فاروق طارق
کرامت علی کے رخصت ہونے سے پاکستان اور ساؤتھ ایشیا کے محنت کش طبقات ایک بہترین استاد، محقق، ٹریڈ یونین کے ممتاز رہنما، مارکسی نظریات پر عبور رکھنے والے دانشور اور آگے بڑھ کر جدوجہد کرنے والے سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ ایک بہت اچھے شفیق اور نفیس انسان تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ مارکسزم کو عوامی سطح تک لے جانے میں تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔
میری کرامت علی سے پہلی ملاقات ایمسٹرڈیم میں 1980 میں ہوئی، جب وہ مجھے خصوصی طور پر ملنے کے لیے لندن سے ایمسٹرڈیم تشریف لائے۔ لندن میں انہوں نے‘‘ملیٹنٹ رحجان’’کے رہنما راجر سلور مین سے ملاقات کی تھی ،جنہوں نے انہیں ایمسٹرڈیم میں کمیٹی فار ورکرز انٹرنیشنل کے کامریڈز کا ایڈریس دیا تھا اور لندن میں طارق علی نے انہیں ایمسٹرڈیم میں موجود فورتھ انٹرنیشنل کے ساتھیوں کا ایڈریس بھی دیا۔
جب کرامت علی آئے تو یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ پیپلز پارٹی ہالینڈ کے آرگنائزر ہیں ۔آپ اس کی بجائے پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن ہالینڈ کی کا آغاز کریں تو میری ان سے کافی بحث ہوئی۔ میں نے کہا ورکرز تو سارے پیپلز پارٹی میں ہیں تو ہم کیوں علیحدہ ایک تنظیم بنائیں گے۔ میرا ان سے اس حکمت عملی پر اتفاق نہ ہو سکا لیکن ہماری بہت اچھی گپ شپ ہوئی ۔ یہ ملاقات سنگل نہر کے کنارے ہوئی، جہاں میں رہ رہا تھا۔
یہ ملاقات ڈاکٹر لال خان کے ایمسٹرڈیم آنے سے چند روز قبل ہوئی تھی۔ کرامت علی کو 1983میں انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز دی ھیگ میں لیبر سٹڈیز میں ماسٹر کرنے کے لئے داخلہ مل گیا۔ تو ان سے پھر اور قریبی تعلقات مضبوط ہو گئے۔ ہم ان کے پاس اکثر ان کے شہر دی ھیگ میں چلے جاتے تھے یا وہ ایمسٹرڈیم آ جاتے تھے۔ 1983 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں یونین کاربائڈ کمپنی کے کارخانے میں گیس لیک کا ایک واقعہ ہوا،جس میں کافی مزدور مر گئے تھے ۔ وہ گیس کمپنی ہالینڈ کی تھی۔ اس وقت ہم نے اس کے دفتر کے سامنے کرامت علی کے کہنے پر مظاہرہ کیا تھا۔ کرامت علی یورپ میں رہ کربھی انڈیا اورپاکستان کی صورتحال پر ایک گہری نظر رکھتے تھے۔
جب انہوں نے وہاں سے اپنا ماسٹر مکمل کیا تو پھر پاکستان واپس آ گئے۔ جب وہ پاکستان واپس آئے تو پھر ہم نے کراچی کے فشر فوک کے تین لوگوں کو ان کے توسط سے روٹرڈیم آنے کی دعوت دی۔ ہمارے ایک مقامی ساتھی نے کہا تھا کہ آپ تین ساتھیوں کو پاکستان سے بلائیں تو کرامت علی نے یہ تین ساتھی پاکستان سے بھیجے ۔یہ ان کا پہلا فارن وزٹ تھا اور وہ روٹر ڈیم میں موجود ڈاک ورکرز کے ساتھ یکجہتی کا کام کرتے رہے۔
جب 1986 میں پاکستان واپس آ گیا تو کرامت علی سے ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ میں کراچی میں ان کے فلیٹ بھی ٹھہرتا تھا۔ انہوں نے ممتاز لیبر رہنما نبی احمد سے ملاقات کرائی ۔ہم متحدہ لیبر فیڈریشن کے آفس گئے اور پائیلر کے دفتر بھی گئے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر)کا قیام کرامت علی نے مئی 1982 میں کراچی میں کیا تھا۔ جب کرامت علی 1983 میں ایمسٹرڈیم پڑھنے کے لیے تشریف لائے تو ان کے پاس پائیلر کا ایک پرنٹڈ تعارف موجود تھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد لکھے ہوئے تھے۔
