ٹونی عثمان
ناروے کے عالمی شہرت یافتہ عظیم ڈرامہ نگار ہینرک ابسن کے ڈرامے پڑھتے اور دیکھتے وقت بعض دفعہ یہ گمان ہوتا ہے کہ یا تو ابسن پاکستانی تھے یا اس وقت کا ناروے، جس کی وہ عکاسی کرتے ہیں، پاکستان جیسا تھا۔
ابسن 1828 میں اوسلو سے 130 کلومیٹر دور ایک قصبہ نما چھوٹے سے شہر شیئن کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ جب 8 سال کے ہوئے تو اُن کے والد کا کاروبار دیوالیہ ہو گیا اور یوں انہوں نے معاشی اورسماجی زوال کو بہت قریب سے دیکھا۔ ویسے تو انہیں بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا مگر ایک ڈرامہ نگار کے طور پر اُن کا ڈیبیو 18 سال کی عمر میں تب ہوا،جب اُن کا ڈرامہ”کیتھیلینا“اُن کے قلمی نام برینیولف بیارمے سے شائع ہوا۔ شروع میں اُن کے ڈرامے قومی رومانوی اور تاریخی ڈرامے تھے اور اُن ڈراموں کو کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی تھی۔ مگر آگے چل کر ابسن ڈرامے کی صنف کو رومانوی اور خیالی دُنیا سے نکال کر جدید حقیقت پسندانہ ڈرامے کا پیش خیمہ بنے اور اُن کے ڈرامے عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ ایک بار اُنہوں نے خود کہا تھا کہ وہ ڈرامے اسٹیج کے زاویئے سے نہیں بلکہ پبلک ہال کے زاوئیے سے لکھتے ہیں۔ گویا ابسن کے لئے ڈرامہ دیکھنے والوں کی اہمیت تھی،ڈرامہ پیش کرنے والے سرمایہ کاروں کی نہیں۔1868 میں ابسن نے ناروے چھوڑ دیا اور اگلے 27 سال بیرون ممالک گزارے،جہاں اُنہوں نے بطور ڈرامہ نگار بیشمار کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر مشہور ڈرامائی تخلیقات اٹلی اور جرمنی میں لکھیں۔ وہ خود کو نارویجن سے زیادہ یورپی سمجھتے تھے۔
اُنہوں نے پہلی بڑی بین الاقوامی کامیابی 1877 میں 4 ایکٹ کے سماجی ڈرامہ”معاشرے کے ستون“کے ساتھ حاصل کی۔ 1879 میں انہوں نے 3 ایکٹ کا ڈرامہ”ایک گڑیا گھر“لکھ کر شادی شُدہ جوڑوں میں مردوں اور عورتوں کے روایتی کرداروں پر تنقید کرتے ہوئے حقوق نسواں کے تناظر میں عورتوں کی خودمختاری کے متعلق ایک صحت مند بحث کا آغاز کیا اور ایک بڑی بین الاقوامی کامیابی حاصل کی۔ اس ڈرامہ کی ہیروئن نُورا کو فیمینزم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اُسی سال انہیں سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ اُن کا 4 ایکٹ پر مشتمل نفسیاتی ڈرامہ”ہیداگابلر“1890 میں شائع ہوا اور اگلے سال جرمنی کے شہر میونخ میں اس کا اسٹیج پریمیئر ہوا۔ 1902 میں یہ ڈرامہ نیویارک کے براڈوے تھیٹر میں بھی پیش کیاگیا۔ دُنیا بھرمیں اس ڈرامہ کو 20 سے زائد مرتبہ سنیما اور ٹی وی کی سکرین پر بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ہیدا ایک مرحوم جنرل گابلر کی بیٹی ہے۔ اسے معاشرے کے خلاف لڑنے والی ایک مثالی ہیروئین کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہ انتہائی پیچیدہ کردار عالمی تھیٹر کے عظیم ڈرامائی کرداروں میں سے ایک ہے۔ معلوم نہیں کہ عورت کو کمتر سمجھنے والے پاکستان کے ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے یہ ڈرامے پڑھے یا دیکھے ہونگے یا نہیں۔ بہرحال ابسن کو جدید ڈرامے کا باپ کہا جاتا ہے اور ان کے ڈرامے یونیورسل موضوعات، جاندار کرداروں اور ڈرامے کی تکنیک کی وجہ سے آج بھی دنیا بھر کے تھیٹروں میں کامیابی سے پیش کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنا ڈرامہ”عوام دُشمن“1882 میں لکھا تھا اور اسے پہلی دفعہ اوسلو کے کھریستیانئا تھیٹر پر 1883میں اسٹیج کیا گیا۔ انہوں نے 5 ایکٹ کا یہ ڈرامہ اُس وقت کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لئے جنگ، کرپشن، سچ اور جھوٹ کے درمیان تنازعہ اور آزادی صحافت کے متعلق لکھا تھا۔ اس میں اُنہوں نے اکثریت کے بھیڑ چال نما طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے عوام کو اچھے فیصلے نہ کرنے پر تنقید کی اور ایک تنہاء شخص کی ناقابل تصور طاقت کی تصویر کشی بھی کی۔ اگر پاکستان کے پس منظر کی روشنی میں دیکھاجائے تو سب سے اہم تصویر کشی اُن اسٹیک ہولڈرز کی ہے جو اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے سادہ لوح عوام کی خیر سگالی پر انحصار کرتے ہیں اور عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی بیوقوف بنتے رہتے ہیں۔ ڈرامے میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اشرافیہ کے تحفظ کے لئے سچ کو سنسر کیاجاتا ہے۔ پاکستان کے ہی پس منظر میں دیکھا جائے تو اس ڈرامہ کی ایک اہم لائن یہ ہے:”ایسا کہنا کہ تھوڑی بہت تبدیلی سے بہت کچھ ٹھیک ہو جائیگا، ایک جھوٹ بلکہ ایک فراڈ ہوگا، پورے معاشرے سے دھوکاہوگا۔“
