لیون ٹراٹسکی
ترجمہ: فاروق سلہریا
لیون ٹراٹسکی کا مندرجہ ذیل مضمون قبل ازیں 3 اقساط میں دانشور طبقہ سوشلزم سے کتراتا کیوں ہے؟ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا جس کا مکمل متن قارئین کے لئے مجتمع شدہ شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ لیون ٹراٹسکی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ولادیمیر لینن کے ہمراہ انقلاب روس کی قیادت کرنے والے وہ دوسرے اہم ترین رہنما تھے۔ انقلاب کے بعد وہ سرخ فوج کے سربراہ رہے۔ ٹراٹسکی نے بے شمار ثقافتی و سیاسی سوالات پر سوشلسٹ نظریہ دان کے طور پر لکھا۔ ان کے دوست انہیں ’قلم‘ کہہ کر پکارتے کیونکہ وہ لکھنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ ٹراٹسکی کا شمار بیسویں صدی کے بہترین دماغوں اور نظریہ سازوں میں ہوتا ہے۔ ان کا زیر نظر طویل مضمون دراصل میکس آڈلر کے ایک کتابچے پر تبصرہ تھا۔ کتابچہ اور ٹراٹسکی کا تبصرہ، دونوں 1910ء میں شائع ہوئے۔ میکس آڈلر آسٹرین سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار کے مدیر تھے۔ ان کا کتابچہ ویانا سے شائع ہوا۔ ٹراٹسکی کا تبصرہ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک اخبار نے روسی زبان میں شائع کیا۔ مندرجہ ذیل ترجمہ انگریزی زبان سے کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجمے میں شامل مترجم برائن پیرس کی وضاحتوں کو سرخ رنگ میں ہائی لائٹ کیا گیا ہے: مدیر
دس سال قبل، حتیٰ کہ چھ سات سال پہلے تک، روس میں عمرانیات کے موضوعی دبستان (سبجیکٹو اسکول آف سوشیالوجی) کے لوگ با آسانی آسٹرین فلسفی میکس آڈلر کے تازہ کتابچے کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے تھے (میکس آڈلر آسٹریائی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار ’Arbeiterzeitung‘ کے مدیر تھے)۔
پچھلے پانچ چھ سال کے اندر البتہ ہم عمرانیات کے معروضی مکتبہ فکر کی بھٹی سے ایسے کندن بن کر نکلے ہیں اور اس کے اسباق زخموں کی صورت ہمارے بدن پر ایسے کندہ ہیں کہ دانشور طبقے کی اعلی ترین تخلیق، حتیٰ کہ میکس آڈلر کے ”مارکسی“ قلم سے برآمد ہونے والا کوئی تجزیہ بھی اب روسی موضوعیت کے کسی کام آنے والا نہیں۔ اس کے برعکس، جو حشر روس کے موضوعی دبستان کا ہوا ہے وہ میکس آڈلر کے الزامات اور دعوؤں کا بہترین جواب ہے۔
میکس آڈلر کے مذکورہ کتابچے کا موضوع ہے ”سوشلزم اوردانشور طبقہ“۔ آڈلر کی نظر میں یہ موضوع محض تھیوریٹیکل تجزئے کا متقاضی نہیں بلکہ یہ ضمیر کا بھی مسئلہ ہے۔ وہ دانشوروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ یقین محکم سے بھر پور یہ کتابچہ دراصل ان کی اس تقریر کا متن ہے جو انہوں نے سوشلسٹ طالب علموں کے ایک جلسے میں کی۔ تبلیغ کی نیت سے لکھے گئے اس مختصر سے کتابچے میں ایسے خیالات پر زور دیا گیا ہے جو کسی طور پر بھی منفرد نہیں کہلا سکتے۔ آڈلر ہر قیمت پر اپنے نظریات کے لئے دانشور طبقے کی ہمدردی اور سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں سیاسی خواہشات سماجی تجزئے پر غالب آ جاتی ہیں۔ اس کتابچے کا جو لہجہ اور اس میں جو کمزوریاں ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔
دانشور طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے؟ آڈلر نے دانشور طبقے کی تعریف اخلاقی بنیاد کی بجائے سماجی بنیاد پر کی ہے: دانشور طبقہ کسی تاریخی عہد کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتا بلکہ یہ طبقہ معاشرے کی وہ پرت ہے جو کسی بھی طرح ”ذہنی مشقت“ والے پیشے سے وابستہ ہے۔
”ذہنی“ اور ”جسمانی“ مشقت میں خط تقسیم کھینچنا کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ سہی، دانشور طبقے کے عمومی سماجی خطوط (فیچرز) کافی حد تک واضح ہیں اور ہمیں مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ گو آڈلر کے نزدیک دانشور ایک بین الطبقاتی گروہ ہیں مگر دانشور بورژوا معاشرے کے فریم ورک میں پایا جانے والا ایک طبقہ ہیں، خیر، بات گھوم پھر کر وہیں آ جائے گی۔
آڈلر کی نظر میں سوال یہ ہے: اس طبقے کی روح پر کس کا یا کس چیز کا حق ہے؟ اس طبقے کے سماجی کردار کے پیش نظر، اپنی ماہیت کے اعتبار سے، کون سا نظریہ اس طبقے پر فرض ہے؟
آڈلر کا جواب ہے: اجتماعیت والا نظریہ۔
یورپی دانشور، باوجودیکہ اجتماعیت کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست تضاد نہیں بنتا، محنت کشوں کی جدوجہد سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ دانشوروں میں محنت کشوں کی جدوجہد بارے کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ آڈلر بھی اس صورت حال سے نا واقف نہیں مگر آڈلر کی نظر میں ایسا ہونا نہیں چاہئے کیونکہ اس لا تعلقی اور عدم دلچسپی کی کوئی معروضی بنیادیں موجود نہیں۔ آڈلر بھرپور طریقے سے ایسے مارکس وادیوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کی نظر میں ایسے عمومی حالات ناپید ہیں جن کے نتیجے میں دانشور طبقہ بڑے پیمانے پر سوشلزم کی طرف راغب ہو جائے۔
