عدنان فاروق
تین دن پہلے زلزلے نے ایک مرتبہ پھر جموں کشمیر کے علاقے میں تباہی مچا دی۔ زلزلے کا مرکز میرپور کے قصبے جاتلاں میں تھا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم چالیس کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں شدید زخمی ہیں۔
بد قسمتی سے موجودہ حکومت کا فوری رد عمل یہ تھا کہ اس انسانی المیے پر لوگوں کی بحالی اور انسانی جانیں بچانے کے لئے فوری کاروائی کی بجائے وزیرِ اطلاعات شرمناک قسم کی بیان بازی میں مصروف نظر آئیں۔ ایک طرف انسانی لاشوں پر ہنسنے والے یہ حکمران تو دوسری طرف مذہبی طبقہ ایسے ہر موقع پر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے میدان میں آ جاتا ہے۔
لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ اللہ سے معافی مانگو۔ گناہوں پر توبہ کرو۔ قدرتی آفات سے جنم لینے والے انسانی المیے پر مذہب کاعبایا پہنا کر یہ مذہبی لوگ بدعنوان حکمرانوں کی بد عنوانیوں پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔
زلزلے اور بہت سی قدرتی آفات پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ہاں انسانی ترقی اور علم اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ منصوبہ بندی کی مدد سے ایسی آفات سے یا تو نپٹا جا سکتا ہے یا ان آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
زلزلے کا تعلق گناہوں سے نہیں، اس بات سے ہے کہ کوئی ملک زمین کے کس حصے پر واقع ہے۔ چلی ایک ایسا ملک ہے جہاں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہلکا پھلکا زلزلہ آتا ہے۔ ہر پچیس تیس سال کے بعد ایک بہت بڑا زلزلہ آتا ہے۔ 2010ء کی بات ہے کہ ہیٹی اور چلی میں ریکٹر اسکیل پر، ایک ہی پیمانے کے بہت بڑے زلزلے آئے۔ ہیٹی میں لاکھوں لوگ مارے گئے یا زخمی ہو گئے۔ چلی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک درجن سے بھی کم تھی۔ کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ چلی میں جب ڈاکٹر الاندے کی قیادت میں چلی کی کیمونسٹ پارٹی نے انتخابات جیت کر حکومت بنائی تو مختصر وقت اقتدار میں رہنے والی اس حکومت نے (جسے سی آئی اے کی مدد سے چلی کی فوج نے ایک خونی بغاوت میں ختم کر دیا)عمارت سازی کے لئے کچھ قاعدے (بلڈنگ کوڈ) بنائے۔ کسی نے گھر بنانا ہو یا تجارتی پلازا، اسے اس بلڈنگ کوڈ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر زلزلے کو ذہن میں رکھ کر عمارتیں تعمیر کی جائیں تو انسانی المیہ جنم نہیں لیتا۔
جاپان میں بھی زلزلے تواتر سے آتے ہیں۔ وہاں تو آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں بھی اب زلزلے کو برداشت کر لیتی ہیں۔
کیوبا کی مثال ہے۔ وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب زیادہ شدت کے ساتھ سمندری طوفان آتے ہیں۔ امریکہ کو بھی زیادہ تواتر کے ساتھ اور زیادہ شدت والے سمندری طوفانوں کا سامنا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ جو انسانی تاریخ کا امیر ترین اور طاقتور ترین ملک ہے، وہاں کئی اموات ہو جاتی ہیں مگر کیوبا میں ایک انسان بھی جان سے نہیں جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیوبا سمندری طوفانون سے نپٹنے کے لئے مسلسل تیاری کرتا ہے۔ یہاں تک کے بچوں سے اسکولوں میں ریہرسل کرائی جاتی ہے کہ سمندری طوفان کی صورت میں کیا کرنا ہے۔ دفتروں، فیکٹریوں اوردیہاتوں میں بھی ایسی ریہرسل کرائی جاتی ہیں۔
اگر جموں کشمیر کے لوگوں کو ستر سال سے جہاد کی ریہرسل کرانے کی بجائے زلزلوں سے نپٹنے کی تیاری کرائی جاتی، ریاست میں بلڈنگ کوڈ پر عمل کرایا جاتا اور 2005ء کے زلزلے سے سبق سیکھے گئے ہوتے تو میر پور اس وقت ماتم گاہ نہ بنا ہوتا۔