اس ڈرامے کی کہانی ناروے کے جنوبی ساحل پر واقع ایک قصبہ نما چھوٹے سے شہر کے ایک Spa نما حمام کے گرد گھومتی ہے۔ حمام کا پانی معدنیات سے بھرپور ہونے کے باعث صحت بخش سمجھاجاتا ہے۔ لوگ کئی طرح کے امراض سے چھٹکارا پانے کے لئے اس حمام کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے یہ معدنی چشمہ یعنی حمام شہر کی مجموعی آمدنی، خوشحالی اور مقبولیت کا اہم ذریعہ ہے۔ ڈرامے کا مرکزی کردار تھوماس ستوکمان ایک طویل عرصے میں سائنسی تحقیق کے ذریعے دریافت کرتا ہے کہ حمام کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے حمام ناقابل استعمال ہے۔ شروع میں تو اس دریافت کی تعریف کی جاتی ہے مگر جیسے ہی اس دریافت کے عملی اور معاشی نتائج سامنے آتے ہیں تو فیصلہ سازی کرنے والے کئی حلقوں کی طرف سے تھوماس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ پانی کے متعلق اپنی دریافت میں ردوبدل کرے تاکہ حمام کا کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہے۔ شہر کے سرکردہ شہری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز، تھوماس کے بڑے بھائی پھیتر ستوکمان کی قیادت میں، اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لئے تھوماس کو عوام دشمن قرار دیتے ہیں۔ کوئی اخبار بھی حمام کے آلودہ پانی کے متعلق لکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ تھوماس اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے ایک اجلاس نما جلسہ بلاتا ہے۔ جلسہ میں موجود لوگ بھی اسٹیک ہولڈرز کی باتوں میں آجاتے ہیں اور تھوماس کو عوام کا دشمن اور شہر کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔اس لئے تھوماس اجلاس چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز اور اشرفیہ نے تھوماس کو کمزور کرنے کے لئے دھوکے بازیاں جاری رکھیں اور اس کی بیٹی پھیترا کو ٹیچر کے کام سے بھی فارغ کر دیا جاتاہے۔ تھوماس اس رویے سے دل برداشتہ ہو کر شہر کو چھوڑ کر اپنے خاندان کے ساتھ کہیں دور چلے جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مگر پھر وہ یہ سوچ کر اپنا فیصلہ بدل لیتا ہے کہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے،تاکہ وہ کسی کے کہنے پر سچائی کا دامن نہ چھوڑیں اور خود مختار فیصلے کریں۔
اس ڈرامہ کو لگ بھگ پانچ سو مرتبہ دُنیا بھر میں اسٹیج کے لئے پروڈیوس کیا جا چکا ہے اور اس پر مبنی کئی فلمیں بھی بنائی چکی ہیں۔ 1989 میں بھارتی ڈائریکٹر ستیہ جیت رے نے بنگالی میں ”گونوشُترو“کے نام سے فلم بنائی تھی۔ اس کے علاوہ 1937 میں جرمنی، 1977 میں امریکہ اور 2005 میں ناروے نے ڈرامے کو سنیما کی سکرین پر منتقل کیا۔
معلوم نہیں کہ ابسن نے 142 سال پہلے فیصلہ سازی کرنے والوں کے بارے یہ ڈرامہ لکھتے ہوئے سوچا تھا کہ کبھی اردو پڑھنے والے بھی اُن کے ڈرامے سے لُطف اندوز ہونگے۔ اس ڈرامے کا اردو ترجمہ ناروے کے پاکستانی نژاد صحافی، دستاویزی فلم میکر اور مصنف عطا انصاری نے بڑی مہارت سے کیا ہے۔ ویسے تو ابسن کے متعدد ڈراموں کا اردو ترجمہ کیا جاچکا ہے،مگر بیشتر تراجم انگریزی سے کئے گئے ہیں۔ یہ ترجمہ ڈرامے کی اصل زبان یعنی نارویجن سے براہ راست اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ مترجم کو اردو اور نارویجن دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہے اور وہ تھیٹر اور فلم کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کرداروں کے نارویجن ناموں کو پاکستانی ناموں میں تبدیل کر کے دال میں ایسا تڑکا لگایا ہے کہ ڈرامہ پڑھنے کا لطف دوبالا ہو گیا ہے۔ یہ ترجمہ 2007 میں دہلی کے”کتابی دنیا“سے چھپوا کر پبلش کیا گیاتھا۔ اگر معمولی ردوبدل کر کے اس ڈرامہ کو اردو میں پاکستان کے مختلف چھوٹے اور بڑے شہروں میں اسٹیج کیا جائے تو سوچ کے ایک ایسے عمل کو شروع کیا جاسکتا ہے، جسے کبھی کوئی مین اسٹریم سیاسی جماعت نہیں کر سکی۔ اس کے علاوہ مترجم کو چاہئے کہ اس کا نیا ایڈیشن شائع کروائیں،تاکہ ایک بہترین ڈرامے کے خوش اسلوبی اور مہارت سے کیے گئے شاندار ترجمہ سے زیادہ سے ذیادہ لوگ لُطف اندوز ہوسکیں۔