لاہور (جدوجہد رپورٹ) کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔ ایسا کورونا وائرس وبا سے امریکہ کے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔
ٹیلی سور کے مطابق یورپی شماریات آفس ’یورو سٹیٹ‘ کی جانب سے جاری کئے گئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران یورپی یونین اور چین کے مابین تجارت بڑھ کر 425.5 ارب یورو ہو گئی ہے جو اسی عرصہ کے دوران 2019ء سے 12.1 ارب یورو زیادہ ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت کا حجم 412.5 ارب یورو رہا۔
یورو اسٹیٹ کے مطابق واشنگٹن اور یورپی یونین کے مابین درآمدات اور برآمدات میں بالترتیب 11.4 فیصد اور 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چین سے درآمدات میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ برآمدات میں کوئی رد وبدل نہیں ہوئی۔
ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں چین کیساتھ یورپی یونین کا تجارتی خسارہ 135.9 ارب یورو تھا جبکہ اسی عرصہ میں گزشتہ سال 2019ء میں یہ خسارہ 123.9 ارب یورو تھا۔ ڈبلیو ٹی او کے مطابق اسی عرصہ کے دوران چین نے 44 فیصد پی پی ایز بھی برآمد کیں۔
ٹیلی سور کے مطابق تجارت میں اضافے کے باوجود یورپی یونین اور چین کے تعلقات ہموار نہیں رہے۔ یورپی یونین کے رہنماؤں نے اکتوبر میں بھی اپنا مطالبہ دہرایا تھا کہ بیجنگ اپنے 2019ء کے وعدوں کو پورا کرے اور یورپی کمپنیوں کیلئے چین کی مارکیٹ کھولے۔ یونین نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ مارکیٹ تک رسائی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور ڈبلیو ٹی او میں صنعتی سبسڈی پر بات چیت کرنے کیلئے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرے۔ چین اور یورپی یونین کے مابین سرمایہ کاری کے معاہدے پر چھ سال سے زائد عرصہ سے بات چیت جاری ہے اور امکان ہے کہ 2020ء کے آخر تک یہ معاہدہ ہو جائیگا۔ تاہم چین اپنی معیشت کھولنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
اکتوبر میں رائٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کے برعکس یورپی یونین نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا سہارا نہیں لیا لیکن انہوں نے یورپ میں چینی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ بیجنگ کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