خبریں/تبصرے

جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاحتی زمینوں کا ہر قیمت پر دفاع کرینگے: سردار صغیر

راولاکوٹ(نامہ نگار) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 800کنال سے زائد سیاحتی مقامات کی اراضی، بشمول ریزارٹس اور گیسٹ ہاؤسز پاک فوج کی حال ہی میں قائم کی گئی کمپنی ’گرین ٹورازم‘ کو غیر قانونی طریقے سے لیز پر دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں 536کنال سے زائد زمینیں اور سیاحتی انفراسٹرکچر مذکورہ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں اس خطے میں چلنے والی تحریک کے آخری مرحلے میں مذاکراتی عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس خطے کی حکومت کون چلاتا ہے۔ پاکستانی فورسز ایف سی، پی سی اور پنجاب رینجرز کو طلب کر کے اس خطے میں پرتشدد ماحول پیدا کر کے 3زندگیاں چھینی گئی ہیں۔ جھوٹے بیانات اور منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے سے پاکستان میں کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے۔ اس سب کی آڑ میں اس خطے کی مزاحمتی قوتوں کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی تو سخت رد عمل دیا جائے گا۔

موہ یہاں راولاکوٹ میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے ہمراہ سردار انصار خان (زونل صدر)، عبدالقادر خان(ضلعی صدر ایس ایل ایف)، سردار محمد خلیل خان، سردار نذر کلیم، اظہر مرشد، عاصم افریق سمیت دو درجن سے زائد رہنما بھی موجود تھے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں عسکری کمپنی کو لیزپر دی گئی تمام سیاحتی زمینوں اور انفراسٹرکچر کے معاہدے فوری منسوخ کئے جائیں۔ جموں کشمیر میں گرین ٹورازم کو سیاحتی اراضی اور انفراسٹرکچر لیزپر دینے کے غیر قانونی عمل کو فوری طور پر ترک کیا جائے۔ بصورت دیگر سخت احتجاج کیا جائے گا۔ اس خطے میں کام کرنے والے بینکوں کے پاس اس خطے کے لوگوں کی 600ارب روپے سے زائد رقوم موجود ہیں، جن سے قانون کے مطابق کارپوریٹ قرضے اس خطے کے لوگوں کو دیئے جائیں اور سیاحتی انفراسٹرکچر کیلئے سرکاری سطح پر منصوبہ بندی کر کے مقامی آبادیوں کی شراکت سے یہ انفراسٹرکچر تیار کیا جائے تاکہ مقامی سطح پر روزگار مہیا ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ اس خطے میں قائم ہونے والی حکومتیں، یہ لولی لنگڑی اسمبلی اور یہ سارا ڈھانچہ محض ایک شوپیس ہے۔ اس خطے پر نوآبادیاتی قبضہ ہے اور نوآبادیاتی طاقتیں ہی اس خطے کے لوگوں کے مقدر کا فیصلہ کرتی آئی ہیں۔ حالیہ تحریک کے دوران ایک بار پھر ہمارا یہ موقف درست ثابت ہوا ہے۔ اس خطے کی سیاسی اشرافیہ کوئی فیصلہ کرنے کی اہل ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کا عمل نوآبادیاتی نظام کے نمائندہ لینٹ افسر چیف سیکرٹری کو سامنے رکھ کر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کمانڈروں نے کیا۔ پاکستان کی ہائبرڈ حکومت کی حقیقت بھی اس مذاکراتی عمل نے سب کے سامنے کر دی ہے۔ شہباز شریف بھی ایک ڈمی وزیراعظم کے طور پر وہاں بٹھائے گئے ہیں، جبکہ فیصلے طاقتور ادارے خود ہی کر رہے ہیں۔ اس شرمناک عمل کے بعد انوارالحق حکومت کو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔ ہم ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ اس خطے سے نوآبادیاتی قبضے کو جواز فراہم کرنے والے بدنام زمانہ معاہدہ کراچی اور سامراجی ایکٹ1974کو فوری منسوخ کیا جائے۔ گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کو باہم ملا کردو خودمختار صوبوں پر مشتمل ایک آزاد، جمہوری اور انقلابی حکومت قائم کی جائے، جو اس خطے کے وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کی ضامن ہو اور آزادی کی جدوجہد کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر خودانحصاری کی بنیاد پر آگے بڑھا سکے۔

