فاروق سلہریا
دنیا بھر میں سویڈن کے بارے میں جو تصور پایا جاتا ہے اس کے مطابق یہ پُر امن سا ملک ہے جہاں نصف سال دن نہیں ڈھلتا اور باقی کا آدھے سال رات چھائی رہتی ہے۔ اِس فلاحی ریاست میں کام نہ بھی کریں تو انسان کو کھانے پینے اور گھر بار یا بال بچوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔
پاکستان میں سویڈن کے مندرجہ بالا تصورکو پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے چند سال قبل اہلِ وطن کے لئے مزید پُر کشش بنا دیا۔ عمران خان کے بقول سویڈن کے فلاحی نظام کی بنیاد جس قانون پر ہے اُسے عمرز لا کہتے ہیں (مراد سویڈن نے حضرت عمر سے متاثر ہو کر فلاحی ریاست تشکیل دی) [1]۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں سویڈن بارے جو تصور پایا جاتا ہے وہ تو کسی حد تک درست ہے (گو عمران خان کا دعویٰ زیادہ سے زیادہ مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے) مگر سویڈن کے مندرجہ بالا تصور کو من و عن قبول کرنا ایک خوبصورت حماقت ہی کہلا سکتی ہے۔
وائے اتفاق کہ سویڈن کے پُر امن اور فلاحی امیج کو لگ بھگ دس سال قبل سٹیگ لارشن (Steig Larsson) [2] کے جاسوسی ناولوں پر مبنی ثلاثہ(Trilogy) کی شکل میں ایک دلچسپ فِکشنل جھٹکا لگا۔ دلچسپ اس لئے کہ عہدِ حاضر میں ایک طرف تو پہلی بار کسی سویڈش لکھاری کی کتابیں ریکارڈ تعداد میں پڑھی جا رہی تھیں (سٹیگ لارشن کی ثلاثہ چھ کروڑوں کی تعداد میں شائع ہوئی)، دوسری جانب سٹیگ لارشن کے ناولوں نے دنیا کو دکھایا کہ سفید برف میں ڈھکے اِس ملک کے کچھ سیاہ پہلو بھی ہیں۔
سٹیگ لارشن تو ایک ابتدا تھے۔ انکے بعد سے کرائم فکشن میں سویڈش ادیب عالمی سطح پر راج کر رہے ہیں۔ آج سے دس سال قبل معروف امریکی جریدہ ”سلیٹ“ اسکینڈے نیوین کرائم فکشن بارے سوال اٹھا رہا تھا: ”دنیا کے پُر امن ترین لوگ قتل پر مبنی دلچسپ ترین جاسوسی ناول کیسے لکھ لیتے ہیں؟“ [3]۔ اس ضمن میں سٹیگ لارشن کے علاوہ جو نام عالمی سطح پر معروف ہوئے ان میں ہینی مانکل (1948-2015) بھی ایک اہم نام تھا (ہینی مانکل کا کام چالیس زبانوں میں ترجمہ ہوا اور انکی کتابیں کروڑ کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہیں)۔ دیگر ناموں میں جان گیﺅ (Jan Guillou)، پَر واہلو (Per Wahlöö) اور انکی اہلیہ مائے شووال Maj Sjöwall)) کے علاوہ لزا مارک لُنڈ(Liza Marklund) اہم ہیں۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ لزا مارک لُنڈ کی استثنا کے ساتھ یہ سبھی ادیب مارکس وادی ہیں۔ لزا مارک لُنڈ بھی بائیں بازو کے نظریات سے منسلک ہیں مگر مارکس وادی نہیں ہیں۔
مندرجہ بالا تمہید کا ایک مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ زیر نظر سویڈش کھیل ”تاریک ایام“ کو سمجھنے کے لئے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس کھیل کے مصنف ہینی مانکل سے تعارف ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اُس پس منظر کو سمجھا جائے جس نے ہینی مانکل اور انکے ہم عصر ادیبوں کی ایک ایسی کھیپ کو جنم دیا جو اس وقت عالمی سطح پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں پر مشتمل ہے۔