وہ اپنے دیباچے میں رقم طراز ہیں: ”ایسے عناصر موجود ہیں…اور یہ عناصر معاشی نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں…جو دانشوروں کے پرولتاری حالات ِزندگی کے علاوہ بھی اہم ہیں اور ان کے ایک بڑے حصے کو مزدوروں کی سوشلسٹ تحریک کی جانب لانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دانشور طبقے کو اس تحریک کی ماہیت سے بھی آگاہ کیا جائے اور دانشوروں کی سماجی حیثیت کی آگاہی بھی انہیں دی جائے“۔
وہ عناصر ہیں کون سے؟ آڈلر اس کا جواب یوں دیتے ہیں: ”دانشوروں کے روحانی مفادات ہوتے ہیں اور سب سے اہم یہ بات کہ ان مفادات کی تکمیل کا موقع پانا دانشورانہ زندگی کا بنیادی جزو ہے یعنی ان کا نظریاتی مفاد اور ان کا معاشی مفاد برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ پس اگر آپ معاشی بنیاد کے علاوہ بھی کوئی وجہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد پر دانشور طبقہ سوشلسٹ سیاست کا حصہ بن سکتا ہے تو اصولی طور پر ایسا کرنا ممکن ہے۔ نہ صرف سوشلزم کا ثقافتی پہلو بلکہ ذہنی مشقت کے لئے درکار حالات کی وجہ سے بھی دانشور طبقہ سوشلزم کی جانب آ سکتا ہے(ص 7)۔
ساری تحریک کی طبقاتی نیچر سے ماورا (آخر یہ تحریک ایک راستہ ہی تو ہے)، اس تحریک کی سیاسی و جماعتی شکل سے ماورا (آخر پارٹی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہی تو ہے)!۔ سوشلزم اپنے جوہر کے اعتبار سے، بطور ایک عالمگیر نظریہ،یہی تو چاہتا ہے کہ ذہنی مشقت کو ہر شکل میں ہر طرح کے سماجی و تاریخی بندشوں اور زنجیروں سے آزادی مل جائے۔
آڈلر کی نظر میں یہ ہے وہ نقطہ جو ایک ایسے پل کا کام دے گا جسے پار کر کے دانشور طبقہ سوشل ڈیموکریٹک کیمپ تک پہنچ جائے گا(جس عہد میں ٹراٹسکی نے یہ مضمون لکھا سوشل ڈیموکریسی سے مراد سوشلسٹ سیاسی تحریک تھی۔ سوشل ڈیموکریسی سے مراد وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے پہلی عالمی جنگ میں مزدور طبقے سے غداری کی)۔
مندرجہ بالا نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے آڈلر نے یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس تحریر کی فاش غلطی جس کی طرف نظر فوراً جاتی ہے وہ ہے اس کا غیر تاریخی کردار۔
جس سماجی بنیادپر، آڈلر کے بقول، دانشور طبقے کو اجتماعیت والے کیمپ کا حصہ بن جانا چاہئے، وہ سماجی بنیاد تو ایک لمبے عرصے سے موجود ہے۔ اس کے باوجود کسی یورپی ملک میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ دانشور طبقہ بڑے پیمانے پر سوشل ڈیموکریسی کی طرف مائل ہو گیا ہو۔ یہ حقیقت آڈلر کو بھی اتنے ہی اچھے سے دکھائی دے رہی ہے جتنا واضح طور پر ہم دیکھ رہے ہیں لیکن آڈلر کا خیال ہے کہ محنت کش طبقے سے دانشور طبقے کی لاتعلقی اس کارن ہے کہ دانشور طبقے کو سوشلزم کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرح سے تو یہ بات درست ہے لیکن آڈلر کی بات اگر درست ہے تو پھر اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ ان دانشوروں کو سوشلزم کی تو سمجھ نہیں آتی مگر دیگر انتہائی گھمبیر مسائل کو سمجھ لیتے ہیں؟
گویا یہ بات واضح ہے کہ وہ منطق کے معاملے میں ایسے نالائق نہیں۔ اصل مسئلہ ہے ان کی طبقاتی نفسیات میں موجود غیر منطقی عناصر۔ خود آڈلرنے بھی کتابچے میں ایک باب بعنوان ”ادراک کی بورژوا حدود“…جو اس کتابچے کا بہترین باب ہے…اس بات کا اقرار کیا ہے۔
آڈلر کا مگر خیال ہے، آڈلر کو امید ہے، آڈلر کو یقین ہے…اور اس موقع پر مبلغ آڈلر نظریہ دان آڈلر پر غالب آ جاتا ہے…کہ یورپی سوشل ڈیموکریسی ذہنی مشقت کرنے والوں کی ذہنیت میں موجود غیر منطقی عناصر پر قابو پا سکتی ہے بشرطیکہ سوشل ڈیموکریسی دانشور طبقے کے ساتھ اپنے تعلق کی منطق از سر نو تر تیب دے۔
دانشور طبقے کو سوشلزم اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ روزمرہ زندگی میں انہیں معمول کا سوشلزم انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک اور سیاسی جماعت دکھائی دیتا ہے۔ اگر دانشوروں کو سوشلزم کا حقیقی چہرہ روشناس کرایا جاسکے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ سوشلزم ایک عالمگیر ثقافتی تحریک ہے تو پھر طے ہے کہ سوشلزم ان کی امیدوں کا مرکز و محور بن جائے گا۔ کم از کم آڈلر کا یہی خیال ہے۔
ہم نے ابھی تک اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ کیا دانشور طبقے کے لئے خالصتاً ثقافتی ضروریات (تکنیک کی ترقی، سائنس، آرٹ) ان کے خاندان، سکول، کلیسا اور ریاست کے دئے ہوئے طبقاتی سبق یا ان کے مادی مفادات سے زیادہ طاقت ور ہیں؟
اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض بھی کر لیں کہ دانشور طبقہ دراصل ثقافتی پادریوں کا ایک ایسا ادارہ ہے جسے ہنوز یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے ثقافتی مفادات کی تکمیل کے لئے بورژوا معاشرے کی سوشلسٹ کایا پلٹ لازمی ہے تو پھر یہ بھر پور سوال پیدا ہوتا ہے: کیا سوشل ڈیموکریسی اخلاقی اور نظریاتی سطح پر دانشور طبقے کو کوئی ایسی چیز پیش کر رہی ہے جو ان تمام چیزوں سے زیادہ پر کشش ہو جو آج تک سوشل ڈیومکریسی نے پیش کی ہیں؟
اجتماعیت کی جدوجہد نقارہ بن کر دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ اس دوران کروڑوں مزدوروں نے ٹریڈ یونین، کو آپریٹو، تعلیمی، سیاسی یا کسی دیگر محنت کش تنظیم کی رکنیت حاصل کی ہے۔ ایک پورے طبقے نے زندگی کی پستیوں سے نکل کر مقدس سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھا ہے۔ ان ایوانوں کو ابھی تک صاحب جائداد طبقے کی جاگیر ہی تصور کیا جاتا تھا۔ آئے روز سوشلسٹ پریس…جرائد، سیاسی اخبارات، ٹریڈ یونین کے ترجمان…ہر طرح کی چھوٹی بڑی بورژوا اقدار کا جائزہ لے رہا ہے۔ سماجی و ثقافتی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں (شادی، خاندان، پرورش اور تربیت، سکول، کلیسا، فوج، حب الوطنی، سماجی ہائی جین، جسم فروشی) جس پر سوشلزم نے بورژوا معاشرے کے جواب میں ایک متبادل نظریہ نہ دیا ہے۔ سوشلزم مہذب دنیا کی ہر زبان میں بات کر رہا ہے۔ سوشلسٹ تحریک کی صفوں میں مختلف سوچ اور مزاج رکھنے والے لوگ شامل ہیں جس کا ماضی سماجی تعلقات اور عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں…مگر دانشور طبقے کو اس کے باوجود ”سوشلزم کی سمجھ نہیں آئی“، اس سب کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پا رہے اور انہیں اس عالمگیر تحریک کی ثقافتی و تاریخی اہمیت سمجھ نہیں آ رہی تو کیا ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی اس خوفناک نا سمجھی کی وجوہات بہت گہری ہیں اور اس مسئلے سے ادبی و تھیوریٹیکل طریقے سے نپٹنا سرے سے بے کار کوشش ہے؟
مندرجہ ذیل بات کو تاریخ کے آئینے میں پرکھیں تو صورت حال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ دانشوروں کی بڑی تعداد سوشلسٹ تحریک کا حصہ اس وقت بنی جب پارٹی نئی نئی بنی تھی، ابھی اپنے بچپن کے دور سے گزر رہی تھی۔ یہ بات یورپ کے ہر ملک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس پہلی لہر کے نتیجے میں ’انٹرنیشنل‘ کو بلا کے ذہین نظریہ دان اور سیاست دان میسر آئے۔ جوں جوں سوشل ڈیموکریسی ترقی کرتی گئی، جوں جوں مزدور بڑی تعداد میں اس کے جھنڈے تلے جمع ہوئے توں توں نئے دانشورں کی آمد کم ہوتی گئی (نہ صرف حجم بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی کمی واقع ہوئی)۔
(جرمن سوشل ڈیموکریٹک اخبار) ’Leipzeiger Volkszeitung‘ ایک عرصے تک اشتہار دیتا رہا کہ ادارتی شعبے میں ایک کارکن کی ضرورت ہے جس کے پاس یونیورسٹی ڈگری بھی ہو…مگر بے سود۔ گویا ایک نتیجہ جو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اخذ کر نے پر مجبور ہیں اور یہ نتیجہ آڈلر کے اخذ کردہ نتیجے سے یکسر مختلف ہے، وہ یہ ہے کہ: سوشلزم نے جتنی فیصلہ کن شکل میں اپنا اصل ماخذ بیان کیا ہے، اتنی آسانی سے ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ تاریخ میں سوشلزم کا نصب العین کیا ہے اور اتنے ہی فیصلہ کن انداز میں دانشور طبقہ سوشلزم سے برانگیختہ ہوا ہے۔
گو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دانشور لوگ سوشلزم سے ہی خوف کھاتے ہیں بہر حال یہ بات طے ہے کہ یورپ کے سرمایہ دار ممالک میں کچھ ایسی دور رس سماجی تبدیلیاں آئی ہیں جو مزدوروں اور یونیورسٹی حضرات کے مابین دوستی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہیں مگر بیک وقت ان تبدیلیوں کی وجہ سے مزدور سوشلسٹ تحریک میں شامل ہو ئے ہیں۔
یہ کون سے تبدیلیاں ہیں؟ پرولتاریہ کے ذہین ترین افراد، گروہ اور دھڑے یا تو سوشل ڈیموکریسی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ صنعت اور ٹرانسپورٹ کی ترقی و ارتکاز اس عمل کو مزید تیز کر رہا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے دانشوروں کا تو ایک بالکل مختلف عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کی سرمایہ دارانہ ترقی اس طبقے کے بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہے۔ ایسی با صلاحیت ترین دانشورانہ قوتیں جن میں تخیلقاتی صلاحیتیں تھیں، وہ سرمایہ دارانہ صنعت،ٹرسٹوں، ریلوے کمپنیوں اور بینکوں میں کھپ گئی ہیں کیونکہ وہاں انہیں تنظیمی کام کرنے کے لئے زبردست تنخواہیں ملتی ہیں۔ اب تو دوسرے درجے کے لوگ ہی سرکاری نوکری اور ریاستی دفتروں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور، طرح طرح کے رجحان رکھنے والے مدیر بھی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ قابل ”لوگ“ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے نیم پرولتاری دانشور طبقے کا جس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے…یہ طبقہ مادی عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے اور اس عدم تحفظ سے اسے کبھی نجات نہیں ملتی…یہ طبقہ ثقافت کے عظیم شعبے میں ثانوی نوعیت کا اور اضافی کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں وہ عظیم ثقافتی مشاغل جن کا ذکر آڈلر کرتا ہے اتنے پر کشش نہیں کہ وہ سوشلسٹ تحریک کے ساتھ سیاسی ہمدردی پیدا کر لیں۔
