فاروق طارق
پانچ بھٹہ مزدوروں محمد سجاد، محمد ندیم، عبدالخالق، محمد الطاف اور محمد مشتاق نے 13 جولائی 2020ء کو اسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر جھنگ محمد نواز ڈھب، کو درخواست دی کہ المکہ برکس موضع باغ، ضلع جھنگ کا مالک محمد منظور نہ تو انہیں پورا ریٹ دیتا ہے، نہ لیبر قوانین پر عمل کرتا ہے اور اگر وہ بھٹہ سے کسی دوسری جگہ جانے کی بات کرتے ہیں تو انہیں زبردستی روک لیا جاتا ہے۔
ان پانچ بھٹہ مزدوروں کے خاندان اس بھٹہ پر پانچ سال سے کام کر رہے تھے اور انہوں نے کوئی پیشگی بھی نہیں لی ہوئی تھی۔ یہ پانچوں بھٹہ مزدور پاکستان بھٹہ مزدور یونین پنجاب میں شامل ہو چکے تھے۔ 14 جولائی کو اسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر محمد نواز ڈھب المکہ برکس پر معائنہ کے لئے گئے۔ مالکوں نے منت سماجت کر کے کہا کہ ہمیں دو دنوں کا وقت دیں، ہم ان بھٹہ مزدوروں کے تمام مسائل حل کر دیں گے۔ دو دن تک کچھ نہ ہوا۔
21 جولائی کو لیبر ڈیپارٹمنٹ نے دونوں فریقوں کو اپنے دفتر طلب کر لیا۔ بھٹہ مالک لیبر ڈیپارٹمنٹ میں بھی بدمعاشی پر اترے ہوئے تھے۔ وہ محکمہ لیبر کے افسروں کے سامنے ہی کہنے لگے کہ یہ مزدور پیسے واپس کر دیں اور چلے جائیں… یعنی یہ مزدور اپنی مرضی سے بھٹہ نہیں چھوڑ سکتے۔
محکمہ لیبر نے 25 جولائی کو دوبارہ انہیں بلا لیا۔ بھٹہ مالکان اس روز نہیں آئے۔ بھٹہ مزدور رہنماؤں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا۔ رات کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر آئے اور یقین دہانی کرائی کہ 27 جولائی کو ضلعی ویجیلنس کمیٹی کا اجلاس بلا رہے ہیں، اس میں آپ آ جائیں۔ مالکان نے وہاں بھی یہی موقف دہرایا کہ یہ مزدورپیسے دیں اور چلے جائیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر نے رپورٹ کیا کہ یہ بانڈڈ لیبر کی ایک واضح مثال ہے اور مالکان بدنیتی سے کام لے رہے ہیں۔ یہ کیس پولیس کو بھیج دیا گیاتا کہ پولیس ان بھٹہ مزدوروں کو جبری مشقت سے آزاد کرائے۔ پھر عید آ گئی۔
عید کے فوری بعد، 4 اگست کو پولیس سے رابطہ کیا گیاکہ مزدوروں کوآزاد کرائیں۔ پولیس لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ 5 اگست کو بھی یہی ہوا۔ دریں اثنا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر نے کہا میرا کام ختم ہے اوراس نے فون سننا بھی بند کر دیا۔
6اگست کو دوپہر 12 بجے تین مزدور رہنماؤں نے اس رویئے کے خلاف لیبر ڈیپارٹمنٹ میں بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ تھوڑی دیر میں پولیس نے آ کر ان کا بوریا بستر اٹھا کر ان کو تھانہ گوالمنڈی میں بند کر دیا۔ تین گھنٹے بعد انہیں چھوڑا تو انہوں نے دوبارہ محکمہ لیبر آ کے بھوک ہڑتال جاری رکھی۔
اب خبر پھیل چکی تھی۔ 7 اگست کو ڈویژنل ڈائریکٹر لیبر ملک منور نے اس کا سختی سے نوٹس لیا اور پولیس کو کہا کہ وہ بندے آزاد کرائے۔ 8 اگست کو جب تین ٹرکوں پر سامان لاد کر یہ بھٹہ مزدور خاندان ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرف آ رہے تھے تو مالکوں نے درجنوں غنڈوں کے ساتھ جھنگ روڈ پر ان کا راستہ روک لیا۔ وہاں ہاتھا پائی ہوئی۔ ان گنڈوں کا نشانہ یونین کے جنرل سیکرٹری محمد شبیر، ان کا بیٹا علی حسن اوریونین رہنما ساجدہ پروین تھے۔ بھٹہ مزدوروں، عورتوں اور بچوں نے جھنگ روڈ پر دھرنا دے دیا۔ ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ علی حسن زخمی ہوئے انہیں انکھ کے نیچے کئی ٹانکے لگوانے پڑے۔
پولیس کو پانچ دفعہ کال کی گئی وہ نہیں پہنچے۔ پھر ایک فوجی افسر کا گزر وہاں سے ہوا، اس نے پولیس کو بلایا۔ اس دوران مالکان تین ٹرکوں پر لدا سامان لے جا چکے تھے۔ ایس ایچ او کی مداخلت پر سامان واپس کیاگیا۔ جھنگ پولیس پھر اس بھٹہ مزدور وں کے قافلے کو جھنگ ضلع کی حدود پار کرا کے آئی۔ یہ ہیں آج بھٹہ مزدوروں کے حالات!
بانڈڈ لیبر ایکٹ 1992ء میں منظور ہوا مگر ملک کے اکثر بھٹوں پر بانڈڈ لیبر جاری ہے۔ مالکان وہی جبر کر رہے ہیں جو دھائیوں سے جاری ہے۔ یہ تو یونین کی بہادر لیڈرشپ تھی جو ڈٹ گئی اور مزدوروں کو آزاد کرا لیا۔ ادھر لاہور میں یونین کی قیادت نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ گورنر پنجاب سے رابطہ کیا۔ گورنر پنجاب نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لے کر رپورٹ طلب کی ہے۔