لاہور (جدوجہد رپورٹ) عورت مارچ لاہور کے منتظمین نے کہا ہے کہ عورت مارچ لاہور اپنے چھٹے سال 8 مارچ 2023ء کو ناصر باغ میں دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک کام کرنے والی خواتین کا عالمی دن منانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 6 مارچ، پیر کو اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں، عورت مارچ کے رضاکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے مارچ کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری لاہور کی شہری انتظامیہ پر ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت ان کا آئینی حق ہے۔
’حیا مارچ‘ سے پیدا ہونے والی مبہم دھمکیوں کے بہانے ناصر باغ، لاہور پریس کلب اور مال روڈ سمیت متعدد مقامات پر مارچ کی اجازت نہ دینے سے متعلق ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ خط کے بعد، عورت مارچ لاہور نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نئی منتخب ہونے والی سیکرٹری صباحت رضوی نے ساتھی وکلا عابد ساقی اور ذیشان ظفر ہاشمی کے ساتھ خاور ممتاز وغیرہ بنام ڈپٹی کمشنر کیس میں عورت مارچ لاہور کی نمائندگی کی۔
کیس کو جسٹس مزمل اختر شبیر کی عدالت میں فوری سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے کچھ ’ذاتی وجوہات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آج صبح خود کو اس کیس کی سماعت سے الگ کر لیا۔ اس کے بعد اس معاملے کی سماعت جسٹس انوار حسین نے کی، جنہوں نے عورت مارچ کے حق میں ریمارکس دیے اور لاہور ڈپٹی کمشنر (DC) اور سکیورٹی سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (SSP) کو کل صبح (7 مارچ) عدالت میں طلب کیا۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے عورت مارچ کے حق میں ملک بھر کی عدالتوں کے فیصلے جمع کرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ عدالت مارچ کرنے کے ہمارے جائز اور آئینی حق کو برقرار رکھے گی۔ عورت مارچ کے رضاکاروں نے اس سال کے موضوع ’بحران کے وقت میں فیمینزم‘ پر بھی روشنی ڈالی، جس میں ماحولیاتی اور معاشی انصاف کے ساتھ ساتھ سلامتی کے مطالبات پر زور دیا گیا ہے جو معاشرے کے سب سے پسماندہ افراد کو گھیرے ہوئے ہے۔ مقررین نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018ء میں ترمیم کی دھمکیوں کو ایک خطرناک رجحان کے طور پر اجاگر کیا اور تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسی کوششوں کو مسترد کریں اور پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے خلاف بڑھتے ہوئے صنفی تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ مارچ کے مقررین نے محل بلوچ کے غیر قانونی اغوا اور بلوچ خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پر بھی روشنی ڈالی جو بغیر کسی جوابدہی کے جاری ہیں۔ رضاکاروں نے موسمیاتی تبدیلی کے بحران پر بھی روشنی ڈالی اور اس کے پسماندہ کمیونٹیز، خاص طور پر گلگت بلتستان، سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب جیسے علاقوں میں ہونے والے مضر اثرات کو بھی اجاگر کیا۔
اس بات پر زور دیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا بحران ایک مربوط بحران ہے، جس سے خواتین اور سب سے زیادہ کمزور افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، مقررین نے مطالبہ کیا کہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے پر سرمایہ لگانے کی بجائے موسمیاتی آفات کے خطرے سے دوچار کمیونٹیز کو مستقل ریلیف فراہم کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے اقدامات کے لیے طویل مدتی مدد فراہم کی جائے۔ آخر میں، معاشی انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے منتظمین کا کہنا تھا کہ غریب اور پسماندہ افراد کو آئی ایم ایف کی پالیسیوں جیسے کہ نجکاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بالواسطہ ٹیکس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیئے۔