اس پر مستزاد یہ صورت حال کہ کسی یورپی دانشور کا اجتماعیت کے کیمپ میں جانا نا ممکن نہ سہی مگر یہ کہ پرولتاری جماعتوں مین وہ اثر و رسوخ کی حامل کسی پوزیشن پر جگہ نہیں پا سکتا۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک مزدور سوشلزم کی جانب اجتماعی طور پر، اپنے طبقے کے ہمراہ آتا ہے اور اپنے طبقے سے مفر اس کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے برعکس ایک دانشور سوشلزم کی طرف اپنے طبقاتی رشتے توڑ کر آتا ہے، ایک شخصیت کی حیثیت میں لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ بطور فرد اپنے اثر و رسوخ کا اظہار کرے۔
یہ ہے وہ نقطہ جہاں اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رکاوٹیں بڑی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے آغاز پر ہر دانشور جو اس تحریک کا حصہ بنا، چاہے وہ اوسط درجے کا دانشور ہی کیوں نہ تھا، اسے مزدور تحریک میں نمایاں جگہ ملی۔ آج اگر کوئی نیا شخص مغربی یورپ کے ممالک میں اس طرف آنا چاہے تو اسے نظر آئے گا کہ مزدور جمہوریت پر مبنی ایک زبردست ڈھانچہ پہلے سے موجود ہے۔ ہزاروں مزدور رہنما ہیں جو اپنے طبقے سے نکل کر آگے آئے ہیں۔ ان مزدور رہنماوں پر مبنی آہنی ڈھانچے کے کندھوں پر وہ آزمودہ کار رہنما براجمان ہیں جو اپنی زندگی میں ہی تاریخی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ قیادت میں جگہ کوئی ایسا شخص ہی پا سکتا ہے جس کے پاس غیر معمولی صلاحیت ہو…مگر ایسا شخص جان جوکھوں میں ڈال کر جگہ بنانے کی بجائے آسان راستے کا انتخاب کرے گا: صنعت کے شعبے میں جائے گا یا سرکاری نوکری کرے گا لہذا دانشوروں اور سوشلزم کے درمیان، ایک رکاوٹ کے طور پر، سوشل ڈیموکریسی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی حائل ہے۔ اس وجہ سے سوشلزم سے ہمدردی رکھنے والے دانشوروں کے اندر بھی عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔
یہ تنظیمی ڈھانچہ دانشوروں سے تنظیم (ڈسپلن) کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس ڈھانچے کا تقاضہ ہوتا ہے کہ خود پر قابو رکھو…دانشور لوگ کبھی ”موقع پرستی“ کا شکار ہونے لگتے ہیں اور کبھی انتہا کی ”ترقی پسندی“ کا۔ ایسے موقعوں پر تنظیم انہیں روکتی ہے…نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ایسے جھگڑالو تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں جن کی ہمدردیاں انارکزم اور نیشنل لبرلزم کے مابین جھولتی ہیں۔
(میونخ سے شائع ہونے والا ایک فکاہیہ اخبار) ’Simplicissimus‘ ان کا سب سے بڑا نظریاتی ترجمان ہے۔ مختلف شکلوں اور مختلف پیمانے پر تمام یورپی ممالک میں مندرجہ بالا صورت حال دکھائی دے گی۔
کسی بھی دوسرے گروہ کی نسبت یہ دانشوراس قدر سنکی واقع ہوئے ہیں کہ کوئی بھی کشف، سوشلزم کی ثقافتی اہمیت، ان کی روح کو چھو نہیں سکتے۔ فقط منفرد نوع کے ”نظریہ دان“…یہ اصطلاح اچھے انداز میں بھی استعمال کی جا رہی اور برے انداز میں بھی…سوشلسٹ تھیوری سے متاثر ہو کر سوشلزم کی جانب آ سکتے ہیں۔ اس کی مثال اینٹن مینجر یا اٹلانٹیکس ہو سکتے ہیں (’Anton Menger‘ ایک آسٹریائی قانون دان تھا، ’Atlanticus‘ لٹویا نژازجرمن ماہر معیشت تھا جسے عرف عام میں ’Karl Ballod‘ پکارا جاتا تھا)۔
ان کے نزدیک بھی سوشلزم ایک نقطہ آغاز، قانون کا تقاضہ…(اینٹن مینجر) یا تکنیکی ضرورت (اٹلانٹیکس)…ہی ثابت ہو تا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی اس حد تک نہیں جاتے جس حد تک سوشل ڈیموکریٹک تحریک پہنچی ہے۔ ان کے لئے سوشلزم سے اندرونی طور پر منسلک طبقاتی جدوجہد ایک ایسی کتاب بنی رہتی ہے جس پر سات مہریں ثبت ہوں۔
آڈلر کا یہ تجزیہ تو بالکل درست ہے کہ دانشور طبقے کی اجتماعیت کے لئے حمایت انہیں فوری مادی فوائد دینے کی بنیاد پر حاصل نہیں کی جا سکتی البتہ اس تجزئے سے یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کیا کسی صورت دانشور طبقے کی حمایت حاصل کر نا کسی طور ممکن ہے بھی سہی۔ نہ ہی آڈلر کے تجزئے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دانشور طبقے کے مادی مفادات اور طبقاتی بندھن ان ثقافتی و تاریخی امکانات سے زیادہ اہم نہیں جو سوشلزم پیش کرتا ہے۔
