لال خان
1945ء کے بعد سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا عظیم الشان اجلاس ہر سال ستمبر میں منعقد ہوتا چلا آرہا ہے۔ 1952ء کے بعد سے اس اجلاس کا انعقاد نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت شرکت کرتے ہیں۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے رہنماؤں کی پوری کوشش ہوتی ہے اس موقع کو شہرت کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگرچہ میڈیا اقوام متحدہ کو دنیا کے مقدس ترین ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے تاہم اس اجلاس میں ہونے والی زیادہ تر تقاریر کس ٹھوس متن سے خالی اور منافقانہ لفاظی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مصنوعی مسکراہٹوں، جعلی مصافحوں اور سیاسی چالبازیوں میں سفارتی منافقت، دھوکہ دہی اور فریب کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مرکزی ہال کے پوڈیم پر تقاریر کرنے والے مختلف رہنما اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے مخالفین پر الفاظ بھی داغتے ہیں لیکن اجلاس کے خاتمے کے بعد پرانے معمولات اور تنازعات جوں کے توں قائم رہتے ہیں اور نئے تضادات دنیا بھر کے محکوم عوام کو تباہ برباد کرنے والی خون ریز جنگوں کو جنم دیتے ہیں۔
’’اقوام متحدہ‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے متعارف کروائی تھی۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 1939ء سے ہی دنیا کے پولیس مین کے طور پر امریکی سامراج کے کردار کا تحفظ کرنے والے ایک عالمی ادارے کے قیام پر غور کر رہا تھا۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا جس میں ساڑھے پانچ کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔ اس ہولناک جنگ میں یورپ اور جاپان تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور برطانیہ سمیت یورپ کی دوسری سامراجی قوتوں کا عالمی سطح پر اثرورسوخ محدود ہوگیا۔ اگرچہ امریکی سرزمن جنگ کے براہ راست شعلوں سے محفوظ رہی (سوائے پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے)لیکن جنگ کے تمام تر عرصے کے دوران امریکی میں حالت جنگ کے قوانین نافذ رہے جن کے ذریعے امریکی سرمایہ داروں نے محنت کشوں کے حقوق صلب کر کے بڑے پیمانے پر قدر زائد مجتمع کی۔ جنگ کے اختتام پر یورپی صنعت اور انفراسٹرکچر مفلوج ہوچکا تھا اور امریکی اجارہ داریوں کو دنیا میں کسی مقابلہ بازی کا سامنا نہیں تھا۔ 1947ء میں امریکہ نے سیکرٹری آف سٹیٹ جیمز مارشل کے تجویز کردہ مارشل پلان کے تحت یورپ، جاپان اور مشرق بعید میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ اس ’’امداد‘‘ اور سرمایہ کاری کا مقصد چین سے لے کر مشرقی یورپ تک، دنیا بھر میں سرمایہ داری کے خلاف ابھرنے والے رجحانات کے راستے میں بند باندھنے کے ساتھ ساتھ دنیا پر اپنی سامراجی گرفت کو مضبوط کرنا تھا۔
اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام سے پہلے ’’بریٹن ووڈز کانفرنس‘‘ کے نام سے معاشی و اقتصادی امور پر بحث کرنے کے لئے نیو ہیمپشائر بریٹن ووڈز امریکہ میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس یکم سے 22 جولائی تک جاری رہی جس میں 44 اتحادی ممالک سے 730 مندوبین نے شرکت کی۔ ان مندوبین میں سے زیادہ تر بورژوا معیشت دان تھے۔ ’’محصولات اور تجارت کا عالمگیر معاہدہ‘‘ (GATT) اسی کانفرنس میں طے پایا۔ اسی قسم کے معاہدوں کے ذریعے ’’عالمی مالیاتی فنڈ‘‘ (IMF) اور ’’عالمی بنک برائے تعمیر نو و ترقی‘‘ (IBRD) جیسے ادارے قائم کئے گئے۔ ’IBRD‘ آج کل ’’ورلڈ بنک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مالیاتی اداروں کے قیام کا حقیقی مقصد سامراج کے معاشی غلبے اور عالمی منڈی پر سامراجی اجارہ داریوں کی خوفناک جکڑ کو یقینی بنانا تھا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ ان اداروں کے ذریعے کس طرح تقسیم محنت، سستی قوت محنت، خام مال کی قیمتوں میں کمی، سامراجی اجارہ داریوں کی اجناس اورٹیکنالوجی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے سابقہ نو آبادیاتی ممالک کا بدترین استحصال کیا گیا۔ یہ لوٹ مار آج اور بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اس طرح کے دوسرے سامراجی اداروں کا مقصد اس ڈاکہ زنی کو دوام بخشنا ہے۔ غیر منصفانہ اور غیر متوازن تجارتی قوانین کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کا تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے جسے پورا کرنا کے لئے یہ ادارے تلخ شرائط اور وحشیانہ شرح سود پر قرضے فراہم کرتے ہیں، نتیجتاً یہ ممالک قرضوں کے شکنجے میں بری طرح جکڑے جاچکے ہیں۔ خوفناک حد تک بڑھتا ہوا پاکستانی ریاست کا قرضہ اور معاشی بحران انہی اداروں کی نافذ کردہ پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
