خبریں/تبصرے

بم نہیں، روٹی: جنگ نہیں، امن

فاروق طارق

75 سال قبل 6 اگست کے دن امریکی سامراج نے صبح 8.15 بجے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جس سے اس شہر کی 3 لاکھ 50 ہزار کی آبادی میں سے تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار افراد فوری ہلاک ہو گئے جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔

اس کے 3 دن بعد 9 اگست کوایک اور جاپانی شہر ناگاساکی پر پھر ایٹم بم گرائے گئے وہاں بھی 74 ہزار افراد فوری ہلاک ہو گئے۔

آج ایک بار پھر بیروت دھماکوں نے جاپانی تباہی کی یاد دلا دی جہاں تین روز قبل کھاد بنانے والے بارودی مواد کے گودام میں دھماکہ ہوا تھا۔

1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد ہاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر دئیے جس کی تیاری دونوں ممالک عرصہ دراز سے کر رہے تھے۔ یہ دونوں ممالک بھی ایٹم بم بنانے والے ممالک میں شامل ہو گئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اورہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اس میں پندرہ کلو ٹن کے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں، تو ان کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دھماکوں کے اثرات سے ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہوسکتی ہے جس سے دو ارب کے قریب انسان فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے اصل مسائل تو بھوک، غربت، بے روزگاری اور مناسب رہائش کی عدم دستیابی ہے۔

پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے رہے رہیں ہیں۔ چالیس فیصد بچوں کی مکمل طور پر ذہنی نشوونما نہیں ہو پارہی ہے جبکہ اڑتیس فیصد کے قریب غذا کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔

بھارت میں سرکاری طور پر 243 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں (غیر سرکای طور پر یہ تعداد چھ سو ملین ہے)، پینتیس فیصد سے زائد افراد مناسب غذا سے محروم ہیں جبکہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔

کرونا وبا نے دونوں ممالک کے نظامِ صحت کی بری حالت کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ہم نیوکلیئرائزیشن کے مخالف ہیں۔ پوری دنیا سے ایٹم بموں اور تباہی پھیلانے والی دیگر اسلحہ سازی کی صنعت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ہمیں بم نہیں روٹی، صحت، روزگار اور رہائش چاہیے۔

جنگ نہیں، امن چاہیے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