اگر ہم دانشورطبقے کے اس حصے کی بات نہ کریں جو براۂ راست محنت کش طبقے کی خدمت کرتا ہے مثلاً مزدوروں کے وکیل یا ڈاکٹر وغیرہ (یہ وہ حصہ ہے جو دانشور طبقے کے اس حصے کی نمائندگی کرتا ہے جو بہت زیادہ قابل نہیں گردانا جاتا) تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دانشور طبقے کا اہم ترین اور موثر ترین حصے کا انحصار صنعتی منافع، جائداد سے حاصل ہونے والے کرائے یا ریاستی بجٹ پر ہوتا ہے۔ یوں اس حصے کا براۂ راست یا بلا واسطہ انحصار سرمایہ دار طبقے یا سرمایہ دار ریاست پر ہوتا ہے۔
سرمایہ دار طبقے پر اس مادی انحصار کا کیا مطلب یہ ہے کہ دانشور سرمایہ دار مخالف حلقوں کی سیاسی سرگرمی میں توحصہ نہیں لے سکتے مگر وہ اس طبقے سے روحانی آزادی حاصل کر سکتے ہیں جو ان کو روزگار فراہم کرتا ہے؟ دراصل ایسا نہیں ہے۔ دانشور طبقے کا تو کام ہی ”روحانی“ نوعیت کا ہے لہٰذا دانشور طبقہ صاحب حیثیت طبقے سے ایک روحانی تعلق قائم کر لیتا ہے۔ انتظامی امور چلانے والے فیکٹری مینیجرز یا انجینئرز اور ان کے ماتحت کام کرنے والے مزدور مسلسل ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ مزدوروں کے مقابلے پر مینیجرز یا انجینئرز کو سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان مینیجرز یا انجینئرزکا کام ان کی سوچ اور رائے کو اپنے تابع بنا لیتا ہے۔ اپنے کام کی آزادانہ نیچر کے با وصف، ڈاکٹرز اور وکیل مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے کلائنٹ کے ساتھ نفسیاتی رابطے میں ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ ایک الیکٹریشن دن رات وزیروں بینکاروں اور ان کی رکھیلوں کے دفاتر میں وائرنگ کرتا رہے مگر اپنے آپ میں مگن رہے۔ ڈاکٹر کا معاملہ الگ ہے۔ اسے اپنی روح اور الفاظ میں وہ تال تلاش کرنی ہو گی جو ان لوگوں کے جذبات اور عادات سے میل رکھتی ہو۔ مزید یہ کہ اس طرح کا رابطہ بورژوا معاشرے کی اوپر والی پرتوں میں ہی ضروری نہیں۔ لندن میں عورتوں کے لئے ووٹ کے حق کے لئے لڑنے والے ایک ایسے وکیل کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو ان کے مقصد کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہو۔ ایک ڈاکٹر جو برلن میں فوجی افسروں کی بیویوں کا علاج کرتا ہے یا ویانا میں ”کرسچین سوشل“ دکانداروں کی بیویوں کا معالج ہو، ایک وکیل جو ان کے والدین، بھائیوں یا شوہروں کے معاملات کا خیال رکھتا ہو…اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اجتماعیت کی جانب سے پیش کئے جانے والے ثقافتی امکانات پر زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرے۔ یہی بات ہم لکھاریوں، آرٹسٹوں، مجسمہ سازوں،فنکاروں…براۂ راست نہ سہی…کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ لوگ دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے فن یا اپنی شخصیت پیش کرتے ہیں۔ یوں ان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے فن کو پسند کیا جا رہا ہے اور ان کے فن کے لئے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح بلا واسطہ یا بالواسطہ وہ اپنے فن کو اسی راکھشش کے ہاں گروی رکھ دیتے ہیں جس کو وہ انتہائی ہتک سے دیکھتے ہیں اور وہ راکھشش ہے بورژوا ہجوم۔ جرمنی کے ”نوجوان“ دبستانِ ادبا کے ساتھ جو ہوا…اس کی قیادت پہلے ہی سکڑتی جا رہی ہے…اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
گورکی کی مثال، جس کی سمجھ اسی صورت آ سکتی ہے اگر اس عہد کے حالات کو سمجھا جائے اور اس مثال سے بھی مندرجہ بالا اصول کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اگر گورکی دانشور طبقے کی غیر انقلابی زوال پذیری کا شکار نہیں بنا تو گورکی کواس کی قیمت یہ چکانی پڑی کہ اسے اس کی مقبولیت سے محروم کر دیا گیا۔
یوں ایک مرتبہ پھر ذہنی محنت اور جسمانی محنت کے حالاتِ کار کا فرق واضح ہوتا ہے۔ گو فیکٹری مزدوری میں مزدور کا زورِ بازو گروی پڑا ہوتا ہے اور اس کا بدن تھک کے چور ہو جاتا ہے مگر فیکٹری کا کام مزدور کے ذہن کو اپنا تابع نہیں بناتا۔ ایسی کوئی بھی کوشش چاہے وہ روس میں ہوئی یا سوئٹزرلینڈ میں، ناکام رہی۔
اس کے برعکس ذہنی مشقت کرنے والا مزدور جسمانی لحاظ سے کہیں آزاد ہوتا ہے۔ ادیب کو ہوٹر کی آواز کے ساتھ نہیں اٹھنا پڑتا۔ ڈاکٹر کے سر پر کوئی سپر وائزر نہیں کھڑا ہوتا۔ وکیل عدالت سے جانے لگے تو اس کی جیبیں نہیں ٹٹولی جاتیں۔ ان آزادیوں کے بدلے البتہ ذہنی محنت کرنے والے کارکن کو اپنی قوت ِمحنت اور زور بازو ہی نہیں، پوری شخصیت بیچنی پڑتی ہے۔ یہ عمل کسی خوف کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایمانداری کے نتیجے میں کرنا پڑتا ہے۔
نتیجتاً: ان لوگوں کو نظر بھی نہیں آتا اور وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے کہ جو کوٹ انہوں نے پہن رکھا ہے وہ ایک قیدی کی وردی سے مختلف نہیں۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ ان کا کوٹ ذرا بہتر سلا ہوتا ہے۔
