عدنان فاروق
نیتا جی سبھاش چندر بوس اور ان کی انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) بارے تو سبھی جانتے ہیں مگر یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ آئی این اے کے اصل بانی راش بہاری بوس تھے۔ یہ وہی راش بہاری بوس تھے جنہیں دلی سازش کیس کا مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں چار انقلابیوں کو پھانسی اور ایک کو عمر قید ہوئی تھی۔
ہوایوں تھا کہ جب تاج برطانیہ نے دارلحکومت کلکتہ سے بمبئی منتقل کیا تو وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگے ایک ہاتھی پر سوار 23 دسمبر 1912ء کو دلی میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر ان پر ایک بم سے حملہ ہوا۔ وائسرائے بہادر زخمی تو ہوئے مگر بچ گئے۔ ان کے ہمراہ ایک پیادہ البتہ ہلاک ہو گیا۔
1886ء کو بنگال کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے راش بہاری بوس محکمہ جنگلات میں کلرک تھے اور بظاہر تاج ِبرطانیہ کے بہت وفادار تھے اس لئے فوری طور پر تو وہ نہ پکڑے گئے مگر ان کا نام ریڈرا پر آ گیا۔ 1913ء تک ان کے بارے میں انگریز سرکار کو پتہ چل گیا۔ ادھر ان کی شہرت انقلابی حلقوں میں ہندوستان سے باہر بھی پھیل چکی تھی۔ انہوں نے ایک منصوبہ یہ بنایا کہ لاہور سے فروری 1915ء کو ایک بغاوت شروع کرائی جائے جو پورے ہندوستان میں پھیل جائے مگر یہ منصوبہ ناکام رہا۔ انہیں فرار ہو نا پڑا۔ وہ جلاوطنی میں چلے گئے اور ان کی منزل تھا جاپان۔
جاپان ان دنوں پین ایشیا ازم کا پرچارک تھا۔ بوس وہاں جلد ہی ایک مقبول عام اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مشرق بعید کے ممالک میں ہندوستانی لوگوں کو منظم انداز میں آزادی کی تحریک میں متحرک کردیا۔ تیس کی دہائی میں جب جاپان نے خود چین اور کوریا پر سامراجی قبضے شروع کئے تو بوس کو کافی مایوسی ہوئی مگر وہ خاموش ہی رہے جس کی وجہ سے ان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔
15 فروری 1942ء کو برطانیہ نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی سرنڈر کیا: 120,000 دستوں نے جاپان کے سامنے ہتھیارڈال دئے۔ ان دستوں میں اکثریت ہندوستانی سپاہیوں کی تھی۔ اسی دوران جاپان اس کوشش میں تھا کہ شنگھائی، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں جو ہندوستانی جنگی قیدی تھے ان پر مشتمل آئی این اے بنائے۔ سرنڈر کے بعد تو بہت بڑی تعداد ایسے تربیت یافتہ سپاہیوں کی موجود تھی جن کی مدد سے آئی این اے بنائی جا سکتی تھی۔ جاپان کی سرپرستی میں یہ ذمہ داری راش بہاری بوس نے لی۔
1943ء میں البتہ جب سبھاش چندر بوس ہندوستان سے فرار ہو کر ملائشیا پہنچ گئے تو پھر آئی این اے ان کے نام سے منسوب ہو گئی کیونکہ وہ بے حد مقبول تھے۔ راش بہاری بوس کا 1945ء کو انتقال ہو گیا۔
انہوں نے ایک جاپانی خاتون سے شادی کی اور ان کے دو بچے تھے۔ پاکستان میں تو ایسے ہیروز کا ذکر ہی منع ہے لیکن ہندوستان میں بھی بہاری بوس کو بھلا دیا گیا ہے کیونکہ ایسے انقلابیوں کی جدوجہد گاندھی اور نہرو کے کردار اور طریقہ کار پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ روز سی این این نے راش بہاری بوس بارے ایک تفصیلی فیچر اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا۔ مندرجہ بالا تفصیلات اسی فیچر سے لی گئی ہیں۔