پاکستان

جرم جہالت کے سزاوار ہیں ہم: ان پڑھ نسلیں اور غربتوں کے دائرے!

قیصر عباس

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کس قدر مقبول ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سابقہ حکومت نے جاتے جاتے قومی اسمبلی میں بغیر کسی بحث کے ایک بل پاس کر کے 26 یونیورسٹیز کے چارٹرز کی منظور ی دی۔ ان میں زیادہ تر ادار ے کاروباری افراد کی ملکیت ہوں گے جبکہ دو خوش قسمت لوگوں کو 6 جامعات کی انفرادی ملکیت حاصل ہو گی۔

اصل حقیقت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ جامعات منافع بخش کاروباری کمپنیوں کی طرز پر چلائی جاتی ہیں اور منطور شدہ وفاقی چارٹر مہنگے داموں بیچے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں 244 سرکاری اور نجی جامعات پہلے ہی موجود ہیں جن میں متوسط اور اعلیٰ طبقوں کے ہزاروں بچے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ ایک جانب پوری توجہ اعلیٰ تعلیمی اداروں پر دی جارہی ہے اور دوسری جانب پاکستان میں مجموعی شرحِ تعلیم صرف 58 فیصد ہے جو بتدریج بہتر ہو رہی ہے پھر بھی جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں سے کم ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں لوگوں کی تعلیمی استعداد اور بھی کم ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر ارباب اقتدار، اسٹبلشمنٹ اور سیاسی لیڈروں کوعام لوگوں کی تعلیمی استعداد بہتر کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد سے اب تک اشرافیہ کی بے حسی کے نتائج ملک کے اَن پڑھ نوجوان بھگت رہے ہیں۔ تعلیم سے محروم بچے یا تو اسکول نہیں گئے یا تعلیم مکمل نہیں کر سکے اور ان کی ایک بڑی تعدادمزدوری کر رہی ہے، دہشت گرد یاجرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہے یا مدرسوں میں دینی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ میٹرک پاس بچوں کا تعلیمی معیار بھی مایوس کن ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیتے ہوئے اَن پڑھ بچوں کو غربت کے دائروں سے نکالنے کے ایک عملی منصوبے کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کے مقتدر طبقے کیسے اور کن مقاصد کے تحت نظام تعلیم کو نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں؟ لاطینی امریکہ کے ایک ماہر تعلیم کے نظریات کے حوالے سے اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔

پالو فریری، طبقاتی سماج اور نظامِ تعلیم

برازیل کے معروف ماہر تعلیم پالو فریری (Paulo Freire,1921-1997) کا نظریہ ”پس ماندہ طبقات اور حصول تعلیم“ (Pedagogy of the Oppressed) آج بھی طبقاتی معاشروں میں تعلیمی نظام پرحرف آخر ہے۔ ان کے نزدیک:

”ہمارے تعلیمی نظام کامقصداشرافیہ کی استحصالی پالیسیوں کونہ صرف قائم رکھنا بلکہ اور مضبوط کرنا ہے۔ اس نظام کے ذریعے پس ماندہ طبقوں پر اپنی گرفت مضبوط ر کھنے کے لیے موزوں سماجی ڈھانچوں کو زندہ رکھا جاتاہے اور ان کی ترویج جاری رہتی ہے۔“

فریری نے لا طینی امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں میں کام کرکے اپنے نظریات کو عملی طور پر ثابت کر دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ روایتی تعلیمی نظام میں طلباء اور اساتذہ کے درمیان یک طرفہ ابلاغ ہوتا ہے جو استاد کی جانب سے شاگرد کی جانب ہی ہو سکتا ہے۔ اس طریقہ کار کو انہوں نے بینکنگ کے نظام سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ اپنے علم کوشاگردوں کے ذہنی اکاؤنٹ میں جمع کر کے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا کام مکمل ہوگیا۔ طلبہ اس رٹے رٹائے سبق کو ہی اصل تعلیم سمجھ کر استحصالی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ طریقہئ تعلیم لوگوں کو ان کے تاریخی اور ثقافتی حوالوں سے الگ کر کے وقتی ضرورتو ں کو پورا کرتا ہے۔

