عامر رضا
یوم مئی پر پاکستانی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سٹیٹس پر چند تصاویر اور نعرے ایک جیسے نظر آئیں گے۔جیسے کہ ”مزدور کے نام پر چھٹی لیکن مزدور تو آج بھی کام پر ہے“۔”یوم مئی کی چھٹی کا مزدوروں کو کیا فائدہ“ وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہی پیکج ٹی وی کی سکرینوں پر دکھائے جاتے ہیں۔آج جن مختلف چینلز کی نشریات دیکھی ان میں ایسے ہی نیوزپیکج نظر آئے جن میں سڑک پر بیٹھے مزدوروں کو دکھایا گیا اور ایک ہی سوال ان نیوزپیکجز میں پوچھا گیا کہ آج یوم مئی کی چھٹی ہے تو آپ کو چھٹی کیوں نہیں؟۔دیہاڑی دار مزدور آج بھی مزدروی کرنے پر مجبور ہے؟۔
اس طرح کی نیوز رپورٹس اور پیکجز اس تاثر کو مضبوط کرتے ہیں کہ یوم مئی منانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے یا یہ دن صرف چند لوگوں کی عیاشی کے لیے ہے جبکہ اس کا مزدور کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔اگر ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی ٹرانسمشنز کا جائزہ لیں تو وہ ٹی وی چینلز جو ”مدر ڈے“ ”فادر ڈے“ ”وایلنٹائن ڈے“ اور دیگر عالمی دنوں پر خصوصی ٹرانسمشنز کرتے ہیں،خاص پروگرام ترتیب دیتے ہیں،خصوصی ڈرامے بناتے اور نشر کرتے ہیں، وہ یوم مزدور پر ایسا نہیں کرتے۔ یوم مزدور پر ٹی وی چینلز، ان کے نیوز ایڈیٹرز،اور رپورٹرز کا روز صرف یہ بارآور کروانے پر گزر جاتا ہے کہ اس دن کی چھٹی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔یہ چھٹی صرف اور صرف چند لوگوں کی عیاشی کا سامان بنتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
کسی ٹی وی چینل پر آپ کو کوئی ایسا پروگرام نظر آئے گا جس میں پاکستان کی مزدور تحریک کا جائزہ لیا گیا ہو اور یہ بتایا گیا ہو کہ مزدور تحریک آج کس نہج پر کھڑی ہے۔کوئی مناظرہ ٹی وی سکرینوں پہ نظر نہیں آئے گی جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی لیبر پالیسز میں مزدوروں کو کیا کیا تحفظات اور مراعات دی گئی ہیں اور کیا کیا نہیں۔نیوز چینلز کے نیوز مینجرز اور پروگرامنگ ہیڈ ایسا کوئی پروگرام نہیں کریں گے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ریاست اور سرمایہ داری کی ساجھے داری نے کس طرح سے پاکستان میں ٹریڈ یونینز کی کمر توڑی اور لیبر کلاس کو غیر منظم کر کے اسے کس طرح سے سیاست کے مرکزی دھارے سے باہر نکلا ہے۔وہ اینکر حضرات جو ملک میں اصلی اور خالص جمہوریت نہ ہونے کا رونے روتے ہیں انہوں نے کبھی بھی میڈیا میں بیٹھ کر جمہوری اور سیاسی نظام میں ٹریڈ یونینز کے کردار پر بات تک نہیں کی۔ہمیں ٹی وی پر ایسی تحقیقاتی خبریں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جو یہ بتا سکیں کس کس فیکٹری میں چائلڈ لیبر ہے،کس فیکٹری میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے تحت مزدور بھرتی کیے جاتے ہیں اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ برسوں پہلے سینئر صحافی ضیاالدین مرحوم سے ملاقات کے دوران کچھ ایسی صورتحال کا ذکر کیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ میڈیا مالکان خود صنعت کار ہیں۔اگر نہیں بھی ہیں تو یہ چیمبر آف کامرس کے ممبرز ہیں۔اور اگر کسی چیمبر آف کامرس کے ممبرکی فیکٹری میں مزدور وں کی حالت خراب ہے یا وہاں کوئی ہڑتال چل رہی ہے تو میڈیا مالک اپنے کی ساتھی کے خلاف رپورٹنگ کیوں کرے گا۔