پاکستان واپسی پر کرامت علی کے ساتھ مجھے جو مل کر کام کرنے کا موقع ملا ان میں خاص طور ورلڈ سوشل فورم قابل ذکر ہے۔ 2006 میں کراچی کے ایک سٹیڈیم میں اس کا انعقاد کیا گیا۔ میں اس کی آرگنائزنگ کمیٹی کا ممبر تھا اور ہم نے مل کر پہلے‘پاکستان سوشل فورم’منعقد کیا اور پھر ‘ورلڈ سوشل فورم’ کا انعقاد کروایا، جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔ کرامت علی اس بڑے ایونٹ کے روح رواں تھے۔ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا اس بڑے ایونٹ کے انعقاد سے احساس ہو جاتا ہے۔ اس کا سارا ٹیمپو مشرف آمریت مخالف تھا، اور ہزاروں افراد کو آپس میں مل کر آمریت مخالف اقدامات پر بات کرنے کا موقع ملا۔
2007 میں‘جنوبی ایشیا میں غربت کے خاتمے کا الائنس’(SAAPE) کے اجلاسوں میں شرکت ہوئی۔ کرامت علی اس الائنس کی کور کمیٹی کے ممبر تھے اور پاکستان سے صرف وہی ایک ممبر تھے۔ دوسرا ممبر مجھے منتخب کیا گیا توہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اچھا موقع ملا۔
پھر پیپلز سارک میں پاکستان سے ہم دو ہی ممبر تھے۔ 2007 میں ہم نے کینیا کے شہر نیروبی میں ورلڈ سوشل فورم کے دوران اس کا پہلا اجلاس کیا۔ اس نمائندہ اجلاس میں ساؤتھ ایشیا کے دیگر ممتاز سماجی رہنماؤں کے علاوہ ارجن کرکی، کرامت علی اور راقم بھی شریک تھے۔ 2008 میں پھر ہم نے سری لنکا میں پہلے پیپلز سارک کا انعقاد کیا، جس میں 10 ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہوئے ۔یہ ایونٹ ایک بڑے سٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس ایونٹ کی تنظیم سازی کے لئے کولمبو میں ہر ماہ اجلاس ہوتا تھا ،جس میں ہم دونوں شریک ہوتے تھے۔ ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا ایک اور بہترین موقع ملا تھا۔
کرامت علی جب مجھے ایمسٹرڈیم پہلی دفعہ ملنے 1980 میں تشریف لائے تو کرامت نے مجھے دو مقامی مارکسی تنظیموں کے ایڈریس دیئے۔ ان میں سے ایک فورتھ انٹرنیشنل کے مقامی سیکشن کا تھا اور دوسرا کمیٹی فار ورکرز انٹرنیشنل کے مقامی افراد کا تھا۔ جب لال خان ایمسٹرڈیم 1980 میں تشریف لائے تو ہم نے مل کر پیپلز پارٹی ہالینڈ کو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ ایک روز لال خان نے کہا کہ یار کچھ سٹڈی سرکل کرتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، توانہوں نے کہا کہ کون کرے گا؟ میں نے کہا میرے پاس دو مارکسی تنظیموں کے ایڈریس ہیں، دونوں کو ملتے ہیں ۔ہم فورتھ انٹرنیشنل کے دفتر گئے تو وہ بند تھا،
ہم سی ڈبلیو آئی کے مقامی ساتھی فرانس ہوفمین اور جو ہوفمین کے پاس گئے، تین گھنٹے تک ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ ہماری نظریاتی یک جہتی نظر آ رہی تھی۔ یہ دوستی 11 سال تک قائم رہی۔ 1991 میں پاکستان واپسی پر لال خان اور ہمارے درمیان پارٹی بنانے کی حکمت عملی پر اختلاف ہوا، اور ہم ایک دوسرے سے یوں علیحدہ ہوئے کہ 2006 تک ہماری آپس میں ملاقات تو کیا بول چال بھی بند تھی۔
تب کرامت علی نے مجھے قائل کیا کہ میں اور لال خان صلح کر لیں ۔کرامت کی وجہ سے ہی میری اور لال خان کی کاسمو پولیٹن کلب لاھور میں پہلی میٹنگ ہوئی۔ اس ملاقات میں کرامت بھی موجود تھے ۔ وہاں ہم نے پھر طے کیا کہ اب ایک دوسرے کی کوئی مخالفت نہیں کریں گے۔ اپنا اپنا کام کریں گے اور ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ لال خان مجھے چیئرمین کے طور پر بلاتے تھے اور وہ ایک انتہائی قابل فخر ساتھی تھے۔ ان کے ساتھ پھر ہمارے تعلقات کرامت کی وجہ سے دوبارہ شروع ہوئے تویہ سلسلہ 2020میں انکی وفات تک جاری رہا۔ 2016 کے بعد جب مجھے ڈینگی بخار ہواتو لال خان میری عیادت کے لیے میرے گھر تشریف لائے اور انہوں نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا۔ میں ان کی کانگریسوں میں شریک ہوتا تھا ،کرامت بھی کانگریسوں میں آتے تھے۔
کرامت علی نظریاتی طور پر ایک مارکسی تھے اور ٹریڈ یونین کا کام کرتے تھے ۔انہوں نے اپنی خود انوشت‘راہ گزر تو دیکھو’میں تفصیل سے اپنی زندگی کہانی لکھی ہے اور ہر ساتھی کو اسے پڑھنا چاہیے۔
کرامت کے ساتھ ہمارا تیسرا بڑا کام پیپلز سارک کا تھا۔ وہ ساؤتھ ایشیا میں امن کے پجاری تھے۔ وہ ذہنی طور پر خود کو ساؤتھ ایشین ہی کہتے تھے۔ سری لنکا کے بعد ہم نے دلی کی نہرو یونیورسٹی میں دوسرا بڑا پیپلز سارک منعقد کیا۔پھر ہم نے کھٹمنڈو میں پیپلز سار ک کیا۔ دلی میں نہرو یونیورسٹی میں وزٹ کے دوران میں ان کے ساتھ امریتا چھاچھی کی رہائش گاہ پر بھی گیا۔ امریتا چھاچھی سے کرامت کی شادی ہوئی تھی۔
کرامت کو ہم پیار سے چاچا کہتے تھے اور وہ واقعی چاچا تھے۔ ایک شفقت کرنے والا چاچا۔ انہوں نے پائیلر کی ایک بڑی بلڈنگ ،جو کراچی میں ہے ،خود ڈونیشنز اکٹھے کر کے بنائی۔ ان کا کام کرنے کا ایک خاص طریقہ تھا ۔ ہم ان سے اتفاق بھی نہیں کرتے تھے لیکن ہماری کبھی ان سے ناراضگی نہیں ہوئی ۔ ہم کبھی غصے میں بھی ہو جاتے تھے تو وہ ہنس کے جواب دیتے تھے۔ مثلاً 2006 میں جو ورلڈ سوشل فورم کراچی تھا ،اس میں انہوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کو بلا لیا۔ میں نے کہا چاچا یہ کیا کررہے ہیں، ہم نے ایم کے ایم کے کسی بندے کونہیں بلانا۔ تو انہوں نے مجھے کہا دیکھتے جاؤ کہ ورلڈ سوشل فورم کا انعقاد ہو جائے، پھر نتائج بھی دیکھنا۔
جب سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی ہنزہ جا رہے تھے تو میں نے کرامت کو کہا کہ ان کی ہنزہ میں بابا جان کی فیملی سے ملاقات کرائیں، تو کرامت نے منٹوں کے اندر ہی یہ ملاقات کروا دی۔ پھر بابا جان کی فیملی کو ڈھونڈ کر مقامی انتظامیہ نے ڈاکٹر علوی سے ان کی ملاقات کروائی ۔اسی طرح مہر عبدالستار ،جو انجمن مزارعین پنجاب کی جنرل سیکرٹری تھے ،ان کی رہائی کے لئے بھی وہ جدوجہد کرتے تھے ۔وہ پاکستان فشر فوک فورم کے بانیوں میں سے تھے ۔انہوں نے بڑی تنظیمیں اورتحریکیں بنائیں۔ وہ امن کی بات کرتے تھے ۔وہ پولیٹیکل پلیٹ فارم سے زیادہ سوشل ڈیموکریٹک طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے ،لیکن خود اندر سے نظریاتی طور پہ وہ مارکسی تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کام کرنے سے ہمیں کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ کرامت علی آپ ہمارے رہنما تھے۔آپ چلے گئے آپ کے کام کو ہم جاری رکھیں گے۔