رمیز
آج جب بھی ہم کسی سے بات یا ڈسکشن کا آغاز کرتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں لوگ فوراً سے آج کی تمام تر صورتحال کو ماضی کی حاصلات سے مشابہت دینا شروع کر دیتے ہیں کہ ماضی کی زندگی یا چند سال پہلے کی زندگی نسبتاً زیادہ بہتر تھی خواہ معاشی حالات ہوں، سیاست ہو، ثقافت ہو، اخلاقیات ہو، رشتے ہوں یا دوستیاں ہوں۔
کیا وجوہات ہیں کہ آج کی نسل ہو یا ہم سے پہلے کے لوگ ہوں، اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں؟ کامریڈ لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تمام تر سیاست، مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے جس طرز کی معیشت ہو گی سیاست بھی اسی طرز کی ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی بحران خواہ وہ کسی بھی ملک کا ہو جب بھی کسی سماج کو اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے تو صرف بیروزگاری، مہنگائی، غربت اور لا علاجی نہیں بڑھتی بلکہ معیشت کا بحران سماج میں موجود ہر چیز میں اپنا اظہار کرتا ہے پھر چاہے وہ آپ کی سیاست ہو، اخلاقیات ہوں، دوستیاں ہوں، رشتے، کلچر، موسیقی، ادب، آرٹ حتیٰ کہ سماج کی ہر چیز میں اسکا اظہار ہوتا ہے۔
رشتے، دوستیاں، اخلاقیات زہر آلود ہو چکی ہیں۔ موسیقی شور کے سوا کچھ نہیں جو راحت دینے کے بجائے انتشار اور اکتاہٹ پیدا کر دیتی ہے۔ ادب اور آرٹ جس کے ذریعے سماج میں موجود کسی چیز کی عکاسی ہونی چاہیے اس سے عاری اور بے معنی ہو چکا ہے۔ سیاست دولت اور طاقت حاصل کرنے کا آلٰہ بن چکی ہے۔
اس ساری صورتحال نے ایک کرب اور بیگانگی کو جنم دیا ہے جس سے آج ہر انسان برسر پیکار ہے۔ ہر کام میں بے مقصدیت عود کر سامنے آ جاتی ہے ہر کسی کو ایک جلدی سی لگی رہتی ہے اور پہنچنا کہیں نہیں ہوتا ہر کام کو کرنے کی بس ایک جلدی ہے، ہر کام جیسے ایک بوجھ سا بن گیا ہو!
ہر انسان دوسرے انسان سے بیزار بھی نظر آتا ہے تو دوسرے ہی پل چیختا پکارتا آسرے ڈھونڈتا بھی نظر آتا ہے، مصنوعیت ہے جو ہر جگہ چھائی ہوئی ہے۔ سماج میں موجود یہ ساری صورتحال ان سرمایہ دارانہ نظام کے دانشوروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو انفرادیت اور غیر تعمیری مقابلہ بازی کو کامیابی کا راز بتاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مقابلہ بازی کی کشمکش ایک ایسی چیز ہے جس میں پھر آپکو اپنے عزیز ترین دوستوں اور رشتوں کو روند کر اور انسانی قدر کو پامال کرنا پڑ جاتا ہے (کم سے کم پیسے کے اس نظام کے تقاضے تو یہی ہیں)، اس نظامِ زر کے تقاضوں میں ایسے دھوکے اور فریب ناگزیر بن جاتے ہیں!
غیر مساوی اس معاشرے میں بڑا اور کامیاب انسان بننے کے لئے جو بنیادی چیز درکار ہے وہ ہے بے حسی اور خود غرضی۔ اونچ نیچ پر بنے اس نظام میں بڑا بننے کی ایک اندھی دوڑ ہے جس میں ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کس طرح بالائی پرتوں تک پہنچا جائے، بھلے پھر اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑ جائے۔
ایک بہتے ہوئے پانی کا جب رستہ روک دیا جائے اور کافی عرصے تک جب اسکو بہنے نہ دیا جائے تو اس کھڑے ہوئے پانی میں فنگس اور مختلف قسم کی بیماریاں اور غلاظتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں ٹھیک اسی طرح جب ایک سماج ایک جگہ پر رک جائے اور آگے نہ بڑھ سکے تو اس سماج میں اس کھڑے ہوئے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے زیادہ خطرناک بیماریاں اور غلاظتیں جنم لینا شروع کر دیتی ہیں۔
روح کو جھنجھوڑ دینے والے روز کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں، بیگانگی، تلخی، اکتاہٹ بڑھتے ہی جا رہے ہیں کہیں کوئی راحت نہیں ہے! سچ تو یہ ہے کے ہم ایک ذہنی طور پر بیمار سماج میں رہ رہے ہیں جہاں چھوٹے بچوں سے لیکر قبر میں پڑے مردے تک محفوظ نہیں ہیں وہاں زندہ انسان کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں! اس ملک کی 85 فیصد آبادی تڑپ بھی رہی ہے، حقارت اور نفرت کی آگ میں جل بھی رہی ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کے تماشے ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہر سیاسی پارٹی کے دعوؤں کے مطابق اِن بے یار و مددگار محنت کشوں کے دکھوں کے مداوے کا آخری حل صرف انہی کے پاس ہے اور حل ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ عام لوگوں اور محنت کشوں کی سیاست میں عدم دلچسپی یونہی بے وجہ نہیں ہے یہاں ہر حکومت نے جو زخم محنت کشوں کو دیئے ہیں ان سے یہ محنت کش گھائل، مجروح ضرور ہوئے ہیں لیکن مرے نہیں ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت آج ملک کے ہر کونے میں موجود ہے اور جس دن وہ اپنا اظہار کرے گی تو ان بڑی بڑی گاڑیوں، حکمرانوں کے جبر کے اداروں اور رائج الوقت روایات کو توڑ کر انقلاب کی طرف بڑھے گی جہاں صرف معیشت اور ریاست نہیں بلکہ اقدار، اخلاقیات، تاریخ، جغرافیہ، اونچ نیچ کی ہر تفریق کو بھی ختم کر دے گی اور ایک منصوبہ بند معیشت اور اشتراکیت پر مبنی ایک ایسے سماج کا جنم ہو گا جہاں مقابلہ بازی حسد اور خود غرضی کا خاتمہ ہو گا۔ جہاں احسان مند اور محتاج نہیں ہونا پڑے گا کسی سے توقعات نہیں رکھنا پڑیں گی اور انسان حقیقی طور پر آزاد ہو گا۔