آخر میں ہم دیکھتے ہیں آڈلر خود بھی سوشلزم اور دانشور طبقے کے تعلق بارے خیال پرستانہ اور تجریدی کلئے بارے مطمئن نہیں۔ آڈلر کے اپنے پراپیگنڈے کے مطابق اس کے مخاطب وہ ذہنی مزدور نہیں جو سرمایہ دارانہ معاشرے میں پہلے سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں بلکہ وہ اس نوجوان نسل سے مخاطب ہے جو یہ پیشہ اختیار کرنے جا رہی ہے یعنی طالب علم۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ انہوں نے کتابچے کا انتساب ”ویانا کی آزاد طلبہ یونین“ کے نام کیا ہے بلکہ اس کتابچے یا تقریر کا خطیبانہ اور ایجی ٹیشنل لہجہ بھی اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ طلبہ سے مخاطب ہیں۔ اس قسم کے لہجے میں آپ پروفسیروں، لکھاریوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں سے بات نہیں کر سکتے۔ ابتدائی چند الفاظ کے بعد ہی یہ تقریر آپ کے حلق میں اٹک جائے گی۔ اسی لئے جن لوگوں کے لئے یہ تقریر لکھی گئی ہے انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے آڈلر نے اپنے کام کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔ سیاستدان نے نظریہ دان کی تصحیح کر دی ہے۔ یوں اس پمفلٹ کا مقصد صرف یہ طے کرنا رہ جاتا ہے کہ طلبہ میں اثر و نفوذ کی جدوجہد کیسے کرنی ہے۔
جس طرح (فوجی) بیرک مزدوروں کسانوں کی نئی نسل کے لئے حتمی درسگاہ ہوتی ہے عین اسی طرح اہل ِثروت اور حکمران طبقے کی اولاد کے لئے یونیورسٹی تعلیم منظم تعلیم کی آخری سیڑھی ہوتی ہے۔ بیرکس میں یہ عادت ڈالی جاتی ہے کہ سر تسلیم خم رکھنا ہے، نظم و ضبط کی پابندی کرنی ہے۔ یہ عادات ان سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ڈالی جاتی ہیں جو ان مزدوروں کسانوں نے پچھڑے ہوئے طبقے کے طور پر ادا کرنا ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی، اصولی طور پر مینجمنٹ،قیادت اور حکومت کی تربیت دیتی ہے۔ اسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جرمنی میں طلبہ کی سوسائٹیاں ایک طرح سے کار آمد طبقاتی ادارہ ہیں۔ یہ سوسائٹیاں ایسی روایات کو جنم دیتی ہیں جن کے نتیجے میں باپ اور بیٹا ایک ہو جاتے ہیں،قومی انا مضبوط ہوتی ہے، ایسی عادات فروغ پاتی ہیں جو بورژوا حالات کے لئے موزوں ہوتی ہیں اور،آخر میں، ان روایات کے نتیجے میں ناک پر یا کان کے نیچے لگا زخم کا نشان حکمران طبقے سے تعلق کی علامت بن جاتا ہے۔ آڈلر کی پارٹی کے لئے یونیورسٹی جانے والوں کی نسبت بیرکس میں جانے والے انسان یقینی طور پر کہیں زیادہ اہم ہیں۔ اس کے باوجود بعض تاریخی حالات کی بنیاد پر پارٹی بہرحال کہہ سکتی ہے: ”میں بیرکس جانے کا درد ِسر مول نہیں لوں گی۔ جب نوجوان بیرک کی دہلیز پار کر جائے تو اس کا پیچھا مت کرو۔ جب وہ تربیت لے کر بیرک سے باہر نکلے گا تو پھر اس سے رابطہ کیا جائے گا۔ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔ وہ میرا ہی رہے گا“ (اس طرح کے حالات، جیسا کہ جرمنی میں ہوا،جنم لے سکتے ہیں اگر تیز رفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے فوج کی سماجی بنت پرولتاری ہو جائے)(۱)۔
جہاں تک تعلق ہے یونیورسٹی کا، اگر تو پارٹی طلبہ میں اپنی آزادانہ جدوجہد کی مدد سے اثر و رسوخ پیدا کرنا چاہتی ہے تو پارٹی کا موقف بالکل الٹ ہونا چاہئے: ”ابھی وہ وقت ہے کہ یہ نوجوان کسی حد تک اپنے خاندان سے آزاد ہے اور ابھی معاشرے میں اسے وہ حیثیت حاصل نہیں ہوئی جس کا وہ قیدی بن جائے گا۔ یہی وقت ہے کہ میں اسے اپنی صف میں شامل کر لوں۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں“۔
مزدور طبقے میں باپ بیٹے میں محض عمر کا فرق ہوتا ہے۔ دانش ور طبقے میں عمر کے فرق کے علاوہ سماجی فرق بھی ہوتا ہے۔ نوجوان مزدور اور اپنے والد کے برعکس طالب علم کوئی سماجی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہوتا، وہ ریاست یا سرمائے پر براۂ راست انحصار کر رہا ہوتا، اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور کم از کم موضوعی نہیں تو معروضی طور پر…صحیح یا غلط کی تمیز کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے کہ ہر چیز اس کے اندر پک رہی ہوتی ہے۔ اس کے طبقاتی تعصبات بھی اتنے ہی کچے ہوتے ہیں جتنے اس کے نظریاتی مفادات۔ ضمیر کی آواز بہت اہم ہوتی ہے۔ اس کی یہ ایک طرح سے نفسیاتی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس کا ذہن پہلی بار عظیم سائنسی جنرلائزیشنز کا اثر قبول کر رہا ہوتا ہے۔
اگر وہ کبھی اجتماعیت سے متاثر ہو سکتا ہے تو یہی وہ وقت ہے۔ اگر وہ اجتماعیت سے متاثر ہو گا تو اس کی وجہ اجتماعیت کی سائنسی بنیاد ہو گی، اجتماعیت کے نصب العین کا بھر پور ثقافتی پہلو ہو گا۔ اس کے لئے اجتماعیت سے مراد یہ نہ ہو گی کہ سب ”چھری کانٹے کے ساتھ“ کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں۔ اس آخری نقطے کی بابت آڈلر کی رائے بالکل درست ہے۔
