لاہور(جدوجہد رپورٹ) بھارتی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاج جاری ہے۔ ڈاکٹروں کے سب سے بڑے ادارے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔
اتوار کے روز ملک بھر میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کی، جس کی وجہ سے پورے ملک میں ایمرجنسی کے علاوہ تمام طبی خدمات کا سلسلہ معطل رہا۔ بدھ کی شب ہزاروں خواتین نے پورے ملک میں کینڈل لائٹ احتجاج کیا۔ خواتین کے اس احتجاج کو نائٹ مارچ قرار دیا گیا تھا اور یہ مارچ مختلف شہروں میں منعقد ہوا۔
ڈاکٹروں کی جانب سے 9اگست سے ہی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ احتجاج کا سب سے بڑا مرکز آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال ہے۔14اور15اگست کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے مذکورہ ہسپتال میں داخل ہو کر احتجاج کی جگہ کو تہس نہس کر دیا تھا۔
حملہ آوروں نے گاڑیوں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا، جبکہ ہسپتال میں بھی کافی توڑ پھوڑ کی گئی۔ ڈاکٹروں کا الزام ہے کہ یہ کارروائی احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے کی گئی تھی۔
ادھر بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے جونیئر خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ تین رکنی بینچ اس معاملے پر آج منگل کو سماعت کرے گا۔
کلکتہ میں دفعہ 144نافذ کر کے پانچ افراد کے جمع ہونے اور اجلاس کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
دوسری جانب ہائی کورٹ نے کلکتہ پولیس کو 18جولائی تک تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، تاہم اس معاملے کو سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا ہے، جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ 9اگست کی رات ہسپتال میں ایک 31سالہ جونیئر خاتون ڈاکٹر کا ریپ کیا گیااور اسکے بعد اسے تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کی نیم برہنہ لاش ہسپتال کے سیمینار ہال سے ملی تھی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کے ساتھ پہلے جنسی زیادتی کی گئی اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔ رپورٹ میں جسم کے مختلف حصوں پر زخم کے نشانات بھی پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق چہرے پر اتنی شدید ضرب لگائی گئی کہ چشمے کا شیشہ ٹوٹ کر آنکھوں میں گھس گیا۔ جس وقت لاش برآمد کی گئی، اس وقت کان، آنکھ اور پرائیویٹ عضاء سے خون بہہ رہا تھا۔
پولیس نے واردات کے 6گھنٹے بعد ہی ملزم سنجے رائے کو گرفتار کر لیا، جسے عدالت نے 14روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ ملزم محکمہ پولیس میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر رضاکار تھا اور واردات کی رات ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھا۔
آل انڈیا خواتین کمیشن کے مطابق جس مقام پر ڈاکٹر کا ریپ اور قتل ہوا، وہاں فوری طور پر تزئین و آرائش کر دی گئی۔ سکیورٹی اور تفتیش میں متعدد خامیاں موجود ہیں۔
ڈاکٹر کے والدین اور احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا الزام ہے کہ خاتون ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی زیادگی کی گئی ہے۔ اس لئے تمام ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ تاہم تفتیش کا دائرہ کار اور میڈیا رپورٹس محض گرفتار ملزم تک ہی محدود رکھ کر ملزم کے ماضی کی بنیاد پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملزم نے اپنے مخصوص نفسیاتی مسائل اور جنسی ہوس کی وجہ سے یہ اقدام کیا ہے۔
دوسری جانب احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں، ہسپتال پر حملے اور جائے وقوعہ کو فوری طور پر صاف کرنے جیسے اقدامات تفتیش پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
پولیس تفتیش کی سمیت درست کرنے اور حقائق کو سامنے لانے کی بجائے مظاہرین کیخلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ کلکتہ پولیس نے خاتون ڈاکٹر کے قتل اور ریپ کو اجتماعی زیادتی قرار دینے والے افراد کو سمن جاری کئے ہیں۔
خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف بھارت سے باہر بھی خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنان احتجاج کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