اس کے برعکس فریری کاپیش کردہ متبادل طریقہ تعلیم کلاس روم میں طلباء اور اساتذہ کے درمیان دو طرفہ مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔ یہ نظام طلبہ کو اپنے تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے منسلک کرتا ہے، سماج پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی تربیت دیتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائی ہوئی تشہیری داستانوں، مثلاً ”ہر شخص کو ترقی کے یکسا ں مواقع حاصل ہیں“ کو رد کرتاہے۔ فریری کے نزدیک لٹریسی (Literacy) پس ماندہ طبقوں کی زندگی میں تبدیلی کا زینہ بن سکتی ہے لیکن طاقتور طبقے اس کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیمی انحطاط

آزادی کے بعد ہمارے رہنماؤں نے غریب طبقوں پرسب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ انہیں تعلیم سے محروم رکھا۔ اشرافیہ کوتعلیم پر اس لیے بھی توجہ دینے کی ضرورت نہیں کہ ان کے بچے برطانوی طرز کے پبلک اسکولوں، مشن اسکولوں یا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ متوسط طبقے کے لیے نجی اسکو ل ہیں جن میں کچھ بہتر اورکچھ کم تعلیمی معیار کے حامل ہوتے ہیں۔ سب سے آخر میں عام شہری اپنے بچو ں کو سرکاری اسکولوں میں غیر معیاری تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔

تعلیمی استعداد یا انحطاط کی شروعات اسکولوں سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن بنیادی تعلیم کا معیار اور کارکردگی ہر دور میں ناقص رہی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر 183,900 پرائمری اسکول، 48,300 مڈل اسکول اور 32,000 سیکنڈری اسکولوں میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ہمارے نظام تعلیم کے ناقص معیارکی وجوہات کیا ہیں؟ ولسن سینٹر واشنگٹن کی ایک رپورٹ ’Pakistan’s Education Crisis‘ کے مطابق یہ تاثر درست نہیں کہ تعلیمی شعبے کے لیے سرکاری بجٹ بہت کم رکھا جاتاہے۔ رپورٹ کی مصنفہ ’Nadia Naviwala‘ نے سرکاری بجٹ کے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم اور فوجی بجٹ تقریباً برابر ہوتا ہے اور ملک میں فوجیوں اور ٹیچروں کی تعداد بھی تقر یباًایک جیسی ہے۔ مثلاً 2016ء میں فوجی بجٹ جی ڈی پی کا 2.9 فیصد اور تعلیم کابجٹ 2.7 فیصدتھا اور یہ تناسب 2015ء میں.8 2 فیصد اور 2.5 فیصد تھا۔

راقم کے خیال میں یہ تاثرکہ فوجی اور تعلیمی مدوں کے بجٹ برابر ہیں درست نہیں۔ ان اعداد و شمار کی اصل حقیقت، جسے رپورٹ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، یہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں فوجیوں کی پنشن، ایٹمی پروگرام، ملٹری آپریشن اور پوشیدہ اخراجات کا بجٹ شامل نہیں اور اس طرح سرکاری بجٹ صورت حال کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ اسی رپورٹ کے مطابق اصل مسئلہ تعلیم کے شعبوں میں مالی بدعنوانی، رشوت، صرف سرکاری دستاویزات میں موجودبھوت اسکولوں کے اخراجات، ٹیجروں کی اسکولوں سے غیرحاضری، لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں تعلیم کی کمی اوراسکولوں میں سیاسی مداخلت اہم مسائل ہیں۔

