حارث قدیر
جیئند بلوچ کہتے ہیں کہ:”یہ ایسی ریاست ہے جو فورتھ شیڈول میں ڈالنے اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام عائد کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ان حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کوانتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی مسلسل واضح کرتی رہی ہے کہ ان کا ان مسلح حملوں اوران گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ابھی ان کو مزید واضح کرنا ہوگا۔بلوچ قوم کی پچھلی پوری صدی کی جدوجہد طبقاتی نابرابری کے ساتھ ساتھ قومی جبر کے خلاف رہی ہے۔ یہ جدوجہد سوویت یونین کے انہدام کے بعد بالکل ختم ہو گئی تھی اور کورس، حکمت عملی اور بیانیے میں اکثرتبدیلی آگئی تھی۔ آج دوبارہ مسائل کو اگر دیکھا جائے تو پچھلی صدی کی جدوجہد سے کٹنے کے بعد ہم نجات کے راستے سے بھی کافی بھٹک چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ تحریک کے اندر جہاں سے بھی جو کورس لائے جا رہے ہیں اور بیانیے بنائے جا رہے ہیں، ان کے اندر کوئی نجات ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔“
وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن ہیں۔ اس جدوجہد کے دوران انہیں دو بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتوں کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ دنوں بھی انہیں ایک بار پھر ریاست نے فوتھ شیڈول میں ڈال کر خطرناک ترین افراد کی فہرست کا حصہ بنایا ہے۔ گزشتہ روز’جدوجہد‘ نے ان کا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
بلوچستان کی حالیہ سیاسی تحریک کے بعد ایک بار پھر بلوچ نوجوانوں کے خلاف ریاستی جبر میں شدت نظر آرہی ہے۔ آپ کو بھی ’خطرناک‘ افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ریاست تحریک کو کچلنے کے لیے کس طرح کے اقدامات کر رہی ہے؟
جیئند بلوچ: بلوچستان میں سیاسی تحریک ہمیشہ سے ہی عروج پر رہی ہے۔ یہاں تحریک کسی مایوسی کی وجہ سے کمزور نہیں ہوئی، بلکہ اسے طاقت کے زور پر دبا کر کچھ عرصہ کے لیے خاموش کیا جاتارہا ہے۔
پچھلے عرصے میں بی این ایم اور بی ایس او (آزاد) کے سیاسی کارکنوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایاگیا، جیلوں میں ڈالا گیا اور مسخ شدہ لاشیں گرائی گئیں۔ اس طرح ایک مصنوعی خوف پروان چڑھایا گیا۔ آج دوبارہ سے تحریک نے زور پکڑا تو ریاست نے فوج کے 107یونٹ یہاں تعینات کر دیے۔ 5ہزار ایف سی کے جوانوں کو تعینات کر کے راجی مچی کو روکا گیا۔
آج بھی سیاسی عمل اور حرکت سے ریاست خوفزدہ ہے۔ کبھی فورتھ شیڈول میں سیاسی کارکنوں کو ڈال کر ہراساں کیا جاتا ہے اور کبھی جعلی مقدمات میں انہیں جیلوں میں قید کیا جاتا ہے۔ اب تو سیاسی کارکنوں کو کالعدم تنظیموں کے ارکان قرار دے کر ڈرانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
مجھے سمیت بی ایس او کے اراکین کے گھروں پر ریاستی اہلکاروں کو بھیج کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ خاندان کے افراد کو فون کر کے ڈرایا جاتا ہے، جعلی مقدمات میں نامزد کیا جاتا ہے اور ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے سے سیاسی قوتوں کو کچلا جا سکے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام قومی محکومی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کے نئے مرحلے کے اثرات کتنے ہیں اور اس کا مستقبل کیسے دیکھتے ہیں؟
جیئند بلوچ: پچھلی دو دہائیوں سے اس خطے میں ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ قومی محرومی موجود ہے، کینسر اور دیگر موزی امراض سے لوگ مر رہے ہیں، بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں ہے، مقامی باشندوں کی مرضی اور رضامندی کے بغیر ان کے وسائل ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔
اس سب کے خلاف یہاں سطح کے نیچے شدید غم و غصہ ہمیشہ سے موجود تھا، لیکن پچھلے ادوار میں قیادت کو مار کر انہیں خاموش کیا گیا، یا پھر ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح اس خطے میں قیادت کے بحران نے جنم لیا اور عوامی غم وغصہ مزید بڑھتا چلا گیا، جسے ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی(بی وائے سی)نے چھوٹے مظاہروں کے ذریعے اس خلاء کو پر کیا اور ایک بڑی توانا تحریک بن گئی۔ اب یہ یہاں کے عوام کی ترجمان پارٹی بننے جا رہی ہے۔