بنیادی طور پر تین بڑی طاقتوں یعنی سوویت یونین، امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے اواخر میں تہران، یالٹا اور پوٹس ڈیم معاہدوں کے ذریعے ان عالمی طاقتوں نے ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی پالیسی کے تحت توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ ’’عالمی توازن‘‘ اور ’’عدم مداخلت‘‘ کی اسی پالیسی کے تحت سوویت بیوروکریسی نے یورپ سمیت دنیا بھر میں ابھرنے والے انقلابات کو زائل کروایا۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ دراصل ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا ہی تسلسل ہے۔ ’’اقوام کی انجمن‘‘ یا لیگ آف نیشنز 1919ء میں پیرس کے قریب ورسائی کے مقام پر پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ کرنے والی امن کانفرنس کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ یہ انجمن بھی سامراجی فاتح قوتوں کے درمیان شکست خوردہ ممالک کا استحصال کرنے کے لئے طے پانے والے ایک معاہدے کا نتیجہ تھی۔ لینن کے مطابق لیگ اف نیشنز کا اتحاد ’’صرف کاغذ پرہے؛ حقیقت میں یہ شکار ی درندوں کا گروہ ہے جو ایک دوسرے سے صرف لڑتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔‘‘ لینن نے اس ادارے کو ’’چوروں کے باورچی خانے‘‘ کا نام دیا تھا جو ’’شروع سے آخر تک ایک فریب، ایک دھوکہ، ایک جھوٹ‘‘ تھا۔ لیون ٹراٹسکی کا بھی یہی موقف تھا اور لینن کی زندگی میں لیگ آف نیشنز کے بارے میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بھی یہی پوزیشن تھی۔
اقوام متحدہ کی حقیقت اور مقاصد بھی لیگ آف نیشنز سے مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ اس منافقت اور دھوکہ بازی میں درحقیقت اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیگ آف نیشنز اگر چوروں کا باورچی خانہ تھا تو اقوام متحدہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا باورچی خانہ ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم ہونے کے بعد کی تقریباًسات دہائیوں میں ہونے والی جنگوں، خانہ جنگیوں اور تنازعات میں دوسری جنگ عظیم سے پانچ گناہ زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت منافعوں کی ہوس کا شکار ہو کر بھوک، غربت اور بیماری سے مرنے والے کروڑوں انسان اس کے علاوہ ہیں۔ فلسطین سے کشمیر تک، یہ ادارہ کوئی ایک بھی سنجیدہ تنازعہ حل کروانے میں ناکام رہا ہے۔ ان تنازعات سے متعلق اقوام متحدہ کی اس مقدس جنرل اسمبلی میں پاس ہونے والی درجنوں قرار دادوں میں سے کسی پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست اپنے سامراجی آقاؤں کی آشیر آباد سے ہر قرار دار کو اپنے پیروں تلے روند ڈالتی ہے۔ اس ادارے کی حیثیت دنیا بھر کے محنت کشوں کا استحصال کرنے والے سامراجی آقاؤں کے ’’کلب‘‘ سے زیادہ نہیں ہے جہاں وہ سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت کے قانونی جواز تراشتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اوقات ’’سامراج کی راکھیل‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس جنرل اسمبلی میں کبھی نہ ختم ہونے والے بحث و مباحثے جاری رہیں گے اور دوسری طرف یہ دنیا بھر کے عوام جنگوں، استحصال اور غربت کی چکی میں پستے رہیں گے۔ عراق جنگ نے ثابت کیا ہے کہ سامراجی طاقتیں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر لعنت بھی نہیں بھیجتیں۔ اس ادارے کے ڈھانچے غیر جمہوری ہیں اور تمام تر فیصلے حاوی قوتوں کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ اپنی خارجہ پالیسی پر ضرب لگانے والی کسی بھی قرار داد کو یہ طاقتیں ویٹو کر دیتی ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ عرصے سے سلامتی کونسل میں ان عالمی طاقتوں کے باہمی تنازعات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر اس نظام کے بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی بحران کی علامت ہے۔
اقوام متحدہ دنیا کے حکمران طبقات اور سامراجیوں کا ادارہ ہے جس کا عوام کے مفادات یا ’’انسانی حقوق‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکمرانوں کے ایسے اداروں کے مقابلے میں دنیا بھر کے محنت کشوں کو اپنی عالمی تنظیمیں تعمیر کرنا پڑیں گی۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی نے پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی انٹرنیشنل اسی مقصد کے تحت تعمیر کی تھیں کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے اقوام کی مساوات اور اشتراک پر مبنی عالمی سوشلسٹ فیڈریشن تعمیر کی جائے۔ آج بھی انسانیت کے پاس بھوک، غربت، جنگوں اور سامراجی استحصال سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے!