جائے۔ میرا بچہ بھی اگر کہیں جرم میں ملوث ہے تو اسے سامنے تو لایا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ آئندہ تاریخ سماعت پر امید ہے کہ کچھ نہ کچھ معلوم ہو جائیگا۔

لاپتہ افراد کیس میں متاثرین کی وکیل ایمان مزاری نے معتبر معلومات تو مدثر کی والدہ نے دی تھی کہ میجر نے انہیں فون پر بتایا۔ تاہم تحقیقات ہو گی تو اس معلومات کے معتبر ہونے کی تصدیق ہو گی لیکن یہاں تو ریاست ہی معلومات کو چھپا رہی ہے۔ جبر ی گمشدگی کے معاملات میں ریاست معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے، احتساب نہیں ہوتا اور وقت ضائع کر کے ملوث افراد یا اداروں کو موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹارچر کر سکیں یا ماورائے عدالت قتل جیسا اقدام بھی کیا جا سکے۔ یہ استثنا ختم کرنا ہو گا اور احتساب کرنا ہو گا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے قید خانوں کے دروازے کھولنے کے اعلانات کئے تھے۔ انہیں بالکل موقع دینا چاہیے لیکن کوئی ڈیڈ لائن بھی ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم کو یہ کہنا چاہیے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔

انکا کہنا تھا کہ پالیسی تو پیچھے سے چلی آ رہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پالیسی حکومت کی بجائے فوج اور ایجنسیاں بناتی ہیں۔ اگر تبدیلی آئی ہوتی تو اس سال مارچ میں بھی 77 افراد لاپتہ نہ ہوتے۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم انکوائری کمیشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کے بعد دفن ہو گئی تھی۔ اب جب وہ سامنے آئی ہے تو اس کے وہ صفحات ہی صاف ہیں جن پر حل تجویز کیا گیا تھا۔ 2010ء میں یہ رپورٹ لکھنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے جسٹس کمال منصور عالم کی موت ہو گئی تھی۔ ہمارا عدالت سے مطالبہ ہے کہ اس رپورٹ کا خفیہ حصہ پبلک کیا جائے۔

ادھر اسد علی طور نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی حکومت اور آرمی چیف پر تنقید کرنے والے ریٹائرڈ فوجی افسران میں سے کچھ کی پنشن بند کرنے جیسے اقدامات اٹھائے گئے اور تنقید کا سلسلہ ترک ہونے کے بعد کلریکل غلطی کا بہانہ بنا کر دوبارہ پنشن بحال کی گئی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts