لاہور (جدوجہد رپورٹ) گذشتہ بدھ کی شام لاہور جم خانہ میں ’جدوجہد بینیفٹ ڈنر‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں بیس سے زائد سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور اکیڈیمکس نے شرکت کی۔
اس تقریب کا مقصد ترقی پسند سیاسی کارکنوں، اکیڈیمکس اور دانشوروں میں ’روزنامہ جدوجہد‘ کی حمایت تعمیر کرنے کے علاوہ روزنامہ جدوجہد کے مالی و تنظیمی معاملات میں مدد حاصل کرنا بھی تھا۔
تقریب میں روزنامہ جدوجہد کی نمائندگی اخبار کے مدیر فاروق سلہریا اور ادارتی بورڈ کے رکن فاروق طارق نے کی۔ فاروق سلہریا نے روزنامہ جدوجہد کی ادارتی پالیسی بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ ایک سوشلسٹ، فیمن اسٹ اور ماحولیات دوست اخبار ہے جس کا ایک اہم فوکس عالمی حالات و واقعات کی کوریج بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ یوکرین سے لے کر ایران کے موجودہ انقلاب تک، پاکستان کا سرمایہ دار پریس خاموش ہے لیکن روزنامہ جدوجہد کے قارئین تک ان اہم عالمی واقعات کی خبریں جس طرح، محدود وسائل کے باوجود، روزنامہ جدوجہد پہنچا رہا ہے وہ ایک اہم کامیابی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”روزنامہ جدوجہد ابھی ایک محدود آڈینس تک پہنچ رہا ہے مگر بائیں بازو کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ اس ملک میں بائیں بازو کا ایک اخبار روز شائع ہوتا ہے۔“ انہوں نے کہا ”مغرب کے ممالک جہاں بایاں بازو نسبتاً بہت طاقتور اور وسائل کا حامل ہے، وہاں بھی کم ہی ممالک میں کوئی سوشلسٹ روزنامہ شائع ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اخبار نکالنا محض وسائل کا تقاضہ نہیں کرتا، اس کے لئے پروفیشل ازم اور کمٹ منٹ بھی چاہئے۔“ انہوں نے اپنی ٹیم کے ارکان اور ادارتی بورڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ”ان میں سے بعض لوگ بظاہر نمایاں نہیں مگر یہ اخبار ایک بہترین ٹیم ورک کے نتیجے میں ہر روز بلا ناغہ شائع ہو جاتا ہے۔ ہمارے دو کامریڈز کل وقتی کام کرتے ہیں اور باقی ساتھی رضاکارانہ بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ترقی پسند کارکن، اکیڈیمکس اور دانشور روزنامہ جدوجہد کی پروموشن میں کئی طرح سے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ”ہمیں معیاری مضامین لکھنے والوں کی ضرورت ہے، مترجمین کی مسلسل ضرورت ہے، ہمارے ہمدرد ہمیں اپنی یونیورسٹیوں، کام کی جگہوں اور ہم خیال گروہوں کے ساتھ متعارف کرانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم روز انہ کی بنیاد پر ہمارے مضامین اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔“
فاروق طارق نے روزنامہ جدوجہد کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گو روزنامہ جدوجہد 21 اپریل 2019ء کو، لینن کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا لیکن بطور ایک رسالے کے اس کا آغاز 1980ء میں ایمسٹرڈیم میں جلا وطن چار نوجوان طالب علموں نے، جن میں وہ خود اور لال خان مرحوم شامل تھے، نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بعد ازاں جب ہم جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے تو کتابی سلسلے کے طور پر جدوجہد شائع ہوتا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں اختلافات کے باعث جب جدوجہد کے حامی دو گروہوں میں بٹ گئے تو ایک گروہ ہفت روزہ جدوجہد اور دوسرا پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد شائع کرنے لگا۔ ”ہفت روزہ جدوجہد 1997ء تا 2010ء تک شائع ہوا جبکہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد آج بھی پرنٹ فارم میں باقاعدگی کے ساتھ قارئین تک پہنچ رہا ہے۔“
تقریب میں خالق شاہ، ضیغم عباس، ڈاکٹر فراست، ڈاکٹر سلیم، ربیعہ باجوہ ایڈوکیٹ، معروف صحافی عباد الحق، عوام پارٹی کے رہنما میاں آفتاب اور بائیں بازو کی کارکن صدف تنویرنے بھی گفتگو کی۔ تقریب میں ڈاکٹر طارق رحمن، تحسین احمد، بشریٰ ماہنور، ماہنور، عائشہ احمد، قمر عباس، حسنین جمیل فریدی اور صائمہ ضیا نے بھی شرکت کی۔
شرکا نے جدوجہد کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ بہت سی تجاویز بھی دیں۔ اکثریت کا خیال تھا کہ روزنامہ جدوجہد کو ویڈیوز اور اپنے یوٹیوب چینل کی جانب بڑھنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی شناخت بنانے کے لئے مزید کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے ایک کل وقتی سوشل میڈیا مینیجر مقرر کرنے کی تجویز دی گئی۔ شرکا کا کہنا تھا کہ تمام تجاویز کے لئے مزید مالی وسائل کی ضرورت ہے اور انہوں نے یقین دلایا کہ ان مالی وسائل کی فراہمی کے لئے بھر پور کوشش کی جائے گی۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ روزنامہ جدوجہد کو متعارف کرانے کے لئے اور اس کے مالی وسائل تعمیر کرنے کے لئے اس طرح کی مختلف تقاریب کو دیگر شہروں میں بھی منعقدکیا جائے گا۔