عوامی حقوق تحریک کے دوران عوام کی لازوال شرکت اور ریاستی جبر کے خلاف جرأت مندی سے مزاحمت کرنے پر ہم اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ رینجرز کی فائرنگ سے شہید ہونے والے نوجوانوں کی عظیم قربانی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مظفرآباد،ڈڈیال، اسلام گڑھ، کوٹلی اور دیگر مقامات پر ریاستی جبر اور تشدد کے احکامات جاری کرنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم انوار الحق اور وزیر داخلہ کرنل(ر) وقار نور کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے، جبکہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی بریگیڈیئر شہزاداور کمانڈر رینجرز کا کورٹ مارشل کر کے فوجی قوانین کے تحت ان کے خلاف مقدمہ قائم کیاجائے۔

عسکری حکام کے احکامات پر مقامی حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ ڈڈیال میں اسسٹنٹ کمشنر نے، مظفرآباد میں سرکاری اہلکاروں کو مظاہرین کے روپ میں مظاہرین پرحملہ کروانا، تحصیلدار کا نہتے نوجوانوں پر تشدد اور لانگ مارچ کے شرکاء پر آنسو گیس کی شیلنگ اور پتھراؤ کے ذریعے سے تشدد کو ہوا دی گئی۔ درجنوں شہریوں کو زخمی کیا گیا۔ پر امن شہریوں پر طاقت کا استعمال کرنے والے حکام اب پرتشدد واقعات کی ذمہ داری پر امن مظاہرین پر ڈالنے کیلئے جھوٹے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیاپر ایک منظم مہم کے ذریعے سے جموں کشمیر اور پاکستان کے محنت کشوں اور عام عوام میں نفرت پھیلانے کی ایک مذموم سازش بھی سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے۔ جس کی ہم بھرپورمذمت کرتے ہیں۔ اس مہم میں نہ صرف عسکری ادارے ملوث ہیں، بلکہ اس خطے کے مقامی کٹھ پتلی حکمران اشرافیہ کے نمائندے بھی اس مذموم سازش کا حصہ ہیں۔ جھوٹی اور جعلی ویڈیوز اور تصاویر پھیلائی گئی ہیں۔ بھارتی جھنڈوں سے مزئین پوسٹرز چسپاں کرنے سے لے کر پاکستانی پرچم اتارنے کی جعلی ویڈیوز اور پرچم جلانے کے جعلی بیانات کے ذریعے سے اشتعال پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح مختلف جرائم پیشہ عناصر سے نفرت انگیز بیانات سوشل میڈیا پر جاری کرواتے ہوئے ایک نفرت انگیز مہم شروع کی گئی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں پر حملے کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سہنسہ کوٹلی کے ایک معروف گلوکار کو پاکستان کے علاقوں میں پرفارم کرنے سے روکنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور جموں کشمیر سے جانے والی مسافر گاڑیوں پر جتھوں کے ذریعے پاک فوج زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے زبردستی پرنٹ کئے جا رہے ہیں۔

ایک منظم سازش کے ذریعے سے یہ بیانات دلوائے گئے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کے پاس اسلحہ تھا اور شرپسند عناصر موجود تھے۔ یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے، جو سرکاری حکام کی ایماء پر کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین مکمل پر امن تھے اور تشدد کی ہر ابتدا فورسز اور سرکاری حکام کی جانب سے کی گئی ہے۔ درحقیقت یہ ایک مذموم سازش ہے تاکہ عوامی جدوجہد کی بنیاد پر ریاست کو ہونے والی شکست کو شہریوں کے ذہنوں سے کھرچ کر نکالا جا سکے اور جبر اور طاقت کے ذریعے سے عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کو کچلا جا سکے۔ قوم پرست اور ترقی پسند قوتوں کے خلاف ایک مذموم پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت قوم پرست اور ترقی پسند کارکنان ہی اس تحریک کے بنیادی محرک تھے اور انہی کی محنت اورکوشش سے عوام کو یہ فتح حاصل ہوئی ہے۔