مستقبل کے حوالے سے دنیا کی دیگر تحریکوں کے تجربات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ تحریکیں ہمیشہ چھوٹے مطالبات اور مسائل پر شروع ہوتی ہیں اور بتدریج پورے عوام کی نمائندہ بن جاتی ہیں۔ بی وائے سی بھی اگر ایک درست طریقہ کار دے کر پورے سماج کے مسائل کو اجاگر کرے اور سماج کی اہم پرتوں کو ان کی بساط کے مطابق اپنی صفوں میں لا کھڑا کرے تو کامیابی کی طرف جا سکتی ہے۔
تاہم اگر محض یہ تحریک جذباتی نعروں اور تقریروں کی حد تک محدود رہی، کسی مسئلے پر احتجاج کر کے خاموش ہوجاتی رہی تو شاید عوام اس تحریک اور قیادت سے الگ ہو کر نئی قیادتیں تراشنے کی جانب بڑھ جائے گی۔
پی ٹی ایم(پشتون تحفظ موومنٹ) کی تحریک ہمارے سامنے ہے کہ وہ سماج کے مسائل کو پورے طریقے سے اجاگر نہیں کر سکی اور اپنی سکت کھو رہی ہے، عوام پیچھے سے ہٹتی گئی اور آج قیادت کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس خطے کی سب سے متحرک اور ترقی پسند طلبہ تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ ریاست کی جانب سے بی ایس او کو سب سے زیادہ نشانہ بھی بنایا گیا۔ اب بی ایس او کی صورتحال کیا ہے، کتنے گروپس ہیں اورتقسیم کی وجوہات کیا ہیں؟
جیئند بلوچ: بی ایس او(بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) ایوب آمریت کے دور میں بننے والی ترقی پسند تنظیموں میں سے ایک تھی۔ بی ایس او نے اپنے افکار و عمل سے اور تمام مظلوموں کی جدوجہد میں برسرپیکار رہ کر پوری دنیا میں اپنی حیثیت منوائی۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ سے ہی بی ایس او پر نادیدہ قوتوں کی نظر بھی رہی اور مختلف ظلم اس پر ڈھائے گئے۔ قیادت کو ہمیشہ سے ہی پوری طرح کچل دیا جاتا رہا ہے، لیکن بی ایس او ہر بار دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی رہی ہے۔
تاہم سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا بھر میں اور بالخصوص مظلوموں کی جدوجہد کرنے والی قوتوں میں مایوسی پھیلی۔ بی ایس او نظریات اور اساس بھی اس مایوسی کی دلدل کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بی ایس او مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ دھڑے سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے اپنے لیے نجات ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگے۔ پارلیمان سے لے کر پہاڑوں تک سوشل ڈیموکریسی کو حقیقی نظریاتی سمجھا جانے لگا۔ امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں سے مدد کی اپیلیں کی جانے لگیں۔ اقوام متحدہ سے رحم کی اپیلیں کی جالگیں، جو اس نظام سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ایک ناممکن عمل تھا۔
آج بی ایس او کے 4دھڑے ہیں۔ ایک دھڑے بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، باقی دو نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی ذیلی تنظیموں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ایک دھڑے کا حصہ ہم ہیں، جو مارکسسٹ لینن اسٹ طریقہ کار پر چلتے ہوئے خطے میں قومی و طبقاتی نابرابری کی جدوجہد پر کاربند ہے۔
مسلح تنظیموں کے حملوں کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں، کیا مسلح سرگرمیوں نے پرامن جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے،یا ریاستی جبر اور انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟
جیئند بلوچ: مسلح تنظیموں کے حملوں کے بعد بلوچ سیاست کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایسی ریاست ہے جو فورتھ شیڈول میں ڈالنے اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام عائد کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ان حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کوانتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی مسلسل واضح کرتی رہی ہے کہ ان کا ان مسلح حملوں اوران گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ابھی ان کو مزید واضح کرنا ہوگا۔ یہ ایک مسئلہ بن چکا ہے، جسے وقت طور پر نمٹانا کافی مشکل ہے۔
بلوچستان میں مزاحمت کی ایک لمبی تاریخ ہے، لیکن اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ بلوچ عوام بلوچستان کا کیسا مستقبل چاہتے ہیں تو کیا کہیں گے؟