ہینی مانکل سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہولم کے ایک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ترقی پسند رجحانات سے آشنائی پیرس میں ہوئی جب 1968ءکی انقلابی تحریک چلی۔ باقی یورپ کی طرح سال 1968ءنے سویڈن کی نوجوان نسل کو بھی بڑے پیمانے پر انقلابی مارکسی نظریات سے متعارف کروایا۔ ہینی مانکل بھی ان میں سے ایک تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہینی مانکل اُس 68ءجنریشن کا ایک فرد تھے جس کی عالمی سطح پر علامت پاکستانی نژاد برطانوی رہنما طارق علی تھے۔ اس نسل نے یورپ میں بے شمار بڑے ناموں کو جنم دیا۔ 68ئجنریشن مغرب میں ایک استعارہ، ایک محاورہ اور ایک حوالہ بن چکی ہے۔ ہینی مانکل 68ء جنریشن کے باقی لوگوں کی طرح اس دنیا کو بدلنا چاہتے تھے۔ 68ءمیں سب سے زیادہ انقلابی صورتحال فرانس میں تھی۔ اتفاق سے ہینی مانکل 1966ءمیں ہی تعلیم کے لئے پیرس پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے انقلابی صورتحال کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ شاید یہ انقلابی نقوش ہمیشہ کے لئے انکی شخصیت کو تشکیل دے گئے۔
ایک بار کسی صحافی نے ہینی مانکل سے پوچھا کہ وہ لکھتے کیوں ہیں؟ ہینی مانکل کا جواب تھا: ”جو چیز میری کم صلاحیت کے با وصف، مجھے لکھنے پر مجبورکرتی ہے وہ ہے اِس دنیا میں تبدیلی لانا جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ یہ دنیا ہر سطح پر تباہ ہو رہی ہے۔ استحصال، لوٹ مار اور تباہی ہو رہی ہے۔ میرے پاس چھوٹا سا موقع ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت میں حصہ لے سکوں۔ اکثرمیں جو کام کرتا ہوں، وہ اس مزاحمت کا حصہ ہے؛ ایک طرح سے یکجہتی کا اظہار ہے۔ میری خواہش ہے کہ کوئی ایسا قابلِ قدر کام کر سکوں جس کے نتیجے میں یہ دنیا رہنے کے لئے ایک نفیس جگہ بن سکے“ [4]۔
دنیا کو بدلنے کی یہ سوچ سال 68ءمیں پختہ ہوئی۔ 68ءجنریشن صرف سامراج (بالخصوص ویت نام میں امریکی بربریت) یا سامراجی ریاست (جیسا کہ فرانس میں دیکھنے میں آیا) کے جبر سے نالاں نہیں تھی۔ وہ سوشلزم کی اس جابرانہ شکل سے بھی خفا تھے جس کی نمائندگی ماسکو کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نسل کے بہت سے لوگ ماﺅ ازم کو ایک متبادل سمجھ کر ماﺅاسٹ نظریات کی طرف مائل ہوئے۔ ہینی مانکل بھی ان میں سے ایک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چین سے باہر ماﺅازم کو جن ممالک میں بہت پذیرائی ملی ان میں سے ایک تو لاطینی امریکہ کا ملک پیرو تھا تو دوسراسویڈن کا ہمسایہ ملک ناروے۔ 68ءکے ہنگامہ خیز دنوں میں ہینی مانکل کی ملاقات ایک نارویجن خاتون سے ہوئی جو ناروے کی ”کمیونسٹ لیبر پارٹی“ (AKP) کی رکن تھیں۔ ”کمیونسٹ لیبر پارٹی“ ماﺅاسٹ نظریات کی حامل تھی۔ شادی کے بعد ہینی مانکل بھی 1972ءمیں ناروے رہائش پذیر ہو گئے۔ جب یہ تعلق ختم ہو گیا تو ہینی مانکل 1981ءمیں واپس سویڈن چلے آئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایوا برگمین(Eva Bergman) سے شادی کر لی [5]۔ ایوا برگمین سویڈن کے عالمی شہرت یافتہ فلمساز انگمر برگمین (Ingmar Bergman) کی صاحبزادی ہیں۔
ہینی مانکل کی زندگی دو چیزوں سے عبارت تھی۔ قلم کاری اور تھیٹر مگر انہوں نے ناول لکھے یا تھےٹر کیا، پیغام ایک ہی تھا: سماج کو بدل ڈالو۔
بیس سال کی عمر میں ہی وہ سویڈن کے اسٹیٹ تھیٹر سے منسلک ہو گئے تھے مگر 1985ءمیں افریقی ملک موزنبیق منتقل ہو گئے تا کہ وہاں تھیٹر کے فروغ کے لئے کام کر سکیں 2015ءمیں کینسر کے ہاتھوں اپنی وفات تک وہ اپنا وقت سویڈن میں گزارتے یا موزنبیق میں۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن کے علاوہ افریقہ انکی تحریروں میں نمایاں نظر آتا ہے۔
افریقہ کے علاوہ فلسطین کے سوال سے بھی ہینی مانکل کی گہری وابستگی تھی۔ 2010ءمیں جب غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لئے ایک بحری بیڑا (فلوٹیلا) امدادی اشیا اور دنیا بھر کے سیاسی کارکنوں کو لیکر غزہ روانہ ہوا تو ہینی مانکل بھی ایک بحری جہاز پر سوار تھے۔ چھ بحری جہازوں پر مشتمل اس بیڑے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر دیا تھا اور اس حملے میں نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
گیارہ ستمبر کے بعد جب سویڈن میں بھی دیگر مغربی ممالک کی طرح اسلاموفوبیا نے زور پکڑا تو ہینی مانکل اسلاموفوبک قوتوں کے خلاف قلم بردار جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ ان کا ایک کھیل لامپے دوسا Lampedusa) ) ایک ایسی ہم جنس مسلم عورت کے بارے میں ہے جو سویڈن میں پناہ گزین بن کر آتی ہے۔
ہینی مانکل کے دیگر اہم ناولوں میں ”دی راک بلاسٹر“ (جس کا موضوع سویڈن کے محنت کش طبقے کی تاریخی جدوجہد ہے)، ”پاگل آدمی“ (دوسری عالمی جنگ کے دوران سویڈش اشتراکیوں سے ہونے والی زیادتیوں کی داستان)، ”ڈیزی سسٹرز“ (محنت کش عورتوں کی ایک کہانی) اور ”دی سینٹ پینٹر“ (جوافریقہ میں سامراجی استحصال کااحوال بیان کرتا ہے) شامل ہیں۔ ہاں البتہ انکی عالمی شہرت کی وجہ انکے جاسوسی ناول اور انکا تخلیق کردہ کردار کُرت ولاندر (Kurt Wallander) ہے۔
ہینی مانکل کے جاسوسی ناول دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔ ان پر ٹی وی سیریلز بنائے گئے۔ انہیں فلمایا گیا۔ انکو بہت بڑی تعداد میں پڑھا گیا۔ انکو انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں اسکرین پر اڈاپٹ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہینی مانکل کے جاسوسی ناول بھی سویڈش معاشرے پر دلچسپ سماجی کمنٹری کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً ناقدین نے کُرت ولاندر کو نسل پرستی پر تنقید کے حوالے سے بھی سراہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مقبولِ عام کرائم فکشن لکھنے والے سویڈش لکھاریوں کی ایک وجہ شہرت ہی یہ ہے کہ وہ سیاست اور معاشرت کو جاسوسی ناول میں سمو دیتے ہیں۔
”تاریک ایام “ البتہ ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔ یہ کہانی ہے احساسِ جرم کی، یہ کہانی ہے دکھ اور غم کی، یہ کہانی ہے محفوظ اور روشن مستقبل کی تلاش کی، یہ کہانی ہے انسانی اسمگلنگ کے مکروہ جرائم اور مغربی ممالک کی بے رحم امیگریشن پالیسی کی، یہ کہانی ہے باپ اور بیٹی کے مابین نفسیاتی کشمکش کی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ”تاریک ایام“ کہانی ہے تیسری دنیا میں مزدور حقوق اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے ان کارکنوں کی جنہیں بقول فیض”دار کی خشک ٹہنی“ پر وار دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کا مرکزی کردار ٹریڈ یونین کا کارکن ہے جس کا والد بھی عمر بھر ٹریڈ یونین کے لئے سر گرم رہا۔ اس جدوجہد میں جیل کی ہوا بھی کھائی، بے روزگاری بھی کاٹی، تشدد بھی سہا۔ قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ جب کبھی میڈیا نے اس جدوجہد کے حق میں لکھا تو لکھنے والے صحافی کو اغوا کر لیا گیا اور اسکی زبان کاٹ دی گئی۔
جب اپنے ملک میں رہنا نا ممکن ہو گیا تو اس ناول کا مرکزی کردار خاندان سمیت ےورپ فرار ہونے کی ٹھان لیتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کرنے والے ایک گروہ کو پیسے دے کر ایک بوسیدہ کشتی پر سوار یہ خاندان یورپ جا رہا ہوتا ہے کہ کشتی الٹ جاتی ہے۔ باپ بیٹی تو بچ جاتے ہیں مگر بیوی اس حادثے میں ہلاک ہو جاتی ہے (تجسس قائم رکھنے کے لئے باقی کہانی یہاں بیان نہیں کی جا رہی)۔
بحیرہ روم میں ایسے حادثات آئے روز ہو رہے ہیں۔ انسانوں کو سمگل کرنے والے گروہ پیسوں کے لالچ میں پناہ گزینوں کو بوسیدہ لانچوں میں بٹھا کر سمندری لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ادھر مغربی ممالک نے قانونی طریقے سے پناہ گزینوں کی آمد کو تقریباً نا ممکن بنا دیا ہے۔ تیسری جانب عالمی سرمایہ د اری اور سامراج کے معاشی کھیل کا نتیجہ ہے کہ تیسری دنیا کے کئی ممالک جنگ و جدل اور ماحولیاتی تبدلیوں کے ہاتھوں تباہ ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری کی تاریخ ہے کہ اسکے تحت نا ہموار ترقی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جہاں ترقی کا ارتکاز ہوگا، محنت کش بھی اس مرکز کا رخ کریں گے۔ اسے ایک سامراجی تضاد ہی کہا جا سکتا ہے کہ سامراجی ترقی اور لوٹ کھسوٹ تو تیسری دنیا میں جاری رہے مگر تیسری دنیا کے لوگ اگر سامراجی ممالک میں جانا چاہیں تو انکے راستے میں باقاعدہ دیواریں بنا دی جائیں۔ اسکی تازہ ترین مثال امریکی دیوار ہے جو میکسیکو کی سرحد پر کھینچی جا رہی ہے۔
”تاریک ایام“ اس پس منظر میں جنم لینے والے انسانی المیوں کی محض ایک کہانی ہے۔ اس کہانی کو اردو قالب میں ڈھالنے کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ اسے ناروے کے شہر اوسلو میں اردو زبان میں اسٹیج کیا جائے۔ یہ ایک منفرد تجربہ تھا (جو اکتوبر 2018ءمیں کیا گیا) اور اس منصوبے کے روح رواں ٹونی عثمان تھے۔
پاکستانی نژاد نارویجن اداکار، فلم ڈائریکٹر اور تھےٹر ہدایتکار ٹونی عثمان گذشتہ تےن دہائیوں سے ناروے میں تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ اردو بینوں کے لئے ٹونی عثمان کے کام کی دلچسپ بات اورمنفرد خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو نارویجن زبان میں تھیٹر پر بھی پیش کیا ہے اور انہیں فلمایا بھی ہے۔ تھیٹر پر وہ منٹو کی مشہورکہانی”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کے علاوہ ”چچا سام کے نام منٹو کے خطوط“ کو نارویجن زبان میں اسٹیج کر چکے ہیں۔
2015ءمیں انہوں نے منٹو کے ایک اور معروف افسانے ”ٹھنڈا گوشت“ کو’ ’سرد“ کے نام سے فلمی شکل دی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اسے اردو زبان میں بنایا گیا اور نارویجن زبان میں سب ٹائٹل پیش کئے گئے۔ اس فلم کی کامیابی سے شہ پا کر انہوں نے ”تاریک ایام “ کو اردو زبان میں تھیٹر پلے کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا مگر نارویجن ناظرین کے لئے ایک منفرد تجربہ کیا گیا: اسٹیج پرایک بڑی اسکرین نصب کر دی گئی جس پر اردو مکالموں کا نارویجن ترجمہ نمودار ہو جاتا۔