اس موقع پر ہمیں ایک اور اہم نقطے کو بہر حال ذہن میں رکھنا ہے۔ صرف یورپ کا دانشور طبقہ ہی نہیں، اس کی اولاد، یعنی طالب علم، بھی قطعی طور پر سوشلزم کی جانب راغب نہیں۔ مزدور پارٹی اور طلبہ کی اکثریت کے درمیان ایک دیوار حائل ہے۔ اس حقیقت کو آڈلر کی طرح محض یہ کہہ کر واضح نہیں کیا جا سکتا کہ دانشور طبقے کو ساتھ ملانے کے لئے مناسب حد تک اور درست طریقے سے ایجی ٹیشنل کام نہیں کیا گیا۔ اس طرح کی تاویل کا مطلب ہے کہ طلبہ اور ”عوام“ کے مابین تعلقات کی ساری تاریخ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور طلبہ کو سماجی تاریخ کی پراڈکٹ (Product) کے طور پر دیکھنے کی بجائے انہیں ایک اخلاقی اور دانشوارانہ کیٹگری (Category) کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بورژوا سماج پر مادی انحصار کا طلبہ پر اپنے خاندانوں کے ذریعے، ترچھا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے یہ اثر کمزور رہتا ہے۔ اس کے برعکس عمومی سماجی مفادات اور ان طبقوں کی ضروریات جن سے طلبہ کا تعلق ہوتا ہے، کا بھر پور اظہار طلبہ کے جذبات اور رائے میں ہوتا ہے۔ وہ ایک گونج کی مانند ہوتے ہیں۔
یورپی طالب علموں کی ساری تاریخ…چاہے وہ کوئی بہت شاندار دور تھا یا اخلاقی دیوالیہ پن کا عہد…اس بات کی گواہ ہے کہ طالب علم بورژوا طبقات کی نبض ثابت ہوتے ہیں۔ جب بورژوازی کے پاس انقلاب کے سوا کوئی راستہ موجود نہ رہا تو طالب علم بلا کے انقلابی بن کر ابھرے اور عوام کے ساتھ انہوں نے ایک با وقار انداز میں بھائی چارہ قائم کیا۔ جب سیاسی نالائقی کی وجہ سے بورژوازی انقلاب کی قیادت نہ کر سکی تو طالب علموں نے عملی طور پر بورژوازی کی جگہ لے لی۔ اس کی ایک مثال 1848ء کا ویانا ہے۔ جون 1848ء میں جب بورژوازی اور مزدور آمنے سامنے آئے تو انہوں نے مزدوروں پر گولی بھی چلائی۔
جب بسمارک کی جنگوں نے جرمنی کو متحد کر دیا، بورژوا طبقات خوش ہو گئے تو جلد ہی جرمن طالب علم مزاحیہ اخباروں میں شائع ہونے والا وہ کردار بن گئے جو تصویر میں پرشیائی لفٹین کے ہمراہ دکھائی دیتی ہے، ہمیشہ بئیر اور دھوکے بازی میں ڈوبی ہوئی۔ آسٹریا میں جب حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے اس ملک کی قومیں آپس میں لڑ پڑیں تو طالب علم لسانی عصبیت اور جفاکش قوم پرستی کے علمبردار بن گئے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ ان تمام تاریخی تبدیلیوں، بشمول بعض افسوسناک تبدیلیوں کے، طالب علموں نے سیاسی بصیرت کا بھی مظاہرہ کیا، وہ قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آئے، ان کا آئیڈیلزم متاثر کن تھا۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جن پر آڈلر کو اس قدر بھروسہ ہے۔ تیس چالیس سال کا کوئی احمق ”غیرت“ نامی چیز کے لئے اپنا منہ تڑوانے پر تو کبھی بھی تیار نہ ہو گا مگر اس کا بیٹا بخوشی ایسا کر گزرے گا۔ لیوو یونیورسٹی (Lvov University) کے یوکرینی اور پولش طالب علموں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ نہ صرف وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ کسی قومی یا سیاسی رجحان کو پایہ تکمیل تک کیسے پہنچانا ہے بلکہ طالب علموں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ بندوق کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ سال ہم نے دیکھا کہ پراگ میں جرمن طالب علم پرتشدد ہجوم کے سامنے ڈٹ گئے۔ وہ اپنے اس حق کے لئے مظاہرہ کرنا چاہتے تھے کہ جرمن برادری کے طور پر انہیں اس معاشرے میں زندہ رہنے کا حق ہے۔
اس جفاکش آئیڈیلزم کے پیچھے کو ئی نظریہ یا طبقہ نہیں ہوتا بلکہ…لڑائی لڑنے والے مرغے کی طرح…یہ ایک مخصوص ایج گروپ کی خاصیت ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اس آئیڈیلزم کے سیاسی مواد کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جس طبقے سے طلبہ کا تعلق ہے اور جس طبقے کی طرف یہ طالب علم لوٹیں گے، اس طبقے کی تاریخی سپرٹ (Spirit) کیا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے،لازمی امر ہے۔ آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام اہلِ ثروت طبقات اپنے بیٹوں کو یونیورسٹی بھیجتے ہیں۔ یونیورسٹی کے دور میں اگر طالب علم اس خالی تختی کی مانند ہیں جس پر سوشلزم کا پیغام لکھا جا سکتا ہے تو پھر طبقاتی وراثت اور تاریخی جبر گرائی (Historical Determinsim) کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟
اس بحث کا اختتام کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر کرنا ضروری ہے جو آڈلر کے حق میں جاتا ہے اور خلاف بھی۔ آڈلر کے مطابق دانشور طبقے کو سوشلزم کی طرف لانے کے لئے ضروری ہے کہ سوشلسٹ تحریک کے حتمی نصب العین کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آڈلر کو لیکن یہ احساس بھی ہے کہ جوں جوں صنعت کا ارتکاز ہو رہا ہے، درمیانہ طبقہ پرولتاریہ کا حصہ بن رہا ہے اور طبقاتی دشمنی بڑھ رہی ہے، توں توں سوشلزم کا نصب العین واضح ہو رہا ہے۔ سیاسی قیادت کی مرضی سے بالا تر اور مختلف ممالک میں اپنائی گئی حکمت عملی میں فرق کے باوجود، کم از کم جرمنی کی حد تک سوشلزم کا ”حتمی نصب العین“ اور سوشلزم کی فوری ضرورت اٹلی اور آسٹریا کی نسبت کہیں واضح ہے۔
