لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاہ فام اور نسلی اقلیتی افراد کو برطانیہ میں سفید فام لوگوں کے مقابلے میں اڑھائی گنا زیادہ غربت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رننی میڈ کی ایک تجزیاتی رپورٹ ’نسلی مساوات پر ایک تھنک ٹینک‘ نے کہا ہے کہ سیاہ فام اور اقلیتی نسلی لوگوں کی اوسط آمدنی گزشتہ دہائی کے دوران سفید فارم لوگوں کے مقابلے میں ایک فیصد کی نصب 6 فیصد تیزی سے گری ہے۔ اس رجحان میں خاص طور پر کورونا کے آغاز کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں آبادی کا صرف 15 فیصد ہونے کے باجود شدید غربت میں رہنے والوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ 26 فیصد سیاہ فام اور اقلیتی نسلی پس منظر سے ہیں۔
نتیجے کے طورپر سیاہ فام اور اقلیتی نسل کے لوگ اس وقت سفید فارم لوگوں کے مقابلے میں 2.2 گنا زیادہ شدید غربت میں ہیں، بنگلہ دیشی لوگوں کیلئے یہ تناسب تین گناہ زیادہ ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کا ٹیکس اور سماجی تحفظ کا نظام انتہائی رجعت پسند بلکہ نسل پرستی پر مبنی ہے۔
سفید فام خاندان اب ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اوسطاً 454 پاؤنڈ سالانہ کم نقد فوائد حاصل کرتے ہیں، یہی تعداد سیاہ فام اور قلیتی نسلی خاندانوں کیلئے سالانہ 806 پاؤنڈ کم اور سیاہ فام خاندانوں کیلئے اس سے بھی زیادہ 1635 پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔
سیاہ فام اور اقلیتی نسلی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور فی الحال ایک دہائی پہلے کی نسبت 1040 پاؤنڈ کم وصول کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پیش رفتوں سے بہت پہلے سے سیاہ فام اور اقلیتی نسلی گھرانوں کو غیر متناسب طور پر زندگی گزارنے کے موجودہ بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معمولی شرائط میں اس ماہ کے آغاز میں اعلان کردہ انرجی پرائس گارنٹی سیاہ فام اور اقلیتی نسلی گھرانوں کے مقابلے میں سفید فام گھرانوں کو ایندھن کی غربت سے نکالے گی۔
لہٰذا 32 فیصد سفید فام لوگوں کو اس موسم سرما میں ایندھن کی غربت کا سامنا کرنے کا امکان ہے، سیاہ فام اور اقلیتی نسلی لوگوں میں یہ تناسب 52 فیصد، جبکہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی لوگوں میں یہ تناسب 66 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