ٹیچروں کی اسکولوں سے غیر حاضری پنجاب میں 20 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 30 فیصدرہی ہے، سندھ میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ پنجاب میں کچھ اقدامات کے تحت اس صورت حال میں بہتری کے آثار نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیچروں کی بھرتی طاقتور سیاست دانوں کی سفارشات سے ہوتی ہے جو مسئلے کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ ناقص تعلیمی معیارکی ایک وجہ ٹیچروں کی تربیت کا فقدان ہے۔ مزید یہ کہ جدید صنعتوں کے لیے تربیت یافتہ لوگ تیار نہیں کیے جا رہے کیوں کہ ان کے لیے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے۔

پالوفریری کے نظریات پاکستانی نظام ِتعلیم کی کارکردگی کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں سے میٹرک پاس کرنے والے بچوں کا معیار جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتااوران کے لیے مہنگے انگریزی میڈیم یا نجی اسکولوں سے فارغ التحصیل بچوں کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔ یہاں شاگرد اور استاد کا ابلاغ یک طرفہ ہوتا ہے اور کلاس روم میں دی جانے والی تعلیم طلباء کو اپنی تاریخ وتہذیب سے الگ کر کے انہیں صرف استحصالی نظام میں زندہ رہنے کے گر سکھاتی ہے۔ سرکاری اور نجی اسکولوں میں طلبہ اپنی تاریخ سے نفرت اوردور دراز ملکوں کی ثقافت و عقائد سے انسیت کا سبق سیکھتے ہیں۔ انگریزی میڈیم کے فارغ التحصیل طلبہ کو بھی اپنی دھرتی کی تاریخ و تمدن سے دور رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے انہیں اپنے ملک کے بجائے مغربی ممالک کی ثقافت اور تاریخ کا بہترادراک ہوتا ہے۔

اَن پڑھ بچوں کا مستقبل

ملک میں غریب طبقوں کے بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکول کی شکل نہیں دیکھتی۔ یو نیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 32 فیصد بچے، سندھ میں 44 فیصد، خیبر میں 32 فیصد اور بلوچستان میں 47 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ تصویر کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ ملک میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح ِتعلیم کم ہے، سندھ میں 58 فیصد اور بلوچستان میں 78 فیصد بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

مجموعی طور پر ملک کے تقریباً نصف سے زیادہ غریب بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں اور یہ صورت حال دوسرے ملکوں کے مقابلے میں انتہائی تشویشناک ہے۔ مقتدرحلقوں نے کبھی ان بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جو اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرتے ہیں یامعاشرے کے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ تعلیم سے بے بہرہ یہ بچے اکثر جہادی گروہوں میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں جو انہیں اپنے مقاصد کے لیے خودکش حملوں میں قربانی کا بکرا بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسری صورت میں غربت میں گھرے ماں باپ انہیں مذہبی مدرسوں میں داخل کرتے ہیں جہاں ان کی مذہبی تعلیم، رہائش اور روز مرہ کی ضروریات کا مفت انتظام ہو تا ہے۔ ان درس گاہوں کے فارغ التحصیل طلبہ دوسرے مذاہب اور فرقوں کے خلاف نفرتیں لیے معاشرے میں قدامت پسند رویوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیمیں اور وزارتِ تعلیم ملک میں لٹریسی کے کئی پروگرام چلا رہی ہیں لیکن بہت کم ادا رے ان نوجوانوں کی بہبود میں دلچسبی رکھتے ہیں جنہوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ اس قسم کے پروگراموں کے لیے بیرونی فنڈنگ بھی شاذونادر ہی نظر آتی ہے۔

تجزیہ کاروں کی مشترکہ رائے ہے کہ تعلیم سماجی ترقی کابنیادی جزو ہے، اگر چہ صرف تعلیمی استعداد ترقی کے لیے کافی نہیں کیوں کہ معاشرے کے کچھ اور عناصر بھی اس میں مثبت یا منفی کردار اداکرتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے توتعلیم سے محروم نوجوان نسل کو ایسے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے جومیٹرک کے مساوی تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی کی صلاحیت پیدا کریں اور پیشہ ورانہ تربیت دیں۔ روایتی سوچ سے نکل کرتشکیل دئے جانے والے موثر لیکن کم مدت کے پروگرام انہیں ملک کے اقتصادی دھارے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