یہی وہ سماجی عمل ہے، یعنی سرمائے اور محنت میں تیز ہوتی لڑائی، دانشور طبقے کو مزدور پارٹی کا حصہ بننے سے روکتی ہے۔ طبقات کے مابین پل ٹوٹ گئے ہیں اور بیچ میں حائل خلیج، جو آئے روز وسیع ہوتی جا رہی ہے، کے پیش ِنظر انسان کو چھلانگ لگانا ہو گی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف اگر حالات نے دانشور طبقے کے لئے، معروضی طور پر یہ آسان بنا دیا ہے کہ وہ اجتماعیت کو نظرئیے کے طور پر سمجھ سکیں تو دوسری طرف وہ سماجی رکاوٹیں بڑھتی جا رہی ہیں جن کو عبور کر کے دانشور سوشلسٹ فوج کے سپاہی بن سکتے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں، جہاں سماجی زندگی پائی جاتی ہے، سوشلسٹ تحریک کا حصہ بننا قیاس آرائی پر مبنی کوئی اقدام نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی اقدام ہے۔ یہ قدم اٹھانے کے کے لئے تھیوری کی نہیں، ارادے کی ضرورت ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج دانشور طبقے کو ساتھ ملانا ماضی کی نسبت زیادہ مشکل ہے کل کو یہ اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس عمل میں بھی لیکن بتدریج وقفے آتے ہیں۔ سوشلزم کی جانب دانشور طبقے کے روئیے کی بابت ہم نے یہ وضاحت کیا کہ یہ رویہ سوشلزم سے بیگانگی کا ہوتا ہے۔ سوشلسٹ تحریک کے زور پکڑنے کے ساتھ یہ رویہ مزید سخت ہوتا جاتا ہے البتہ معروضی سیاسی تبدیلی جو سماجی طاقتوں کے توازن کو ریڈیکل انداز میں بدل کر رکھ دے، ایسی تبدیلی کے نتیجے میں یہ رویہ بدل سکتا ہے اور اسے بدلنا چاہئے۔
آڈلر کا یہ دعویٰ درست ہے کہ دانشور طبقہ سرمایہ دارانہ استحصال کو براہ راست بغیر شرائط کے جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، اس کی حمایت ترچھی ہوتی ہے، یہ حمایت بذریعہ بورژوازی ہوتی ہے، کیونکہ یہ طبقہ مادی طور پر بورژوازی پر انحصار کرتا ہے۔ دانشور طبقہ اجتماعیت کا قائل ہو سکتا ہے اگر اسے یقین دلایا جاسکے کہ اجتماعیت کسی مخالف، دور دراز اور اجنبی طبقے کا آئیڈیل نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
اور آخری بات،اگر اس طبقے کو یقین دلایا جا سکے…اور یہ کوئی کم اہم شرط نہیں…کہ انفرادی طور پر دماغی محنت کرنے والوں کو بورژوازی کا ساتھ چھوڑنے پر خطرناک مادی و اخلاقی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یورپی دانشور طبقے کے لئے ایسے حالات تب ہی پیدا ہو سکتے ہیں اگر ایک نئے سماجی طبقے کی سیاسی حکومت قائم ہو۔ کسی حد تک ایسی حکومت کے لئے ہونے والی براہ راست اور فوری جدوجہد کے دوران بھی ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یورپی دانشور طبقہ محنت کشوں سے کتنا ہی بیگانہ کیوں نہ رہا ہو، اور اس بے گانگی میں مزید اضافہ ہوگا،بالخصوص نئے سرمایہ دار ممالک (مثلاً آسٹریا، اٹلی، بلقان) میں ایسا ہو گا، بہرحال سماجی تعمیر نو کے اس دور میں دانشور طبقہ، دیگر درمیانے طبقوں سے پہلے ان کے ساتھ مل جائے گا جو نئے سماج کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔
اس نئے سماج کی تعمیر میں دانشور طبقے کی خوبیاں، جو اسے کمرشل اور صنعتی پیٹی بورژوا اور کسان طبقے سے ممتاز کرتی ہیں، اہم کردار ادا کر یں گی۔ وہ خوبیاں ہیں اس طبقے کی سماجی محنت کی ثقافتی برانچ کے ساتھ پیشہ وارانہ تعلقات، تھیوریٹیکل جنرلائزیشن کی صلاحیت، سوچ میں لچک اور تبدلی،مختصراً: اس طبقے کی دانشوری۔
جب یورپی دانشور طبقے کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ سماج پر نئی قوتوں کی گرفت قائم ہو چکی ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں تو یہ طبقہ خود کو قائل کرے گا کہ نئے حالات کا مطلب ان کی تباہی و بربادی نہیں بلکہ ان کے لئے ان گنت نئے مواقع پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی تکنیکی، تنظیمی اور سائنسی طاقت کو استعمال میں لائیں۔ ان کی صفوں سے ہی لوگ ان طاقتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ ایسا انتہائی ابتدائی اور نازک دور میں ہی ہونے لگے گا کہ جب نئے حکمران طبقے کو شدید سماجی،تکنیکی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
اس کے برعکس اگر سماج پر مزدور طبقے کی حکومت کا انحصار اس بات پر ہے کہ پہلے دانشور طبقہ یورپی پرولتاریہ کی سیاسی جماعت میں شامل ہو تو اجتماعیت کا مستقبل تاریک ہے کیونکہ، میکس آڈلر کی توقعات کے برعکس، بورژوا نظام کے اندر اس بات کا امکان کم ہے کہ دانشور سوشل ڈیموکریسی کی حمایت کریں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔
حاشئے
۱۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ رویہ تھا۔انقلابی نقطہ نگاہ سے یہ رویہ بالکل نا مناسب تھا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