پاکستان

میڈیا کوریج سیلاب کی ہونی چاہئے، ہو شہباز کی رہی ہے

حارث قدیر

بلوچستان،سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب کے جنوبی اضلاع، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے گزشتہ 2 ماہ سے مون سون کی شدید بارشوں، سیلابی صورتحال، کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں انسانوں کیلئے رنج و الم کی داستان بنے ہوئے ہیں۔ شمال سے لیکر جنوب تک ملک کے 103 سے زائد اضلاع یا تو پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، یا پھر شدید سیلابی ریلوں میں سب کچھ بہہ چکا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات و انتظامی بیوروکریسی سمیت میڈیا تک سب بے حسی کے ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔

حکمران سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے،بحالی اور آبادکاری کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان آفت زدہ علاقوں کی جانب توجہ دینا بھی گوارہ نہیں کر رہے۔ میڈیا شہباز گل پر تشدد ہونے یا نہ ہونے کی کھوج لگانے میں مصروف جہت ہے۔ سیاست جمہوری و شخصی آزادیوں سے ریاستی دھڑے بندیوں کے مابین فتح و شکست کے گرد گھوم رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر مگر ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ کہیں کلاؤڈ برسٹ یا گلیشیئرپگھلنے کی وجہ سے اپنے ساتھ مٹی اور پتھر بہاتا ہوا پہاڑیوں سے ہیبت ناک انداز میں نیچے کی طرف سفر کرنے والا سیلابی ریلا راستے میں آنے والی ہر ایک شے کو خس و خاشاک کی طرح بہاتا ہوا لے جاتا ہے، تو کہیں ندی نالوں میں تغیانی کے باعث پھیلتا ہوا پانی کئی دیہاتوں کو آہستہ آہستہ اپنی آغوش میں لیتا اور خاموش کرتا دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ دو روز سے سرائیکی وسیب سے آنے والی ویڈیوزایسے مناظر پیش کر رہی ہیں کہ جنہیں محض دیکھنا ایک درد دل رکھنے والے انسان کیلئے ممکن نہیں ہے، لیکن مجال ہے یہ ساری صورتحال کہیں میڈیا کی زینت بن رہی ہو یا پھر اس صورتحال پرقابو پانے کیلئے کوئی بات کی جا رہی ہو۔ کہیں کہیں اس سیلابی صورتحال کو قدرتی آفت اور کہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ضرور قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم نقصانات کے ازالے کیلئے تمام تر دعوے نہ صرف ہوائی ہیں بلکہ سیلابی ریلوں کے کئی دیہاتوں کو لپیٹ میں لینے کی پیشگی معلومات کے باوجود مقامی آبادیوں کو محفوظ مقامات تک نہ پہنچانے کا جواز محض یہ فراہم کیا جاتا ہے کہ آبادیاں اپنا گھر بار چھوڑنے پر تیار نہیں تھیں۔ دوسرے لفظوں میں دیہاتوں میں بسنے والے غریب لوگوں کو سرکار پر اتنا اعتبار بھی نہیں کہ ان کے کہنے پر کسی آفت سے خود کو محفوظ کرنے کا انتظام کرنے پر راضی ہو سکیں۔

آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے سرکاری ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)کی جانب سے امداد و بحالی کے اقدامات تو درکنار،اسکے فراہم کردہ نقصانات کے اعداد و شمار اور حقائق میں بھی زمین آسمان کا فرق نظر آرہا ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران 103اضلاع متاثر، 649افراد کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں 3لاکھ، سندھ میں ساڑھے 5لاکھ، کے پی میں 50ہزار، پنجاب میں ایک لاکھ20ہزار، گلگت بلتستان میں 10ہزارافراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہو چکے ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں، لاکھوں مکانات تباہ ہو گئے، سڑکیں، پل اور قدرتی راستوں کے علاوہ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں سیلابی پانی کے نیچے ڈوب چکی ہیں۔ دیہاتوں میں کئی کئی فٹ سیلابی پانی کھڑا ہو جانے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے بالائی علاقوں میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور،اپنے ڈوبے ہوئے گھروں کو یاس و ناامیدی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ کھڑے پانی سے بیماریاں اور تعفن پھیل رہا ہے اور آئندہ کئی ماہ تک اس پانی کے دیہاتوں سے باہر نکلنے یا خشک ہونے کا کوئی امکان، کوئی وسیلہ نظر نہیں آرہا ہے۔

بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ سیلاب اور قدرتی آفات بلاتفریق سارے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور ان سے کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ تاہم ہر ایک قدرتی آفت، ہر ایک ہنگامی حالت نے یہ بات ہمیشہ عیاں کی ہے کہ ان انسانی المیوں کا کردار بھی طبقاتی ہی ہوتا ہے۔ نہ ہی بلوچستان کے سرداروں کا سیلاب نے کچھ بگاڑا ہے، نہ ہی جنوبی پنجاب اور سندھ کے وڈیروں،جاگیرداروں اور حکمرانوں کا یہ سیلاب اور قدرتی آفات کچھ بگاڑ سکی ہیں۔ الٹا ان حکمرانوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی اراضی پر کھڑی فصلوں، ان کے مال مویشی اورپالتوں جانوروں کی حفاظت کیلئے باندھے گئے اونچے بند سیلابی پانی کیلئے نشیبی علاقوں میں کچے گھروندوں میں بسنے والے غریبوں کو ان کے مکانات، مال مویشیوں اور فصلوں سمیت کیڑے مکوڑوں کی مانند بہا لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کئی دیہاتوں میں آئندہ 6ماہ تک کھڑا رہنے والا پانی محض وڈیروں کے باندھے گئے بند میں شگاف ڈالنے سے چند دنوں یا ہفتوں میں نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا صرف اس لئے نہیں ہو سکتا کہ وڈیرے کی زمینوں میں کھڑی فصلوں کو معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور فصلیں تو انسانی زندگیوں سے زیادہ قیمتی ہیں، کیونکہ وڈیرے نے انہیں مارکیٹ میں بیچ کر منافع کمانا ہے۔ ان زمینوں کو دوبارہ فصلوں سے بھرپور کرنے کیلئے مزارعین اور کسانوں کی کمی ویسے بھی نہیں ہونی۔ آج چند مریں گے، کل اور ہزاروں اس محنت کی منڈی میں جھونکے جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پیٹ کی آگ جو بجھانی ہے۔

سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کو خدائی قہر قرار دیکر انسانوں کا مقدر قرار دینے والا ایک بہانہ بھی اس طرح کی صورتحال میں حکمرانوں سے لیکر ملاؤں اور میڈیا اینکر پرسنوں تک سب کی زبانوں پر ایک معمول بن جاتا ہے۔ آفات کی تباہ کاریوں سے برباد انسانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ تو ’امر ربی‘ ہے۔ انسان اس کے آگے بے بس ہے اور یہ سب انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ گناہوں کادو وقت کی روٹی کیلئے دن رات خون پسینہ ایک کرنے والے ایک غریب انسان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ انسانی جسموں سے خون اور ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ کر تجوریاں بھرنے والے حکمران طبقات کے جرائم اور گناہوں کو کوئی آفت کیوں نشانہ نہیں بناتی؟

درحقیقت تمام تر انسانی تاریخ فطرت کے مظاہر پر غلبہ پانے اور انہیں انسانی ضروریات کی تکمیل کیلئے استعمال میں لانے کی تگ و دو کی تاریخ ہے۔ انسان نے فطرت کو اپنے زیر کرتے ہوئے دنیا کواپنے لئے اتنا سہل بنایا ہے۔ تاہم انسان کی لاکھوں سال کی محنت پر آج چند خاندانوں کا حکمران طبقات کی صورت غلبہ اور قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی وسیع تر اکثریت کو ان تمام تر سہولیات سے محروم رکھتے ہوئے قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ذرائع پیداوار پر اس قبضے اور منافع خوری کیلئے فطرت کے بے ربط اور غیر منظم استحصال نے اس کرہ ارض کے ماحول کو بری طرح سے برباد کر دیا ہے۔ تاہم حکمران طبقات کے منافعوں اور لوٹ مار کی لالچ میں برباد کئے گئے ماحول کے براہ راست متاثرین محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں۔ جن کے استحصال پر یہ محلات اور عیاشیاں تعمیر کی گئیں، اب ان عیاشیوں کے عوض ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا براہ راست شکار بھی انہی مفلوک الحال انسانوں کوہی بننا پڑ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے موسموں کی شدت میں اضافہ کیا ہے اور پوری دنیا سنگین موسمی حالات سے نبرد آزما ہے۔ جہاں یورپ میں خشک سالی اور جنگلوں میں لگنے والی آگ سے جلتے، مرتے اور بے گھر ہوتے ہوئے انسان نظر آتے ہیں۔ وہیں ترقی پذیر ملکوں بالخصوص جنوب ایشیائی خطے کے پسماندہ ملکوں میں شدیدبارشوں، سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ جیسی صورتحال انسانوں کے مقدر ڈبو رہی ہے۔

یوں یہ قدرتی آفات کوئی خدائی قہر نہیں ہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں اور حکمران طبقات کے منافعوں اور شرح منافع کی مقابلہ بازی کی دوڑ میں ہر جائز و ناجائز طریقہ ہائے کار اپنائے جانے کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ اس لئے ان قدرتی آفات کو مقدر سمجھ کر خاموش بیٹھنا بھی کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ ان قدرتی آفات کو محنت کشوں کا مقدر بنانے والوں سے ان جرائم کا انتقام لینا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے فطرت و ماحول کے استحصال کے ہر طریقے کو ترک کرتے ہوئے انسانی ضروریات کی تکمیل کیلئے ماحول دوست منصوبہ بند طریقہ پیداوار کااطلاق ہی انسانیت کے مقدر کو تبدیل کر سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق حکمرانوں کی پرتعیش کانفرنسوں، این جی اوز کے ذریعے کی جانیوالی خیراتی سرگرمیوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے ذریعے ہونے والی بربادی کی بجائے تمام تر ذمہ داری پھر محنت کشوں پر ڈالنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔زیادہ آبادیوں، پلاسٹک کے استعمال، آگ جلانے،فضلے، فصلوں کی باقیات جلانے اور خوراک کے ضیاع کو ماحولیاتی آلودگی کا موجب قرار دیکر کفایت شعاری وغیرہ کا درس دینے کی آڑ میں سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے فطرت کے بے لگام استحصال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ فاسل فیول پر چلنے والی ہیوی انڈسٹری پرپردہ ڈالا جاتا ہے، جس کو ماحول دوست پیداوار پر منتقل اس لئے نہیں کیا جاتا، کہ اس طریقے پر منتقل کرنے سے بھاری منافعوں پر آنچ آنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیدوار کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس سب کیلئے جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ، معدنیات کی بے ہنگم نکاسی سمیت دیگر بربادیاں انسانی زندگی کو سہل بنانے کی بجائے منافع کے حصول کیلئے کی جا کر فطرت کا بے دریغ استحصال کیا جاتا ہے۔ یوں حکمران طبقات کے جرائم کے باعث تباہ ہونے والے ماحول کی بربادیوں کا براہ راست شکار بھی غریب اور محنت کش عوام ہی بنتے ہیں اور پھر انہیں ہی اس سب کا ذمہ دار بھی قرار دینے پر انہی سے لوٹی ہوئی دولت کے انبار خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔

محنت کش طبقے کو اپنا نجات دہندہ خود ہی بننا ہوگا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کیلئے ریلیف مہم انسانی اور اشتراکی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔اکثریتی علاقوں میں یہ سلسلہ کسی نہ کسی نوعیت پرشروع ہو چکا ہے، جسے پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس ریلیف مہم کو سیاسی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے حکمران طبقات اور اس نظام کے خلاف ان بربادیوں کے انتقام کا راستہ اپنانے کی تیاری اور تنظیم کرنا ہوگی۔ صدیوں کے ان دکھوں اور تکالیف کا انتقام اس نظام سے لینے کا وقت آچکا ہے۔ آج انسانیت کی بقاء کی جدوجہد کو تیز نہ کیا گیا تو ماحولیاتی تبدیلیاں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اس نظام اور اس کے حواریوں نے تباہی اور بربادی کو انسانیت کا مقدر بنا چھوڑا ہے۔

اس بربادی سے نجات کیلئے اس کے ذمہ داران سے طاقت اور دولت کے ہر اوزار کو چھینتے ہوئے انسانیت کے اشتراکی تصرف میں لانا ہی نسل انسانی کے پاس واحد راستہ بچ چکا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