ہم یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس خطے کے لوگوں نے اپنے وسائل کے مطابق اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے۔عوام کی اس کامیابی کے پاکستانی محنت کشوں اور نوجوانوں میں مقبول ہونے کے خدشے کے پیش نظر یہ نفرت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام پر بجلی کا بوجھ سامراجی اداروں، پاکستانی حکمرانوں اور عسکری اشرافیہ کی ملی بھگت سے قائم ہونے والے آئی پی پیز ہیں، جو بجلی پیداہی نہیں کرتے اور ڈالروں میں قیمت وصول کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئی پی پیز کوضبط کرنے اور تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ جموں کشمیر کا ہر شہری اس جدوجہد میں پاکستان کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ ہوگا۔ یہ ہماری مشترکہ لڑائی ہے، جس میں دراڑ ڈالنے کیلئے یہ نفرت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

حکمران اشرافیہ کی مراعات کو بچانے کیلئے اور سامراجی قبضے کو دوام بخشنے کیلئے مقامی حکمران اشرافیہ کے نمائندوں کو ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ اب استحکام پاکستان،پاکستان زندہ باد، الحاق پاکستان اور پاک فوج زندہ بعد ریلیاں کر کے وہ اپنی نوکری پکی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نسل درنسل اس خطے کے لوگوں پر حکمرانی کرنے اور سامراجی سہولت کاروں کا کردار ادا کرنے والے یہ کردار اب عوام کے سامنے مسترد ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر ہم حکمران اشرافیہ کی مراعات کے حوالے سے جاری ہونے والی اس جعلی نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں۔ اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ممبران اسمبلی، وزراء، سابق صدور اور وزراء اعظم کے پنشن اور مراعات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مراعات اور بھاری تنخواہوں کا خاتمہ کرتے ہوئے گریڈ 22کے ملازمین کے ساتھ تنخواہیں ہم آہنگ کی جائیں۔ لامحدود یوٹیلٹی بلز، گیس، پٹرول کی سہولیات ختم کی جائے۔ محض چند سال سروس کرنے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو تاحیات تنخواہ کے 70سے85فیصد تک دی جانے والی پنشن اور دیگر مراعات کا یکسر خاتمہ کیا جائے۔ وزراء، ممبران اسمبلی، بیوروکریٹس اور ججوں کوزیادہ سے زیادہ 1300سی سی گاڑیاں فراہم کی جائیں اور ان گاڑیوں کے دفتری اوقات کے علاوہ استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بیوروکریٹس کیلئے بنیادی پے سکیل کے ڈیڑھ گناہ ایگزیکٹو الاؤنس کو یکسر ختم کیا جائے اور لینٹ افسران کیلئے سپیریئر ایگزیکٹو الاؤنس کو مکمل ختم کیا جائے، جو چیف سیکرٹری کیلئے 4لاکھ روپے ماہانہ اور آئی جی پی کیلئے 3لاکھ 75ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا ہے۔ لینٹ افسران کیلئے تاحیات مراعات کا سلسلہ بھی مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت تمام اضافی انتظامی آسامیوں کو یکسر ختم کیا جائے۔ غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے کے نام پر ایڈہاک ملازمین اور چھوٹی ملازمتیں ختم کرنے کیلئے محکمہ جات کو ختم کرنے کی پالیسی سمیت پنشن اصلاحات کے ذریعے غریب ملازمین سے پنشن کی سہولت چھیننے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔ بجٹ میں ٹرانسفر ادائیگیوں کے نام پر مختص کئے گئے 35ارب روپے، جو حکمران اشرافیہ اور بیوروکریٹس کے جعلی اعلانات، ریفریشمنٹ اور انٹرٹینمنٹ کیلئے مختص کئے گئے ہیں، اس رقم کو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کیلئے لائحہ عمل سامنے لایا جائے اور ٹرانسفر ادائیگیوں کے نام پر مختص رقم کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ کابینہ کو مختصر کر کے 7افراد تک محدود کیا جائے۔گرڈ اسٹیشن کے قیام سمیت اس خطے میں تعمیر ہونے والے پن بجلی منصوبوں کے معاہدے کر کے تمام منصوبے اس خطے کے عوام کی ملکیت میں دیئے جائیں۔ عوام کے نام پر دی گئی سبسڈی کو عوام تک پہنچانے کیلئے ڈیجیٹل میکنزم بنایا جائے، فلورملزاور ٹراسپورٹ کے نظام کو حکومتی تحویل میں لیا جاکر مل مافیا کا ڈرامہ ختم کیاجائے۔ آٹا، بجلی اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں جو کمی ہو ئی ہے، اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ہم ان تمام مطالبات کی منظوری اور اس عوام کے حق حکمرانی اور حق آزادی کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts