تاریخ

شاہین بمقابلہ ہیر رانجھا: سرگودہا اور بیا نئے کی جنگ

فاروق سلہریا

سرگو دہا کا نام آتے ہی پاکستان ائر فورس ذہن میں آتی ہے جس کی وجہ سے اس چھوٹے سے قصبے کو پورے ملک میں جانا جاتا ہے۔ خود شہر کی اکثریت بھی شائد ’شاہینوں کا شہر‘ ہونے پر فخر کرتی ہو۔

ایسا نہیں کہ سرگودہا میں ائر فورس بیس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس شہر نے کئی بڑے کھلاڑی،شاعر ور ادیب پیدا کئے۔ گو کھلاڑیوں میں اب زیادہ بڑا نام سابق ٹیسٹ کرکٹر پروفیسر حفیظ کو سمجھا جاتاہے لیکن جس ہاکی ٹیم نے آخری بار پاکستان کے لئے اولمپک گولڈ جیتا،اس اسکواڈ میں ریزرو فل بیک زاہد کا تعلق سرگودہا سے تھا۔

اسی طرح جس ہاکی ٹیم نے آخری بار پاکستان کے لئے ورلڈ کپ جیتا، اس میں سنٹر ہالف شفقت تھے۔ ان کا تعلق سرگودہا سے تھا۔ اتفاق سے یہ دونوں کھلاڑی شہر کے معروف کریسنٹ کلب کے لئے کھیلتے۔

چار سو میٹر دور لگانے والے فیاض ایک اور اولمپئین تھے جس پر اہل سرگودہا ناز کرتے تھے۔ وزیر آغا اور شکیب جلالی جیسے بڑے ادبی نام بھی سرگودہا سے وابستہ ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرگودہا کی سر زمین سے جڑی سب سے مشہور شخصیت دھیدو رانجھا ہے۔ صدیوں سے یہ قصہ کابل سے لے کر بنگال تک سنایا جا رہا ہے۔ برصغیر میں یہ نام محبت کا سب سے بڑا استعارہ ہے لیکن سرگودہا شہر کی اکثریت کو شائد یہ علم نہ ہو کہ رانجھا کا گاوں تخت ہزارہ دریائے چناب کے قری ضلع سر گودہا میں واقع ہے۔ یہ کہ رانجھے کا نام دھیدو تھا شائد سرگودہا سے باہر بھی اکثریت کو معلوم نہ ہو۔

جس شہر کو محبت کی علامت ہو نا چاہئے تھا وہ جنگ کی علامت بنا دیا گیا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