جیئند بلوچ: بلوچستان سیاسی مزاحمت کو تو200سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ پہلے بلوچ عوام نے برطانوی سامراج کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ برطانوی سامراج نے اس خطے کی اس طرح سے بندر بانٹ کی کہ یہ تنازع مسلسل چلتا رہے۔ پاکستان نے بھی بلوچستان کا جبری الحاق کروایا، جس کے خلاف اس خطے کے سرداروں اور عوام بلوچ عوام نے بغاوت کی اور اس کے خلاف برسر پیکار رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے اندر ریفرنڈم کروایا جائے کہ آیا بلوچ عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ریفرنڈم بین الاقوامی طو رپر ہر قوم کا تسلیم شدہ حق ہے۔ تاہم ساتھ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں امن اور مسائل سے نجات پورے خطے کی نجات سے منسلک ہے۔ جب تک پورے خطے، افغانستان، ایران اور پاکستان،میں امن قائم نہیں ہوتا اورسامراجی نظام کا غلبہ ختم نہیں ہوتا، تب تک بلوچستان میں بھی حقیقی نجات ممکن نہیں ہے۔لوگ انہی حالات میں جیتے رہیں گے، جو اس وقت ہیں۔ صرف بلوچستان کے اندر اگر آپ امن لانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اکثریتی بلوچ عوام آزادی چاہتے ہیں اور اگر ریفرنڈم کروایا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا۔
انتخابات کے ذریعے سامنے آنے والی قیادتوں کی بلوچستان میں پذیرائی کس حد تک ہے اور یہ کن لوگوں پر مشتمل قیادتیں ہیں؟
جیئند بلوچ: قوم پرست حلقے بھی بلوچستان میں انتخابات میں حصہ لیتے اور کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ عوام کے سامنے اپنی ساکھ سے محروم ہو چکے ہیں۔ تاخیر زدگی کا شکار اس پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت کے ذریعہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس نظام میں وہ سکت ہی نہیں ہے کہ اس کے اندر رہتے ہوئے کوئی بہتری کی جا سکے۔ وہ پروگرامز کو توڑ مروڑ کر پارلیمنٹ تک تو پہنچ جاتے ہیں، لیکن وہاں حالات کو دیکھتے ہوئے بیٹھنے کی بجائے سیدھا لیٹ ہی جاتے ہیں اور عوام انہیں مسترد کر دیتے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں سے بلوچستان کے اندر جن قوتوں نے بھی پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی وہ باقاعدہ طو رپر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی حاصل کی۔موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر یہ ناممکن ہو چکا ہے۔
اس بار تو انہوں نے ایسے لوگوں کو بٹھایا ہے، جو ایک کونسلر کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے اور ایم این اے یا ایم پی اے بن کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عوام کے اندر ان کی رسائی، ساکھ یا پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کھلے اجلاسوں میں جانے سے اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ لوگ انہیں منہ پر ہی مسترد کرتے ہیں۔قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں نے بھی انتخابات کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کی۔ یہ تجربہ آپ کی نظر میں کیسا لگا اور اس کے نتیجے میں مزاحمتی تحریک پر کیا اثرات پڑے؟
جیئند بلوچ: میں نے پہلے بھی تذکرہ کر دیا ہے کہ قوم پرست حلقے بھی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ بی ایس او نے بھی 90کی دہائی میں پارلیمان میں پہنچنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے باقاعدہ طور پر رجسٹریشن کروا کر ٹکٹ تقسیم کیے گئے۔ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر کافی تعداد میں ممبران نے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی۔ تاہم وہاں جا کر عیاشیوں اور پاور کوریڈور کے رعنائیوں کی ترقی پسند قوتیں بھی اسیر ہو گئیں اور وہ کچھ نہیں کر سکے۔ یوں وہ سماج کے اندر بدنام ہوئے اور ان کی کوئی بھی وقعت باقی نہیں رہی۔
میرے خیال میں یہاں کوئی جمہوری اقدار یا ادارے موجود نہیں ہیں، جو کچھ موجود ہے وہ انتہائی تاخیر زدہ اور درآمد کیا گیا ہے۔ ان اداروں کی کوئی طاقت اور حیثیت اب باقی نہیں رہی ہے۔ ایسی صورت میں ترقی پسند حلقوں کا ان اداروں میں رسائی کا جو تجربہ تھا وہ انتہائی ناکام رہا ہے۔ آج جتنا غلبہ اسٹیبلشمنٹ کا ان اداروں پر ہے، اس کے بعد اگر کوئی ترقی پسند یا قوم پرست پہنچ گئی جائے تو کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے۔
بلوچستان کی معاشی صورتحال، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت جیسے مسائل کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
