خبریں/تبصرے

اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ ڈی ایچ اے سے اپنے پلاٹ بھی نہیں لے سکتا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ترقیاتی ادارہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سے 2007ء میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدہ کا ریکارڈ فراہم کرنے کو کہا ہے۔ مذکورہ معاہدہ کے تحت سی ڈی اے نے ڈی ایچ اے کو 1500 کنال اراضی حوالے کی تھی۔ اس اراضی کے بدلے میں سی ڈی اے نے 700 سے زائد ڈویلپ پلاٹ حاصل کرنے ہیں۔

تاہم سی ڈی اے اپنی زمین کے بدلے 700 سے زائد پلاٹوں کا قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جو تقریباً 14 سال قبل ڈی ایچ اے کو دیئے گئے تھے۔ ’ڈان‘ کے مطابق دونوں فریقین نے 2007ء میں معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت سی ڈی اے نے زون 5 میں 1500 کنال زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کر دی تھی۔ معاہدے کے مطابق ڈی ایچ اے نے سی ڈی اے کو 727 ڈویلپ پلاٹ دینے تھے۔

سی ڈی اے نے اپنے استعمال کیلئے 1961ء اور 1964ء میں اعلان کردہ دو ایوارڈز کے تحت زمین حاصل کی تھی۔ تاہم 2007ء میں اچانک اس نے یہ زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کر دی تھی۔ اپنے پہلے اعلان کے مطابق سی ڈی اے ترقیاتی کاموں پر استعمال ہونے والے فنڈز پیدا کرنے کیلئے پلاٹوں کی نیلامی کرے گا۔

سی ڈی اے تقریباً ہر سال اپنے بجٹ میں پلاٹوں کو اپنے قابل وصول اثاثے ظاہر کرتا تھا، لیکن یہ اب تک ڈی ایچ اے سے پلاٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ معاملے میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا ہے، جب ایف آئی اے نے سی ڈی اے سے معاہدے کے بارے میں ریکارڈ طلب کیا ہے۔

10 مارچ 2023ء کو ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی طرف سے سی ڈی اے کے چیئرمین کو لکھے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ایجنسی ڈاکٹر شفیق الرحمان کی جانب سے کی گئی شکایت پر یکطرفہ، من مانے اور باطل معاہدہ کے الزامات کی بنیاد پر انکوائری کر رہے ہیں۔ مورخہ 12 ستمبر 2007ء کو اس معاہدہ کے تحت پرانی اسلام آباد ہائی وے پر سی ڈی اے کی زمین ڈی ایچ اے کو دی گئی ہے۔ یہ مبینہ معاہدہ ممبر اسٹیٹ سی ڈی اے بریگیڈیئر (ر) اسد منیر اور ڈائریکٹر لینڈ ڈی ایچ اے بریگیڈیئر (ر) ظفر اقبال شاہ کے مابین کیا گیا تھا۔‘

ایف آئی اے نے مکمل فائل طلب کی، جس میں 12 ستمبر 2007ء کے معاہدے کے خلاف نوٹنگ کا حصہ، معاہدے کی موجودہ قانونی حیثیت، 2400 کنال کے قبضے کی موجودہ حیثیت شامل ہو۔ ایف آئی اے نے خط میں عمار (ایک پرائیویٹ ڈویلپر) کے قبضے میں موجود اگر کوئی سرکاری اراضی ہے تو اس کے بارے میں بھی سی ڈی اے کا موقف بھی پوچھا ہے۔ ذرائع کے مطابق کبھی کبھار ڈی ایچ اے سے پلاٹوں کے حصول کا معاملہ زیر بحث آتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔

گزشتہ سال جون میں سی ڈی اے نے ڈی ایچ اے کا دورہ کرنے اور رپورٹ تیار کرنے کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران ڈی ایچ اے کا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا، تاہم ڈی ایچ اے کی جانب سے نجی کمپنی کے نمائندے موجود تھے۔

سی ڈی اے حکام کی مرتب کردہ وزٹ رپورٹ کے مطابق کمپنی کے نمائندوں نے سی ڈی اے کو ان تین مقامات کے بارے میں بتایا جہاں سی ڈی اے کو پلاٹ دیئے جا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گاؤں ہمک زیر بحث آیا، لیکن اس گاؤں کی زمین پہلے سے ہی ماڈل ٹاؤن کے قریب سی ڈی اے کی تھی۔

دورہ کرنے والی ٹیم کو سہالہ کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی، جہاں سی ڈی اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمین بغیر کسی قبضے کے تھے اور اس جگہ پر مقامی افراد نے کاشت کر رکھی تھی۔ اسی طرح نیازیاں ڈاڈوچہ کی جگہ بھی زیر بحث آئی اور سی ڈی اے کے مطابق یہ اراضی دو دوچہ ڈیم سائٹ سے ملحق ہے۔

سی ڈی اے کی 2019-20ء کے بجٹ کی دستاویزات، جن میں ریونیو جنریشن کی تجاویز کی نشاندہی کی گئی تھی، میں کہا گیا ہے کہ ’سی ڈی اے اور ڈی ایچ کے دورمیان ایک معاہدہ کے مطابق ڈی ایچ اے کی جانب سے سی ڈی اے کو مختلف سائز کے تقریباً 700 پلاٹ فراہم کرنے ہیں۔ اس کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’ڈان‘ کے رابطہ کرنے پر سی ڈی اے کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ شہری ادارہ اپنے خط کے جواب میں ایف آئی اے کو کیس کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے زیر التوا پلاٹوں کے مسائل کے حل کیلئے اپنا کیس ڈی ایچ اے کے ساتھ بھی اٹھائے گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts