پاکستان

’طالبان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں‘

فاروق سلہریا

سابق سیکرٹری ریاض کھوکھر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جنوری 2001 میں جنرل مشرف نے سفیروں کی کانفرنس میں کہا’طالبان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ہم انہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتے‘۔

اس فوجی پالیسی پر سول سپریمیسی پر یقین رکھنے والے تمام سیاستدان ہمیشہ عمل کرتے آئے ہیں۔

2010 کی بات ہے۔19 اپریل کو پشار میں ہونے والے ایک خود کش دھماکے میں 23افراد کی جانیں گئیں۔ خیبر پختونخواہ میں ان دنوں ہر طرف دھماکے ہو رہے تھے۔یہ دھماکہ دیگر دھماکوں کی نسبت کچھ مختلف اس لحاظ سے تھا کہ ہمیشہ کی طرح اے این پی کو نشانہ بنانے کی بجائے خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑانے کیلئے اس بار جماعت اسلامی کے مظاہرے کا انتخاب کیا تھا۔

ان دنوں جماعت کے نائب امیر سراج الحق تھے۔انہوں نے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا،جو لوگوں کی جانوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے،جبکہ جماعت کے ایک اور رہنما حافظ حشمت نے بلیک واٹر پر الزام عائد کیا۔ جماعت کے کسی رہنما کی طرف سے طالبان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا، جنہیں عموماً ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔اس سے ایک سال قبل، جب سوات کی ویڈیوز نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، تب بھی جماعت والوں نے طالبان کی مذمت تک نہیں کی تھی۔گو طالبان کے ترجمان مسلم خان نے بیان جاری کیا اور کوڑے لگانے پر اظہار فخر کیا مگر جماعت سے وابستہ کئی دانشور حضرات نے اس واقعہ کو ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) طالبان کے حوالے سے یا تومکارانہ خاموشی اختیار کئے رکھتی ہے یا پھر ان کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ شہباز شریف کو وہ بیان تو بعض لوگ اب بھی کبھی کبھار فیس بک پر شئیر کرتے ہیں جو انہوں نے 14 مارچ 2010 کو دیا تھاکہ مسلم لیگ (ن) نے بیرونی قوتوں کی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے”اگر طالبان کا موقف یہی ہے تو انہیں پنجاب میں دہشت گردی نہیں کرنی چاہیے۔“اگست 2021 میں جب طالبان نے دوبارہ کابل پر قبضہ کیا تو خواجہ آصف کی ٹویٹ ابھی کل کی بات ہے۔

مشرف دور کے دوران،پیپلز پارٹی طالبان کی مذمت میں کافی آواز اٹھا تی تھی۔پھر ہم نے دیکھا کہ وزیر خارجہ بنتے ہی بلاول بھٹو زرداری نے کسی جوش و خروش سے طالبان کو باقاعدہ جپھیاں ڈالیں۔پیار کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔ پیپلزپارٹی کا 1996میں موقف طالبان دوست تھا، جب کابل پر طالبان نے پہلی بار قبضہ کیاتھا۔

یادش بخیر! اس وقت جماعت اسلامی نے اس اقدام کو افغانستان کو نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی امریکی سرپرستی کی سازش قرار دیا تھا۔

مئی 1996 میں قاضی حسین احمد کابل پر طالبان کا قبضہ روکنے کیلئے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی آخری کوشش میں 10 دن تک کابل کے چکر لگاتے رہے۔ حکمت یاراور احمد شاہ مسعود کی حکومت کے خاتمے سے ایک ماہ قبل ستمبر 1996 میں جماعت نے کابل میں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ ان دنوں،طالبان سے جماعت اسلامی کی نفرت حکمت یار کی دیرینہ حمایت کی وجہ سے تھی۔

دریں اثنا، حکمت یار کی جانب سے صدام حسین کی حمایت نے سعودیوں کو ناراض کر دیا تھا۔ شاید منصورہ نے سعودی مزاج میں اس تبدیلی کو محسوس نہیں کیا تھا۔ طالبان کے ساتھ جماعت کے پریشان کن تعلقات کو مزید واضح کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے اس تبصرے کا ذکر کرنا مناسب ہے کہ طالبان کی کابل پر فتح جماعت اسلامی سے جمعیت العلماء اسلام کی طرف”صرف گارڈ کی تبدیلی“ تھی۔

انتدائی طور پر،طالبان کی فتح پر نواز شریف بھی اتنے ہی مایوس تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی افغان پالیسی کو ایک تباہی قرار دیا جس نے ”دوستوں کو دشمنوں میں بدل دیا۔“ تاہم 1997 کے اوائل میں وزیراعظم بننے کے بعد چند ماہ کے عرصے میں ہی ان کی حکومت نے بڑی جلدی میں ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ نواز شریف کا پھر یہ بیان بھی اخبارات کی زینت بنا کہ وہ پاکستان میں وہی نظام چاہتے ہیں جو طالبان نے افغانستان میں لاگو کیا ہے۔

کارگل میں جھگڑے سے جان چھڑانے کے لئے نواز شریف نے 4 جولائی 1999 کو بل کلنٹن سے ملاقات کی۔ صرف بل کلنٹن ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے طالبان سے متعلق انہیں ڈکٹیٹ کیا یا نہیں۔ 6 جولائی کو واشنگٹن نے طالبان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی پابندیاں اس وقت مزید موثر ہوئیں،جب اگست کے وسط میں نواز شریف حکومت نے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ اکتوبر کے اوائل میں نواز شریف نے دبئی کا سفر کیا تاکہ خلیجی ریاستوں کو طالبان کی حمایت ختم کرنے اور اسامہ بن لادن کی حوالگی پر زور دینے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کریں۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق،”شریف نے کہا کہ انہوں نے اصرار کیا کہ طالبان پاکستان میں تمام سرگرمیاں بند کر دیں، اسامہ بن لادن کو حوالے کریں، یا انہیں افغانستان چھوڑنے کے لیے کہیں، اور تمام تربیتی کیمپ بند کر دیں۔“

اس سے قبل کہ نواز شریف طالبان کو آمادہ کرتے، انہیں معزول کر دیا گیا۔ ملا عمر نے نوازشریف کی برطرفی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا، یہ ایک ایسا اقدام ہے جو”پاکستانی قوم کے خلاف غیر ملکی طاقتوں کے بعض اقدامات کے ردعمل میں آیا۔“

جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے، نصیر اللہ بابر نے طالبان کے کابل پر قبضے پر اعلان کیا کہ ”طالبان کا عروج پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ایسی حکومت ہے جس کا بھارت یا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“بینظیر،جو خود فاروق لغاری کے ہاتھوں اپنی برطرفی سے صرف39دن دور تھیں، نے اسے ’خوش آئند پیش رفت“ قرار دیاتھا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