یہاں دو مرحلوں پر مشتمل ایک تعلیمی اور تربیتی پروگرام کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں کم مدت کے تعلیمی نصاب تشکیل دئے جائیں جو میٹرک کی سند کے مساوی تعلیم دیں۔ خصوصی طور پر تشکیل دیے گئے نصاب میں طلبہ کے ذہنی میلان کومدنظر رکھتے ہوئے روزمرہ زبان کی تحریر اور بول چال، میتھ، سائنس اور کمپیوٹر کے علاو ہ بنیادی اکاؤنٹنگ، ٹائپنگ اورا نتظامی امور کی تربیت دی جائے۔ علاقائی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی ہم آہنگی کے کورسز بھی اس پروگرام کا حصہ بنائے جائیں۔ اگرچہ پاکستان میں ان خطوط پر کام نہیں ہورہالیکن امریکہ اور دوسرے ملکوں میں جنرل ایجوکیشن ڈپلومہ یاجی ای ڈی (GED) کے شعبے ہائی اسکول کا حصہ ہوتے ہیں جن میں تعلیم ادھوری چھوڑنے والے طلبہ کو کم مدت کے کورسز مکمل کرانے کے بعدہائی اسکول کے مساوی سرٹیفکٹ دیے جاتے ہیں۔ اس سرٹیفکٹ کی بنیاد پرانہیں اعلٰی تعلیمی اداروں یا ٹیکنکل کالجز میں داخلہ مل جاتاہے۔

مجوزہ پروگرام کے دوسرے مرحلے میں طلبہ کوپولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں صنعتوں کے پیشہ وارانہ ہنر سکھائے جائیں اور تربیت یافتہ طلبہ کو اندرون یا بیرونِ ملک ملازمتوں کے حصول میں مدد دی جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ غریب گھروں کے مزدور بچوں کو ان کی آمدنی سے محروم کر کے پروگرام میں شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ان بچوں کی مالی مدد اور کھانے کے خراجات پروگرام کے بجٹ میں شامل کیے جائیں۔

ہمارے تعلیمی بحران کے مسائل کا حل دوررس سماجی تبدیلی کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کی غیر تعلیم یافتہ نسل کے بہتر مستقبل کے لیے نئے غیر روایتی منصوبوں کی فوری ضرورت ہے۔ اگر ان لاکھوں نوجوانوں کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں: غربت کے نہ ختم ہونے والے دائر وں کا تسلسل یا جہادی گروہوں میں شمولیت کے امکانات۔ آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان نسلوں کو غربت اور جہالت کے دائروں سے باہر نکال سکتے ہیں؟

کتابیات

Miguel Escobar, Afredo L. Fernandez, and Gilberto Guevara, Niebla with Paulo Freire.(1994). Paulo Freire on Higher Education. New York: State University of New York.
Nadia Naviwala. (2015). Pakistan’s Education Crisis. Washigton DC: Wilson Center.Link:https://www.wilsoncenter.org/publication/pakistans-education-crisis-the-real-story-report.
Pakistan Bureau of Statistics. (2019). Link: https://www.pbs.gov.pk/content/statistical-tables-pslm-2019-20
Paulo Freire.(2014, 30th edition). Pepagogy of the Oppressed. New York: Bloomsbury Academic.
UNICEF. (2023).https://www.unicef.org/pakistan/education.
UNDP. (2020). Pakistan National Human Development Report 2020. Link:
https://www.undp.org/sites/g/files/zskgke326/files/migration/pk/NHDR-Inequality-2020—Overview-Low-Res.pdf.

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