جیئند بلوچ: جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہوتا ہے۔ یہ معاشی سوال ہی ہوتا ہے، جو اپنے بنیادی مسائل کے گرد اٹھ کر شناخت کے سوال تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں پر بھی مسلح یا سیاسی قوم پرست تحریکوں کو اگر کوئی عوامی حمایت یا طاقت ملی ہے تو وہ عوام کے مسائل اجاگر کرنے کی وجہ سے ہی ملی ہے۔ عوام آج بھی ریاست سے بیزاری کے عالم میں ہی ان تحریکوں کا حصہ بن رہے ہیں۔
یہاں انفراسٹرکچر کو پہلے روز سے ہی نوآبادیاتی طریقے سے تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح سے ہی یہاں کے لوگوں کو بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔ انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم، شیلٹراورپینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی سمیت بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل روز اول سے جاری ہیں اور ان میں مزید شدت آتی جا رہی ہے۔ انہی مسائل کی وجہ سے یہاں شورش بھی ہمیشہ سے جاری ہے اور اب پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکی ہے۔
بی ایس او کا بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے کیا پروگرام ہے اور پاکستان کے اندر رہنے والی دیگر محکوم اقوام،محنت کشوں اور نوجوانوں کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جیئند بلوچ: بی ایس او نے آج سے 10سال پہلے اپنے نظریات کا احیاء کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ خیال یہی تھا کہ اگر بلوچستان کے الگ ریاست کی صورت قائم ہونے یا پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچ عوام کو کوئی نجات مل سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ نظام کے تحت ہی مل سکتی ہے۔ جہاں طبقاتی و صنفی نابرابری کا خاتمہ ہواور قومی جبر کا خاتمہ ہو تب ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ بی ایس او کی تاریخی طور پر بھی ہمیشہ سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر ہی جدوجہد رہی ہے۔ باقی پاکستان میں بھی بی ایس او کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ دیگر ترقی پسند قوتوں کے ساتھ مل کر لڑا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کسی بھی طرح سے پاکستان سے کٹا ہوا نہیں ہے۔ بیشک یہاں تحریک موجود ہے جو پاکستان کا ماننے سے انکاری ہے، لیکن معاشی اور سیاسی طور پر پاکستان کے براہ راست اثرات بلوچستان پر پڑتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر جو جدوجہد ہو رہی ہے، اس کو پاکستان کی دیگر قوموں اور مظلوم طبقوں کے ساتھ ملے بغیر آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔
بی ایس او کا طریقہ کار یہی ہے کہ پاکستان سمیت اس خطے کے دیگر ملکوں میں جہاں بھی کوئی اتحاد بن سکتا ہے، یا کوئی ایک نظم وضبط کے ساتھ پارٹی تشکیل دی جا سکتی ہے تو بی ایس او اس کے لیے ہمیشہ سے تیار ہے۔ بی ایس او سمجھتی ہے کہ حقیقی نجات تمام قوموں اور مظلوم طبقات کے اتحاد کی بنیاد پر مل کر لڑنے کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
بلوچ قوم کی پچھلی پوری صدی کی جدوجہد طبقاتی نابرابری کے ساتھ ساتھ قومی جبر کے خلاف رہی ہے۔ یہ جدوجہد سوویت یونین کے انہدام کے بعد بالکل ختم ہو گئی تھی اور کورس، حکمت عملی اور بیانیے میں اکثرتبدیلی آگئی تھی۔ میرے خیال میں آج دوبارہ مسائل کو اگر دیکھا جائے تو پچھلی صدی کی جدوجہد سے کٹنے کے بعد ہم نجات کے راستے سے بھی کافی بھٹک چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ تحریک کے اندر جہاں سے بھی جو کورس لائے جا رہے ہیں اور بیانیے بنائے جا رہے ہیں، ان کے اندر کوئی نجات ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔
خاص طور پر اس پورے خطے میں جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ گروہوں کے پاس بے تحاشہ اسلحہ ہے اور وہ لڑ رہے ہیں۔ یہاں داعش موجود ہے، جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی جیسے گروہ موجود ہیں۔ جند اللہ اور جیش العدل جیسے گروہ ایران کے اندر موجود ہیں۔ باقاعدہ طور پر عالمی پراکسیاں موجود ہیں۔ ایسے حالات میں بلوچستان کے اندر امن ممکن نہیں ہے۔ نجات کا راستہ یہی ہے کہ تمام قوتوں کو مجتمع کر کے نوآبادیاتی تسلط کا خاتمہ کیا جائے ا ور ایک بہتر نظام تشکیل دیا جائے۔