حسن جان
تاریخ میں آج تک جتنے بھی انقلابات رونما ہوئے ہیں ان کی طرف حکمران طبقات کا رویہ انتہائی نفرت انگیز اور طبقاتی تعصب سے بھرا ہوتا ہے۔ بورژوازی انقلاب سے اِس قدر خوفزدہ ہوتی ہے کہ خود بورژوا انقلابات کی مثال دینے سے بھی ڈرتی ہے، سوشلسٹ انقلابات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکمران طبقات کے زیادہ زیرک اور چالاک دھڑے جب ایک دوسرے کو محنت کش طبقے کے غیض و غضب اور تحریک سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ ’’انقلاب فرانس‘‘ کی مثال ہی دیتے ہیں، کیونکہ انقلابِ فرانس نے اپنی تمام تر جرات، بے باکی اور تاریخی جست کے باوجود ایک طبقاتی سماج کو اور ایک دوسری قسم کے طبقاتی سماج میں ہی ڈھالا تھا۔ یورپ اور بالخصوص فرانس کے حکمران تو خود اپنے اِس انقلاب کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
جہاں تک سوشلسٹ کردار کے حامل انقلابات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے حکمران طبقات کے نصابوں میں یا تو مکمل خاموشی پائی جاتی ہے یا ان کا ذکر انتہائی منفی انداز میں کیا جاتا ہے۔ اس خطے میں محکوم طبقات کی صرف ایک سرکشی ریاست کا دھڑن تختہ کرنے میں کامیاب رہی اور سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے کی طرف بڑھی۔ یہ 27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں برپا ہونے والا ثور انقلاب تھا، جس کی یاد کو سامراج اور حکمرانوں نے تاریخ سے مکمل طور پر مٹانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس انقلاب نے طبقاتی نظام کے ملکیتی رشتوں کو ہی چیلنچ کر دیا تھا۔ حکمران طبقات اور سابقہ بائیں بازو کے زرخرید دانشور اس انقلاب کو بدنام اور غلط ثابت کرنے کے لیے’’ قبل از وقت‘‘ اور افغانستان کے ’مذہبی‘ اور ’قبائلی‘ معاشرے سے بیگانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج بھی اس خطے میں جاری بنیاد پرستی کی وحشت اور دہشت گردی کی کڑیاں اسی ڈالر جہاد سے ملتی ہیں جسے سامراج اور اس کی حواری ریاستوں نے اس انقلاب کو کچلنے کے لیے شروع کیا تھا۔ بظاہر افغان ثور انقلاب ایک فوجی بغاوت کا نتیجہ تھا جس میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) سے وابستہ کچھ فوجی افسران اور سپاہیوں نے سردار داؤد کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ لیکن اگر اس فوجی بغاوت کا پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی پے در پے فوجی بغاوتوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ ایک بالکل مختلف کہانی تھی۔ افغان فوج کے زیادہ تر افسران کی تربیت اُس وقت سوویت یونین میں ہوتی تھی۔ ایک پسماندہ ملک سے جانے والے فوجی افسران جب سوویت یونین میں چند دہائیوں میں ہونے والی ترقی کو دیکھتے تھے تو لامحالہ ان پر بائیں بازو کے نظریات اور اس منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کے اثرات پڑتے تھے۔ افغانستان اورپاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں چونکہ سرمایہ دار طبقات اپنی تاریخی نا اہلی کی وجہ سے ایک جدید سرمایہ دارانہ سماج تعمیر نہیں کرسکتے اور اپنے سامراجی آقاؤں کی نسبت نہایت نحیف اور پسماندہ ہوتے ہیں، ایسے میں ریاست میں فوج کا کردار ناگزیر طور پر بڑھ جاتا ہے۔ پھر دوسری طرف سوویت یونین اور چین جیسی دیوہیکل ریاستوں میں منصوبہ بند معیشت کے نتیجے میں ہونے والی ترقی اور سماجی خوشحالی سے پوری دنیا اور بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں بائیں بازو کے نظریات کو عمومی پذیرائی ملی تھی۔ اسی وجہ سے 50ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں مصر، ایتھوپیا، موزمبیق، یمن اور شام وغیرہ میں بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے فوجی افسران نے اپنے ملکوں میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کا خاتمہ کرکے، معیشت کو قومی تحویل میں لے کر اور منصوبہ بند معیشت قائم کرکے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کیا تھا۔ ان تمام تر ممالک میں فوج نے اپنے تئیں بغاوتیں کیں اور بعد میں خود ہی اقتدار پر براجمان ہو کر سماجی و معاشی تبدیلی کی قیادت کی۔
لیکن افغانستان میں معاملہ قدرے مختلف تھا۔ جنوری 1965ء میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (جس کے دو دھڑے ’خلق‘اور ’پرچم‘ تھے) وجود میں آئی۔ خلق پارٹی نے بہت سے فوجی افسران کو جیت لیا تھا۔ ان کا حلقۂ اثر کافی وسیع تھا۔ تیسری دنیا کے باقی ممالک میں ہونے والی بائیں بازو کی دوسری فوجی بغاوتوں کے برخلاف افغانستان میں ہونے والی فوجی بغاوت کی قیادت خلق پارٹی نے کی اور فوج شروع سے آخر تک پارٹی کی ہدایات پر ہی عمل کر رہی تھی۔ 27 اپریل 1978ء کو علی الصبح شروع ہونے والی بغاوت کی کامیابی کے بعد فوج نے اقتدار فوراً خلق پارٹی کے حوالے کر دیا تھا۔ فوج اور پارٹی کی قیادت کے حوالے سے انقلاب کے قائد حفیظ اللہ امین نے 1978ء میں اکیڈمی آف سائنسز آف افغانستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’عظیم ثور انقلاب میں، اس حقیقت کے باوجود کہ انقلاب محنت کش طبقے کے عہد ساز نظریات کے عمومی اور مخصوص قوانین کے تحت ہی برپا ہوا، فوج نے ایک اہم پرولتاری کردار ادا کیا جو کامیاب انقلاب کا مرکزی نقطہ ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے مسلسل کام کی وجہ سے فوج ایک خلقی قوت میں بدل گئی جو محنت کش طبقے کے سائنسی نظریات سے مسلح تھی، جس کی تنظیم سازی خلق پارٹی نے کی جو ملک کے محنت کشوں کا ہراول دستہ ہے۔‘‘
اپنی تمام تر خامیوں اور اندرونی تنظیمی مسائل اور جھگڑوں کے باوجود یہ انقلاب سماج کے لیے آگے کی جانب ایک عظیم قدم تھا۔ یہ سوال کہ افغانستان اپنی بے انتہا پسماندگی کی وجہ سے اس انقلاب کے لیے تیار نہیں تھا اور انقلاب قبل از وقت تھا، سراسر یک طرفہ اور میکانکی تجزیہ ہے، کیونکہ آج کی عالمی معیشت، سیاست اور سفارت کاری کے عہد میں افغانستان سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نہ کل ترقی کرسکتا تھا اور نہ آنے والے کل میں کرسکے گا۔ اس لیے بظاہر حادثاتی نظر آنے والا ثور انقلاب ایک گہری تاریخی ضرورت کا اظہار تھا۔ یہ ایک مختلف اور غیر کلاسیکی شکل میں ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کو درست ثابت کرتا ہے۔ سامراجی زر خرید دانشور جب اس انقلاب کا تجزیہ کرتے ہیں تو انتہائی منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ افغانستان کی پسماندگی اور مذہبی معاشرہ ہونے کو انقلاب کی ناکامی کی وجہ بیان کرتے ہیں اور سامراجی مداخلت کو ایک فطری ردعمل تصور کرتے ہیں، جبکہ ثور انقلاب کو ایک غیر ضروری اور غیر فطری اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پرانے حکمران طبقات کبھی بھی رضا کارانہ طور پر اپنی مراعات سے دستبردار نہیں ہوتے اور بغیر مزاحمت کے اپنی دولت اور جائیدادوں کو نہیں چھوڑتے۔ اگر ان ڈالر ’مجاہدین‘ کو بیرونی سرمایہ، سامراجی پشت پناہی اور خطے کی دوسری ریاستوں کی مالی اور عسکری معاونت نہ ملتی تو یہ کرائے کے قاتل ایک دن ٹک نہیں سکتے تھے۔
