لاہور(جدوجہد رپورٹ)سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صحت کارڈ پروگرام کے تحت پنجاب بھر کے نجی ہسپتالوں میں 80فیصد بچوں کی پیدائش کیلئے سی سیکشن کا طریقہ کار اپنایا گیا، جس کی وجہ سے ان نجی ہسپتالوں کو ٹیکس دہندگان کے خرچ پر بہت بڑا مالی فائدہ حاصل ہوا۔اس سکیم کے تحت نجی ہسپتالوں نے یہ تمام تر نجی فائدہ ماں اور بچے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر حاصل کیا۔
’ڈان‘ کے مطابق 2016سے جنوری2024کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نجی ہسپتالوں نے سی سیکشن اور نارمل ڈلیوری کے کیسز میں مجموعی طور پر 16.36ارب روپے کی رقم حاصل کی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے سی سیکشن پروسیجر کے لئے ادا کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ نجی ہسپتالوں کے مالکان کے پاس چلا گیا۔
اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن اس پروگرام کے تحت کئی طبی پروسیجرز پر سبسڈی کی پیشکش کر رہی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی(پی ایچ آئی ایم سی) کی طرف سے فہرست میں شامل سرکاری اور نجی ہسپتالوں نے اس عرصے کے دوران کل 6لاکھ68ہزار238سی سیکشن پروسیجرز کو انجام دیا۔ کمپنی پنجاب میں صحت کی سب سے بڑی سکیم کے تحت مریضوں کو فراہم کئے جانے والے ہیلتھ کیئر کور کی نگرانی کر رہی تھی۔
مجموعی کیسز میں سے 5لاکھ25ہزار619نجی ہسپتالوں میں، جبکہ 1لاکھ42ہزار619صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں کئے گئے۔
اسی طرح پنجاب کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں نارمل ڈیلوری کی تعدادمحض2لاکھ10ہزار124ریکارڈ کی گئی۔ ان میں سے 1لاکھ42ہزار نارمل پیدائشیں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں ہوئی ہیں۔
اس بڑے فرق نے آزاد مبصرین کو چونکا دیا ہے، جو اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک سینئر میڈیکل ٹیچر کا کہنا ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ سہولیات میں سی سیکشن پروسیجر کے درمیان بڑے فرق کے پیچھے کی وجوہات اور حقائق کو سامنے لانے کیلئے تھرڈ پارٹی کی جانب سے اچھی طرح سے چھان بین کی ضرورت ہے۔ اس بات کو عام کیا جانا چاہیے کہ کیوں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو بظاہر اس طریقہ کار سے گزرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ صحت کے پیشہ ور ماہرین بہت سے زچگی کے ماہرین کے اس طرح کے طریقوں میں ملوث ہونے کے بارے میں جانتے ہیں، کیونکہ انہیں نارمل یا قدرتی پیدائش کے مقابلے میں سی سیکشن کرانے کیلئے کئی گنا زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ طبی پیشے میں نارمل ڈیلوری کو جراحی کے طریقہ کار سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ہیلتھ سکیم سے مستفید ہونے والے گائنا کالوجسٹ نے مریضوں کی طبی معلومات کی کمی کا فائدہ اٹھایا ہواور بھاری مالی فائدے کیلئے اس کا غلط استعمال کیا ہو۔
سرکاری اعداد و شمار طبی ماہرین کے خیال کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ نجی ہسپتالوں کو 2016سے جنوری2024تک تمام سی سیکشن اور نارمل ڈیلیوری کے کیسوں کی مد میں 16.36ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
اس کل رقم میں سے 2023میں 7.19ارب روپے وصول کئے گئے، 2022میں 8.16ارب روپے، 2021میں 610ملین روپے، 2020میں 168ملین روپے وصول کئے گئے ہیں۔
اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نجی ہسپتالوں نے سال2023کے دوران 1لاکھ97ہزار376سی سیکشن پروسیجرز کئے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں 97ہزار390آپریشن کئے گئے۔
2022میں نجی ہسپتالوں نے 2لاکھ81ہزار137آپریشن کئے گئے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں محض31ہزار372آپریشن کئے گئے۔ 2021میں نجی ہسپتالوں میں یہ تعداد28ہزار366جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں یہ تعداد محض87تھی۔ اسی طرح نجی ہسپتالوں نے 2020میں 8ہزار174آپریشن صحت کارڈ پر کئے، جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں صرف6آپریشن ہوئے تھے۔
ایک اہلکار کے مطابق اس وقت کی نگراں حکومت پنجاب نے 2023کے وسط میں نجی ہسپتالوں میں سی سیکشن پروسیجر پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی ہسپتالوں نے 2سالوں کے دوران 4لاکھ78ہزار 513آپریشن کئے ہیں۔
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ نتیجتاً دو سالوں میں کئے گئے تمام آپریشن اور نارمل ڈیلیوری کی مد میں وصول کی گئی رقم 15ارب روپے تک پہنچ گئی، جو گزشتہ 6سالوں کے دوران نجی ہسپتالوں کی جانب سے کلیم کی گئی کل رقم سے کئی گنا زیادہ تھی۔
انکا کہنا تھا کہ اس صورتحال نے حکام کو پابندی لگانے اور پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
پرائیویٹ ہسپتالوں میں اس طرح کے طریقہ کار پر پابندی لگاتے ہوئے حکومت نے ہیلتھ کارڈ کے تحت ڈلیوری کے معاملات کو سرکاری ہسپتالوں میں ایڈجسٹ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
تاہم اہلکار کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں نے بھی ہیلتھ کارڈ کے تحت ڈلیوری کیسز کو لینااس وقت چھوڑ دیا، جب ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ ہر کیس میں انکا حصہ ناکافی ہے اور اس طرح یہ ان کیلئے ناقابل قبول ہے۔
تاہم سرکاری ہسپتال صحت کارڈ کور کے بغیر آنے والی امیدوار خواتین کو جگہ دیتے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں عوام کے ٹیکسوں کی رقم پر چلنے والی ہیلتھ کئیر سکیم کو نجی ہسپتالوں نے لوٹ مار کے ایک کاروبار میں تبدیل کر دیا۔ ڈاکٹروں کو اس عمل میں ملنے والے زیادہ حصے کی وجہ سے ہیلتھ کارڈ کی سہولت استعمال کرنے والے مریضوں کو نجی ہسپتالوں میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر تیار کرنے کے عمل میں ایک طرف نجی ہسپتالوں کو انشورنس کی بھاری رقوم مل رہی ہیں، دوسری طرف ڈاکٹروں کو بھی بھاری معاوضے ادا کئے جا رہے ہیں۔
تاہم عوامی ٹیکسوں پر ہونے والی اس لوٹ مار میں ماں اور بچے کی زندگیوں سے کھیلنا صحت کے کاروباریوں کا معمول بن چکا ہے۔
’ڈان‘کے مطابق پی ایچ ایف ایم سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی رزاق نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