قیصر عباس
پیر صاحب عجوہ شریف نے اپنی گوناگوں مصرفیات سے وقت نکال کر اپنے ہزاروں مریدوں کے ساتھ آستانہ عجوہ شریف اور ملک کے تمام روحانی مراکز میں اگلے ماہ کے پہلے جمعتہ المبارک کے دن یومِ نجات ودعا میں شرکت کاحکم جاری کیاہے۔ انہوں نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ”دنیا میں کروناوا ئر س دراصل یہودی اور امریکی سازش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ہمارے دوست ملک کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے کے لیے کرونا وائرس کو چین میں خفیہ طریقوں سے داخل کیا لیکن خدا کا کرنا کہ اب یہی وائرس پورے یورپ اور امریکہ میں پھیل چکاہے۔“
ان کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام علما اور مشا ئخ اپنے اپنے درباروں میں ان اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کریں اور لوگوں سے استدعا کی جاتی ہے کہ وہ ان اجتماعات میں جوق در جوق شرکت کریں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جنوبی پنجاب کے مشہور دربار گیلانی اور دربار مخدومیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ان اجتماعات کا خصوصی طورپر اہتما م کرکے اس کارِخیر میں حصہ لیں کیوں کہ ان مراکز اور ان کے مرشدوں کا اس قوم کی خیرسگالی میں ایک اہم مقام رہا ہے۔
آستانہ مخدومیہ کے سجادہ نشیں سے جو آجکل ملک کے وزیر خارجہ بھی ہیں، ایک خصوصی اپیل کی گئی ہے کہ وہ عالمی سطح پر مسلمانوں سے اجتماعی دعاؤں کا اعلان کرکے علما اور خداوند تعالی کی خوشنودی حاصل کریں۔ انہوں نے تمام نیک دل پاکستانیوں سے اپیل بھی کی ہے کہ ان اجتماعات کے اخراجات کے لیے ان تمام روحانی مراکز کو بھرپور مالی امداداور عطیات دیں تاکہ روحانیت کے آستانوں سے اٹھنے والی ہر دعاکے اثرات کو مزید پراثربنایا جاسکے اورعلما ئے دین کی کوششوں کو مزید بہتر اور کارآمد بنایا جاسکے لیکن پیر صاحب نے خواتین کو ان اجتماعات سے کوسوں دور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”خواتین اپنے گھر کی چارددیواری میں رہیں اور اگر باہر جانابھی پڑے تو حجاب بلکہ برقعہ پہن کر نکلیں۔ اس پاکیزہ لباس میں ہی کرونا کا بہترین علاج موجودہے۔“
پیرصاحب عجوہ شریف نے رائے ونڈ اور دوسرے علاقوں میں تبلیغی اجتماعات کو ایک قابل تعریف عمل قراردیا ہے۔ اس طرح کے مزید اجتماعات کی تلقین بھی فرماتے ہوئے انہوں نے فرمایا ”ان روحانی اجتماعات کو چھوت چھات قراردے کر یہ کہنا کہ ان سے کرونا کے پھیلنے کے امکانات ہیں، ان ہزاروں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے جوان عبادات میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان سادہ لوح عبادت گزاروں پر اوچھی تنقید کرنا مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کا عام ہتھیار ہے۔“
انہوں نے کہا ”کیا یہ ایک خدائی معجزہ نہیں کہ پوری دنیا میں صرف مغربی ممالک ہی اس مکروہ کرونا کی گرفت میں ہیں اور بحکم ایزدی تمام عالم اسلام ماشااللہ اس سے پاک ہے، ایران کے علاوہ کیوں کہ وہاں مساجد بند کردی گئی ہیں اور مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔“ ان کے مطابق ”ہمیں اپنی حکومت کو سلام کرنا چاہیے جس نے نہ مساجد بند کی ہیں اور نہ تبلیغی اجتماعات پر پابندیاں لگا ئی ہیں بلکہ سرکاری عمارتوں میں دعاؤں کا اہتمام کیا ہے۔ انشااللہ ان کوششوں کے جلدہی دیرپا نتائج حاصل ہوں گے۔“
ان کا کہنا ہے کہ اس موذی مرض سے نجات دو طریقوں سے ہی ممکن ہے: خلوص دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اجتماعی طو رپراکٹھے ہوکر دعاؤں کا ورد کریں اور مغربی دواؤ ں پر انحصار ختم کرکے آزمودہ روائتی نسخوں کا استعمال شروع کریں۔
پیر صاحب نے کرونا کو جڑ سے اکھاڑنے کی مندرجہ ذیل دعائیں اور نسخے بھی تجویز کیے ہیں:
نسخہ نمبر ایک
آدھا خالص دودھ اور آدھا پانی ایک گلاس میں یک جان کریں اوراس میں دس قطرے روح افزا شامل کریں۔ اگر خالص دودھ میسر نہ ہو تو پاؤڈر دودھ پر تین بار لاحول ولا قوت الا بلا پڑھ کر استعمال کریں۔ گلاس پر دس مرتبہ ”لب پہ آتی ہے دعا“ پڑھ کر پھونک ماریں اور دن میں تین مرتبہ پئیں۔ خیال رہے کہ یہ دعا پوری پڑھیں ورنہ اس کا اثرالٹا بھی ہوسکتاہے۔ اس نسخے نے سینکڑوں مریدوں کو صحت یاب کیاہے۔ انشااللہ آپ کوبھی شفا نصیب ہوگی۔
نسخہ نمبر دو
دو عدد عجوہ کھجوریں، ایک چمچ کالی مرچ، آدھا چمچ شہد، ایک چمچ پسا دھنیہ اور ایک پیاز ملا کر انہیں پیس لیں اور دن میں پانچ بار پھانک لیں۔ خدا نے چاہا تو ایک ہفتے میں ہی میں تنائج حاصل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ شروع شروع میں کرونا وائرس جیسی علامات ظاہر ہوں گی مگر گھبرائے بغیرعلاج جاری رکھنے سے افاقہ ہوگا۔
باقی کارآمد نسخہ جات اور دعائیں پیر صاحب یوم نجات ودعا کے اجتماعات میں بہ نفس نفیس پیش کریں گے۔ پیر صاحب نے قوم کو دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ”گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انشااللہ دعاؤں اور نسخوں کے ذریعے کم از کم آدھی قوم تو صحت یاب ہو جائے گی۔ باقی آدھی تو ماشااللہ پہلے ہی خاصی صحت مند ہے۔“
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