ٹونی عثمان
بلہے شاہ کے شہر قصور کے قصبے کوٹ مُراد خان میں 21 ستمبر 1926 کو ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام اللہ وسائی رکھاگیا۔ اللہ وسائی نے محض 5 سال کی عمر میں گانا شروع کیا اور 9 سال کی عمر تک وہ لاہور میں اسٹیج کی اہم پرفارمر بن چکی تھیں۔ یوں وہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک، مسلسل سات عشرے فن کی خدمت کرتی رہیں اور فن کے جہاں کی نُور بنی رہیں۔ پاکستانی ثقافت کی اہم ترین شناخت ملکہ ترنم نُور جہاں کی 23 دسمبر کو چوبیسویں برسی ہے مگر اُن کے کروڑوں مداح آج بھی اُن کے فن سے لُطف اندوز ہو کردل دھڑکنے کا سبب یاد کرتے ہیں۔ پاکستان کی ثقافتی شناخت کے ایک اور اہم ستون اُردو کے عظیم لکھاری سعادت حسن منٹو نے نُور جہاں کے متعلق ایک شخصی خاکے میں لکھا تھا کہ نُور جہاں کی آواز آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔
سنہ 1937 میں ہدایتکار کے ڈی مہرہ کی کلکتہ میں بنائی گئی پنجابی فلم”شیلا عُرف پنڈ دی کُڑی“ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اُنہیں بے بی نُور جہاں کے نام سے متعارف کرایاگیا اور اُنہوں نے اداکاری بھی کی اور گانے بھی گائے۔ پھر ہدایتکار موتی بی گڈوانی کی پنجابی فلم”یملاجٹ“اور ہدایتکار نرنجن پال کی پنجابی فلم”چوہدری“میں ہیروئن بنیں اور اب اُن کے نام سے بے بی ہٹا دیا گیا۔ 16 سال کی عمر میں وہ ہدایتکار شوکت حسین رضوی کی اُردو فلم”خاندان“کی ہیروئن بنیں۔ اُن کے مقابل ہیرو پران تھے جو آگے چل کر بمبئی فلموں کے مقبول ولن بنے۔ یہ فلم ناول نگار ایلن ووڈ کے سنہ 1861 کے مشہور ناولEast Lynne پر مبنی تھی۔ اس فلم کے 9 گیتوں میں سے 5 نُور جہاں کی آواز میں تھے۔ یہ فلم بہت کامیاب ثابت ہوئی۔
1940 کی دہائی کے آخر تک نُورجہاں برصغیر کی فلمی صنعت میں صف اول کی اداکارہ اور گلوکارہ کے طور پر اپنا مقام بنا چکی تھیں۔ بٹوارے سے پہلے متحدہ ہندوستان میں اُن کی آخری بڑی فلم”جُگنو“تھی۔ اس میں اُن کے مقابل ہیرو دلیپ کمار تھے۔ بٹوارے کے بعد نُورجہاں اپنے خاوند شوکت حسین رضوی اور بچوں سمیت پاکستان منتقل ہوگئیں۔ پاکستان میں اُنہوں نے ایک درجن سے زائد فلموں میں کام کیا اور پھر اُنہوں نے صرف گانے پر توجہ دینا شروع کر دی۔ بطور پلے بیک سنگر 13 ہزار سے زائد پاکستانی فلمی گیت گائے، جن میں بے شمار سپر ہٹ ثابت ہوئے۔
نُور جہاں کی زندگی میں کئی مرد آئے۔ایک بار اُنہوں نے خود کہا تھا کہ وہ گیتوں اور معاشقوں کا حساب نہیں رکھتیں۔ اُن کی زندگی میں آنے اور جانے والے مردوں میں ہدایتکار شوکت رضوی، کرکٹر نذرمحمد، اداکار اعجاز، اداکار یوسف خان اور جنرل یحییٰ خان شامل ہیں۔ نُور جہاں نے اپنے معاشقے کسی منافق کی طرح چھپائے نہیں۔
جب اُن کے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو طلاق کے لئے عدالت سے رجوع کیا گیا۔ شوکت حسین رضوی کے وکیل مولوی مشتاق نے نُورجہاں سے کئی احمقانہ سوال کئے مگر نُور جہاں دبنگ انداز میں حاضر جوابی سے ہر فضول سوال سے نمٹیں۔ یہ وہی مولوی مُشتاق تھے جو آگے چل کر جج بنے۔ بھٹوحکومت نے انہیں انکی خواہش کے مطابق ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر نہیں کیا تھا اس لئے وہ بھٹو سے شدید نفرت کرتے تھے۔ جنرل ضیاء نے مکار لوُمڑی کی طرح اس ذاتی چپقلش کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مولوی مشتاق کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ ہائیکورٹ کے جس 5 رُکنی بینچ نے بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا، اس بینچ کی قیادت اسی مولوی مشتاق نے کی تھی۔