اس انقلاب نے نہ صرف خطے کے آس پاس کے ممالک اور سامراج کو سکتے میں ڈال دیا بلکہ سوویت یونین کو بھی بے خبری میں آلیا۔ اپنے آغاز سے ہی یہ انقلاب سامراج کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا کیونکہ اس نے سرمایہ داری اور سامراجیت کو للکارا تھا اور خطرہ تھا کہ اس کے اثرات پورے خطے میں پھیلنے لگیں گے۔ عام تاثر یہ ہے کہ افغانستان میں ڈالر جہاد سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوا تھا، لیکن سامراجی ممالک کی جانب سے جہادیوں کی فنڈنگ انقلاب کے ابتدائی مہینوں ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ سوویت یونین کی مداخلت نے صرف ان ردانقلابی قوتوں کو مہمیز ہی دی تھی۔ امریکی سامراج نے اپنی تاریخ کے سب سے لمبے ’آپریشن سائیکلون‘ کا آغاز کیا جس میں رد انقلابی لڑاکوں کو مالی امداد اور تربیت دے کر افغانستان میں انقلابی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ اس’جہاد‘ میں امریکہ کے علاوہ سعودی عرب، ایران، چین، پاکستان اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور اُن کے اداروں نے اپنے ملک میں بھی ان جہادی تنظیموں اور ان کے نیٹ ورک کو خوب پروان چڑھایا، جو آج خود ان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پرستی کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے منشیات کے ایک وسیع نیٹ ورک کو قائم کیا گیا۔ ڈالر جہاد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکی سی آئی اے نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیروئن کی جدید ریفائنریاں لگائیں۔ بعد میں اس ہیروئن کو یورپ اور دوسرے ممالک میں سمگل کیا جاتا تھا۔ اس سے ان سماجوں کی ہیت ہی بدل گئی اور کالے دھن کے ایک ایسی عفریت نے جنم لیا جو ان سماجوں کو آج بھی برباد کر رہا ہے۔
امریکی سامراج اور اس کی گماشتہ ریاستوں نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا۔ لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس نے شروع ہو جانے کے بعد اپنی ہی ایک منطق اختیار کر لی۔ جس بنیاد پرستی اور مذہبی دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے لیے یہاں منشیات اور کالے دھن کو متعارف کروایا گیا اس سے پاکستانی ریاست اور بنیاد پرست جہادی گروہوں میں مختلف متضادمالی و معاشی مفادات وجود میں آئے، جو سوویت یونین کے انخلا اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اور افغانستان کھنڈرات میں بدل گیا۔ اس رد انقلاب سے نہ صرف افغانستان کو بربادیوں میں دھکیل دیا گیا بلکہ پاکستان کی اپنی سماجی اور معاشی ہیت بھی بدل گئی۔ ہیروئن، کالا دھن، کلاشنکوف کلچر اور تشدد عام ہوگیا۔ یہی وہ کالا دھن ہے جس پر تمام مذہبی اور انتہا پسند جماعتیں آج بھی پلتی ہیں اور اپنے کالے دھن کی طاقت سے ہی یہ سماج میں جابرانہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ بنیاد پرستی کی اِس معاشی بنیاد کو مدنظر رکھے بغیر اس کوکبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔
2001ء میں امریکی سامراج اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے مجبوراً اپنے ہی ڈالے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لئےافغانستان پر حملہ کیا اور اپنے پرانے اتحادیوں (جن کا نام مجاہدین سے اب طالبان ہوچکا تھا) کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس تباہ حال ملک میں ’’جمہوریت‘‘ لے آئے۔ لیکن امریکی سامراج کی سنگینوں کے سائے تلے بننے والی نئی ’جمہوری‘ حکومت میں بھی وہی پرانے جنگی سردار (وار لارڈز)، خونخوار اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی رجعتی قوتیں موجود تھیں۔ سامراجی قوتیں اور ان کے یہ حواری کبھی بھی افغانستان میں کوئی امن اور استحکام قائم نہیں کر سکتے اور وحشی کتوں کی طرح آپس میں ہر وقت دست و گریبان رہتے ہیں۔ آج افغانستان صرف جدید امریکی اسلحے کی تجربہ گاہ بن گیا ہے۔ افغانستان میں تعمیر نو کی نگرانی کے لیے امریکی کانگریس کی طرف سے قائم کئے گئے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (SIGAR) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو پر اس سے کئی زیادہ رقم خرچ کی ہے جتنی اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مارشل پلان کے تحت یورپ کی تعمیر نو پر خرچ کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 2001ء سے امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 115 اَرب ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں، اس کے باوجود ملک امن، خوشحالی اور ترقی سے کوسوں دور ہے اور افغان عوام کی محرومیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس میں مزید یہ انکشاف کیا گیا کہ افغان سکیورٹی فورسز کے کمانڈر اپنے ہتھیار، ایندھن، خوراک اور گولہ بارود طالبان کو بیچتے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سامراج کی کھڑی کی گئی ریاست اور ’’جمہوری‘‘ عناصر کس قدر کرپٹ اور نااہل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کابل کی حکومت کی رِٹ ملک کے صرف 57 فیصد حصے پر ہے جبکہ 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعدآج طالبان پچھلے عرصے کی نسبت سب سے زیادہ علاقوں پر قابض ہیں۔
خطے کے مختلف ممالک کی مداخلتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال میں خطے کی مختلف ریاستیں افغانستان میں اپنی مختلف پراکسیوں کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ 1998ء میں طالبان نے جب مزارِ شریف پر قبضہ کیا تو وہاں موجود ایرانی قونصلیٹ کے آٹھ ایرانی اہلکاروں کو قتل کردیا، جس کے جواب میں ایران نے اپنی دو لاکھ فوج افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر تعینات کردی اور طالبان کے ساتھ جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد نئی حکومت بنانے اور ’تعمیرنو‘ کے کاموں میں ایران اور امریکہ نے مل کر کام کیا۔ لیکن جلد ہی ایران نے اپنے دیرینہ ’دشمن‘ طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے۔ طالبان کے مختلف گروہوں کو اسلحہ اور تربیت دی۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ شیعہ ایران ایک وہابی طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرے کیونکہ انیسویں صدی کے ایک برطانوی سیاست دان لارڈ پالمرسٹن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ریاستوں کے مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے، صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ جہاں ایران افغانستان میں شیعہ مذہب اور فارسی زبان کے رشتوں کو استعمال کرتے ہوئے وہاں کے شیعہ ہزاروں اور تاجکوں کو اپنی پراکسیوں کے طور پر استعمال کرتا ہے، وہیں طالبان کو بھی اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے استعمال کرتاہے۔ مثلاً افغانستان کے صوبے نمروز میں دریائے ہلمند کے پانی کو استعمال کرتے ہوئے افغان حکومت کمال خان ڈیم تعمیر کر رہی ہے۔ دریائے ہلمند ہندو کش کے پہاڑوں سے نکل کر افغانستان کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے صوبہ نمروز میں پہنچنے کے بعد ایران میں جا کر گرتا ہے۔ لیکن کمال خان ڈیم کے بننے سے ایران میں پانی کا قلیل حصہ پہنچے گا۔ اس لیے ایران مقامی طالبان کی مدد سے ڈیم کے تعمیراتی عمل پر وقتاً فوقتاً حملے کرواتا رہتا ہے تاکہ ڈیم نہ بن سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب چھوٹے موٹے مفادات کے لیے وہ طالبان جیسے گروہوں کو استعمال کرسکتے ہیں تو ایسے میں وسیع تر علاقائی اثرورسوخ اور سامراجی مفادات کے لیے وہ کیا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح روس کے طالبان کے ساتھ رابطوں اور عسکری تعلقات کی خبروں نے ایک دفعہ پھر سر اٹھایا ہے۔ روس نے بھی طالبان کے ساتھ اپنے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ ظاہری طور پر تو طالبان کی یہ حمایت افغانستان میں داعش کو ختم کرنے کے لیے ہے، لیکن امریکی سامراج کی یہاں شکست اور انخلا کے بعد روس بھی اس ملک میں اپنے اثرورسوخ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ روس کی موجودہ زوال پذیر معیشت اور عمومی کیفیت کی وجہ سے شاید یہ کردار محدود نوعیت کا ہو۔
اسی طرح ہندوستان نے بھی افغانستان میں اپنی ٹھیک ٹھاک جگہ بنا لی ہے۔ جہاں ہندوستان کی اس مداخلت کا مقصد معاشی فوائد ہیں وہیں اس مداخلت کا اہم ترین مقصد افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کو کم کرنا اور اگلا پچھلا حساب برابر کرنا ہے۔ اس وقت افغانستان میں ہندوستان کا کابل میں ایک سفارت خانہ اور ہرات، مزار شریف، قندھار اور جلال آباد میں قونصلیٹ کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندستان ڈیموں، بجلی کی پیداوار اور مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ اسی طرح زرنج دلارام ہائی وے کا ایک اہم مقصد افغانستان کے پاکستان پر انحصار کو کم کرکے ایران کے ذریعے اسے ہندوستان سے جوڑنا ہے۔ اس سے پاکستان اور ہندوستان کی افغانستان میں پراکسی جنگ مزید بڑھی ہے۔ کابل میں ہندوستان کے سفارت خانے اور ہرات میں قونصلیٹ پر کئی حملے ہوئے جس کا الزام ہندوستان نے پاکستان پر ہی لگایا۔ امریکہ نے بھی پاکستان کو ’سدھارنے‘ میں ناکامی کے بعد ہندوستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے لیے اپنی فوجی امداد اور تعاون مزید بڑھادے۔ جس سے لامحالہ افغانستان میں ان متحارب قوتوں کے تضادات میں مزید اضافہ ہوگا۔
شاطر چینی بیوروکریسی کی نظریں افغانستان کی معدنیات کی لوٹ مار پر جمی ہوئی ہیں۔ پرامن لوٹ مار کے لیے اسے طالبان کی مدد کی ضرورت ہے۔ گاہے بگاہے طالبان کے مختلف گروہ چین کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ چین کی افغانستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری میس عینک (Mes Aynak) میں تانبے کے وسیع ذخائر میں ہے، لیکن اس پر کام رکا ہوا تھا۔ پچھلے عرصے میں طالبان نے بھتے کے بدلے چین کو کام کرنے کا ’لائسنس‘ دے دیا ہے۔
اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے افغانستان صدیوں سے مختلف حملہ آوروں اور سامراجی طاقتوں کے درمیان جنگ کا میدان رہا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ کبھی بھی ایک مستحکم اور یکجا ریاست بن ہی نہ سکا۔ ثور انقلاب کے خلاف سامراجی ڈالر جہاد نے آج ملک کو ایک جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ سامراجیوں اور خطے کی ریاستوں کی مداخلت نے افغانستان میں نسلی اور لسانی نفرتوں کو مزید ہوا دی ہے۔ ان سامراجی سرمایہ کاریوں سے یہاں کبھی بھی ایک صحت مند اور خوشحال سماج تعمیر نہیں ہوسکے گا، بلکہ تضادات مزید تیز ہوں گے۔ جس طرح افغانستان کی سرحدوں سے جڑے ممالک کی ریاستیں اس میں مداخلت کرکے اسے تاراج کر رہی ہیں، اسی طرح ان ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں بھی افغانستان کی تقدیر کا فیصلہ کریں گی۔ پاکستان یا ایران میں اٹھنے والی انقلابی تحریکیں اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں تو افغانستان کی صورت حال کو یکسر تبدیل کردیں گی۔ یہاں کا انقلاب مستقبل کے سوشلسٹ افغانستان کی بنیاد رکھے گا۔