اردو میں کھیل اسٹیج کرنے کے پیچھے محض یہ وجہ نہیں تھی کہ ناروے میں اردو کو فروغ دیا جائے جہاں پاکستانی نژاد کمیونٹی کو سب سے بڑی پناہ گزین کمیونٹی سمجھا جاتا ہے (یہ بات درست ہے اگر ہم سفید فام افراد کو خارج کر دیں)۔ ٹونی عثمان کے ذہن میں ”تاریک ایام“ کو اردو میں نارویجن بولنے والے لوگوںکے لئے پیش کرنے کی ایک فنی اور ادبی وجہ بھی تھی۔
ہوتا یہ ہے کہ جب پناہ گیر یورپی ممالک میں پہنچتے ہیں تو میزبان ممالک کی زبان سمجھنے میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان ایک بڑی رکاوٹ اور چیلنج بن جاتی ہے۔ ٹونی عثمان نارویجن زبان بولنے والوں کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ بھی اس چیلنج کی باریکیوں، پیچیدگیوں اور مشکلات کو سمجھیں۔ ٹونی عثمان نے نہ صرف زبان کو فنی اور ادبی انداز میں تارکین وطن سے یکجہتی کے لئے استعمال کیا بلکہ ”غیر قانونی تارکینِ وطن“ (جو ”تاریک ایام“ کا اصل موضوع ہیں) کے مصائب اجاگر کرنے کے لئے ٹونی عثمان نے اس کھیل کا پریمیئر ایک ایسے بنکر میں رکھا جہاں آرام دہ کرسیوں کی بجائے لکڑی کے بنچ پڑے تھے۔ اسی طرح سردی کے باوجود بنکر کو گرم نہیں کیا گیا۔ آخر بہت سارے غیر قانونی تارکینِ وطن بھی تو اسی طرح کی جگہوں میں چھپ چھپ کر رہ رہے ہوتے ہیں۔
ہینی مانکل کے ذاتی اور فنی تعارف کے ساتھ ساتھ ٹونی عثمان کے کام کا طریقہ کار یہ بات تو پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ دونوں حضرات اپنے فن کے ذریعے اپنے اپنے انداز میں اس دنیا میں ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز ہی بلند نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ مظلوموں کے لئے یکجہتی بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ایک جگہ نا انصافی کا مطلب ہے ہر جگہ نا انصافی۔ بلاشبہ ہینی مانکل کا ملک سویڈن اور ٹونی عثمان کا نیا وطن ناروے دنیا کے بہترین معاشروں میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ انسانی حقوق، معیارِ زندگی، انسانی برابری، مزدور دوست اقدامات، صنفی برابری اور ماحولیات کے حوالے سے ان دو معاشروں نے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ تیسری دنیا کے ممالک میں سوچا بھی نہیں جا سکتا لیکن ہینی مانکل اور ٹونی عثمان اپنے فن کے ذریعے مندرجہ ذیل باتوں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں:
اول: اپنی تمام تر خصوصیات اور کامیابیوں کے باوجود اسکینڈے نیوین معاشروں کے اپنے تضادات ہیں۔ اپنے مسائل ہیں۔ مثلاً ٹونی عثمان اپنے اسٹیج پلے ”انکل سام کے نام خط“ کو نارویجن زبان میں پیش کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ”پاکستان کی طرح ناروے بھی انکل سام کا ایک چھوٹا سا بھتیجا ہے“ [6] جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ناروے ناٹو کا رکن ہے اور ناروے کے لوگ چاہیں یا نہ چاہیں ناروے کی حکومت امریکی جنگوں میں حصہ لیتی ہے۔ نوے کی دہائی میں اس کی ایک مثال سربیا کی جنگ ہے جس میں ناروے نے حصہ لیا۔ ”تاریک ایام “ اپنی اصل شکل یا اردو قالب میں یہ تو نہیں دکھاتا کہ اس کھیل کے کردار وں نے کسی اسکینڈے نیوین ملک میں پناہ لی ہے مگر مبہم انداز میں دونوں صورتوں میں ناروے اور سویڈن ہی پیش کئے گئے ہیں۔ یوں یہ کھیل اسکینڈے نیویا کی امیگریشن پالیسی پر بحث کو جنم دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کھیل تیسری دنیا کے ممالک میں قائم بے رحم آمریتوں کا بھی پردہ چاک کرتا ہے۔ اصل میں سامراج اور تیسری دنیا کے بے رحم حکمران ایک ہی عالمی استحصالی نظام کا شاخسانہ ہیں۔
دوم: جب تک دنیا بھر سے نا انصافی کا خاتمہ نہیں ہوتا، کسی ایک جگہ سے بھی نا انصافی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ”تاریک ایام“ کا بھی یہی پیغام ہے۔ اگر سامراجی ممالک ایشیا اور افریقہ میں جنگیں کریں گے اور کرائیں گے تو انصاف کی تلاش میں لوگ سامراجی ممالک کا رُخ کریں گے۔ ان ممالک میں اگر تارکینِ وطن کے ساتھ امتیازی سلوک ہو گا تو فلاحی ریاستیں قائم نہیں رہ سکیں گی کیونکہ فلاحی ریاست کی اساس ہی اس اصول پر قائم ہے کہ نسل، صنف، مذہب، رنگ اور نظرئےے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیںبرتا جائے گا۔ ےوں ایک اچھا معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد ایک عالمی جدوجہد ہے۔
سوم: آرٹ کو پراپیگنڈہ بنائے بغیر، آرٹ کا تفریحی اور تہذیبی پہلو برقرار رکھتے ہوئے، آرٹ کو اس دنیا کو بدلنے کے لئے استعما ل کیا جا سکتا ہے۔ کیا جا رہا ہے۔ کیا جانا چاہئے۔
حوالہ جات:
1۔ عمران خان سے پہلے عمرز لا والی بات کالم نگار ہارون رشید نے پھیلانا شروع کی۔ ایک دور میں وہ عمران خان کے نظریاتی استاد تھے۔ ممکن ہے عمران خان نے یہ بات ہارون رشید سے سنی ہو۔ بہر صورت یہ بات ہمارے کالم نگاروں اور سیاستدانوں کی تحقیق اور معلومات سے عدم دلچسپی کی ایک علامت ہے۔ راقم نے عمران خان کے دعوے کی تردید میں روزنامہ ”دی نیوز“ میں لکھنے کے علاوہ ہفت روزہ ”وئیو پوائنٹ“ میں معروف سویڈش تاریخ دان ہوکن بلومکوسٹ کا انٹرویو شائع کیا۔ اس انٹرویو کا اردو ترجمہ پندروہ روزہ ”طبقاتی جدجہد“ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ انگریزی متن کے لئے دیکھئے:
Sulehria, F (2012) ‘Omar’s law is UNKNOWN in Sweden’: Swedish historian to Imran Khan. Viewpoint. Accessed on 11/06/2019:
2۔ سویڈش نام انکے سویڈش تلفظ کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ماسوائے انگمر برگمین کے کیونکہ ان کے نام کا انگریزی تلفظ اتنا مشہور ہے کہ سویڈش تلفظ عجیب محسوس ہوتا ہے۔
3۔ دیکھئے:
Rich, N (2009) ‘Scandinavian Crime Wave: Why the most peaceful people on earth write the greatest homicide thrillers’. Slate. Accessed on 11/06/2019:
4۔ بحوالہ: ’سویڈن کا تیز فہم ڈرامہ ”تارےک ایام“ ناروے میں پیش کیا جائے گا۔ از فاروق سلہریا۔ مزدور جدوجہد۔ 5 تا 11 ستمبر 2008ئ۔ صفحات: 23-25
Hagen, A, Brandvil, A and Bach, D (2015) Henning Mankell er død. VG.5
October 5. Accessed on 16/06/2019:
6۔ ٹونی عثمان کی ویب سائٹ
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