دوسری طرف اگر پرنٹ میڈیا کا جائزہ لیں تو صورتحال کچھ حوصلہ افزا نظر آتی ہے۔ اس سال یکم مئی پر پرنٹ میڈیا میں یوم مزدور کے حوالے سے شائع ہونے والے کچھ مواد کا جائزہ لیتے ہیں۔روز نامہ ڈان اور نیوز نے اس دن کی مناسبت سے ادارتی نوٹ لکھے ہیں۔روز نامہ ڈان نے اپنے ادارتی نوٹ میں ٹریڈ یونینز کی عدم موجوددگی میں مزدوروں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ حکومت کو کام کی جگہ پر حفاظتی انتظامات،کم از کم اجرت، میڈیکل اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے خاتمہ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ دی نیوز نے گلوبل ساوتھ اور گلوبل نارتھ کے حوالے سے مزدرو کے حقوق کا جائزہ لیا ہے۔اخبار نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے گلوبل ساوتھ میں مزدور طبقے کو اپنے حقوق کے لیے منظم جد وجہد کی ضرورت ہے۔
اردو اخبارات نے بھی یوم مئی کے حوالے سے اداریے اور شذرات کم لکھے ہیں جبکہ خصوصی اڈیشن شائع کیے ہیں۔
روزنامہ جنگ نے اس دن کی مناسبت سے کوئی اداریہ تو تحریر نہیں کیا لیکن اس میں مظہر عباس کا کالم ”مزاحمتی تحریکیں کیوں کمزور پڑ گئیں“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کمزور پڑتی ہوئی مزدور تحریک کا جائزہ لیا ہے اور سیاست،انتظامیہ اور عدلیہ کے اداروں کو لیبر تحریک کا گلا گھونٹے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے امید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ آج نوجوان اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو خود منظم کر رہے ہیں۔انہوں نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جرمن سفیر والے واقعہ پر لکھا کہ اس کانفرنس میں شٹ اپ کال ان نوجوانوں کو نہیں ملنی چاہیے تھی جو فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کر رہے تھے بلکہ شٹ اپ کال جرمن سفیر کو ملنی چاہیے تھے جس کا ملک اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ روزنامہ جنگ کا خصوصی ایڈیشن کچھ خاص نہیں ہے اس میں جس پائے کے مضامین ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہیں۔
روزنامہ دنیا نے بھی کوئی پانچ سو الفاظ کا شذرہ لکھا ہے جس میں حکومت پر روز دیا گیا ہے کہ وہ مزدوروں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔اس کے علاوہ اپنے خصوصی ایڈیشن میں انہوں نے کوئی خاص آرٹیکل شائع نہیں کیا اور مزدوروں کے حوالے سے موجود ریاستی بیانیوں کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ایک مضمون”پاکستانی مزدور اور فکر اقبال“کے عنوان سے بھی شامل ہے۔جس میں مضمون نگار نے اقبال کی فکر کا ذکر تو کیا لیکن پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں مزدور تحریک کا کوئی جائزہ نہیں لیا اور جاتے جاتے کلام اقبال کو پاکستان کی مزدور تحریک کا منشور قرار دے دیا۔
روزنامہ ایکسپریس نے اس دن کی مناسب سے کوئی اداریہ تحریر نہیں کیا خصوصی اشاعت میں انہوں نے کامریڈ ناصر منصور کا آرٹیکل ”یکم مئی کے تقاضے اور مزدور کی صورتحال“ شائع کیا ہے۔ جس میں انہوں مزدور تحریک کی کمزور ی کی وجوہات کا جائزہ لیا ہے۔اس کے علاوہ مزدوروں کو درپیش مسائل تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ، کم اجرت، زیادہ اوقات کار، آئی ایم کے پیش قدمی سے پیدا ہونے مسائل، نجی کاری اور لیبر قوانین کا تفصیلی جائزہ پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق لیا ہے۔پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس دن کی حوالے سے شاید کوئی آرٹیکل اس سے بہتر ہو۔اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ ناصر منصور خود مزدور تحریک سے وابستہ ہیں۔
افسوس کے بات یہ ہے کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔قارئین اب ٹی وی اور یوٹیوب پر تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ان فورمز پر مزدوروں کی آواز کو توانا کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ لوگوں میں اس دن کی اہمیت اور افادیت اجاگر ہو۔