بہرحال بات ہورہی تھی نورجہاں کی طلاق کے مقدمے کی۔ عدالت نے نُور جہاں سے پو چھا کہ وہ کیوں چاہتی ہیں کہ اُن کے شوہر اُن کو طلاق دیں۔ جواب میں اُنہوں نے کہا کہ وہ شوکت رضوی سے طلاق لینا نہیں بلکہ خود اُنہیں طلاق دینا چاہتی ہیں کیونکہ وہ اسی قابل ہیں۔ نُورجہاں کے جواب نے عدالت کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور شوکت رضوی کی وکالت کرنے والے مولوی مشتاق سر ہی کھجاتے رہے۔ عدالت نے فیصلہ نُور جہاں کے حق میں دے دیا اور یوں طلاق ہو گئی۔
نُور جہاں کے دبنگ انداز میں ناروے کے عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار ہینرک ابسن کے سنہ 1879 کے تین ایکٹ کے ڈرامے”ایک گُڑیا گھر“کی ہیروئن نُورا کا عکس دکھتا ہے۔ اس ڈرامہ کے آخر میں جب نُورا اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کرتی ہے تو کہتی ہے”تم وہ آدمی نہیں جس کا تصور میں نے تراشا تھا۔ تُم اُس مرد کی طرح سوچتے اور بولتے نہیں ہو جس سے میں خود کو وابستہ کر سکوں۔ تُم اس قابل ہی نہیں کہ تُمہارے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔“
پاکستان کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹر کا اعزاز بھی نُور جہاں ہی کو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نُور جہاں اپنے فن کی وجہ سے اُس مقام پر پہنچیں جہاں ہر فنکار نہیں پہنچ سکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کا زندگی جینے کا طریقہ اور اُن کے دبنگ انداز نے بھی اُنہیں ناقابلِ فراموش شخصیت بنا دیا۔
منٹو اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ”نور جہاں کے کئی عاشق ہوں گے۔ میں ایسے کئی باورچیوں کو جانتا ہوں جو چولہے کے پاس نور جہاں کی تصویریں لگا کر اپنے صاحبوں اور میم صاحبوں کاکھانا پکاتے ہیں۔“
کئی سال پہلے میری ملاقات لاہور میں نُورجہاں کے ایک بہت ہی دلچسپ ’فین‘قمر یورش سے ہوئی۔ وہ ایک ترقی پسند ادیب تھے اور مزدوروں کا استحصال کرنے والے نظام کے خلاف آواز بلند کرنے کے جُرم میں جیل اور لاہور کے شاہی قلعہ میں قید کاٹ چکے تھے۔ میری جب اُن سے ملاقات ہوئی تب اُن کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لئے وہ شملہ پہاڑی کے قریب”جدوجہد“کے دفتر میں ہوتے تھے اور راتیں بھی وہیں گزارتے تھے۔
ایک دن اُنہوں نے مجھے اپنی دلی خواہش بتائی۔ کہنے لگے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد اُن کے سینے سے دل نکال کر نُور جہاں کی قبر میں پاؤں کے پاس دفنا دیا جائے۔ نُور جہاں کے ایک اور دلچسپ مداح علی عاصم مجھے سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں ملے۔ وہ ایک نوجوانانقلابی ہیں اور اپنی شناخت کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں دیوار پر دو بڑے سائز کی تصویریں لگا رکھی ہیں، ایک تصویر چے گویرا کی اور ایک تصویر نور جہاں کی ہے۔