قیصر عباس
پاکستان کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی برطانوی فیشن میگزین ”ووگ “ کے سر ورق پر ایک نئے روپ میں آنے والی ہیں۔ میگزین کی تصویروں میں وہ سرخ اور نیلے لباس میں دوپٹے کے ساتھ نظر آتی ہیں جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سی این این نے تحریر کیا:
”فوٹوگرافر نک نائٹ کی کھینچی ہوئی اس تصویر میں یہ ایکٹوسٹ سرخ لباس میں ہیڈ سکارف کے ساتھ نظر آ رہی ہیں جو سٹیلامکنائٹ نے ڈیزائین کیا ہے۔ میگزین کے اندرونی صفحات میں وہ ایک اور سرخ لباس میں دکھائی گئی ہیں جسے یوراگوئے کے ڈیزائنر گبریلا ہرسٹ نے تخلیق کیا ہے۔“
اپنے نئے روپ کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا یہ روائتی لباس عام طور پر عورتوں کے استحصال کا استعارہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے:
”ہم مسلمان، پشتون یا ایک پاکستانی لڑکی کی حیثیت سے جب اپنا لباس پہنتی ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ہم استحصال زدہ ہیں، ہماری کوئی آواز نہیں ہے یا ہم پدرسری معاشرے کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ میں سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی آواز اٹھا سکتی ہیں اور اپنے سماج میں مساوی حقوق حاصل کر سکتی ہیں۔“
ملالہ نے حال ہی میں ایپل ٹی وی سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ اپنے پروڈکشن ہاؤس ’ایکسٹرا کریکلر‘ کے تعاون سے پروگرام اور دستاویزی فلمیں، مزاحیہ پروگرام، ڈرامے اور بچوں کے پروگرام تخلیق کریں گی۔ ایپل ٹی وی نے اس قسم کے معاہدے دوسرے مشہور لوگوں سے بھی کئے جن میں ٹی وی اینکر اوپرا ونفری، ہولی وڈ کے ہدایت کار سٹون سپلبرگ اورجون سٹورٹ بھی شامل ہیں۔
ملالہ نے حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور اقتصادیات میں ڈگری حاصل کی ہے اور وہ اب برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے میگزین کو دئے گئے ایک انٹرویو میں اپنی زندگی اور آئندہ کے منصوبوں پر روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے بتا یا کہ یونیورسٹی میں انہیں اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع ملے کیوں کہ وہ اب تک مختلف ملکوں کے دوروں، ڈاکومنٹری کی تیاری اور کتاب کی اشاعت میں مصروف رہیں۔ اب وہ پوکر کھیل سکتی ہیں اور ان کے ساتھ میکڈانلڈ زجا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے ایکٹوزم پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہم نے ایکٹوزم کو ٹویٹ سے منسلک کر دیا ہے۔ اس تاثر کو ختم ہونا چا ہئے کیونکہ ٹویٹر ایک الگ ہی دنیا ہے۔“ ان کے تاثرات تو درست ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے وہ شاید بھول گئیں کہ انہوں نے بھی سوشل میڈیا ہی کی سیڑھیوں پر چل کر مقبولیت کی بلندیاں حاصل کی ہیں۔
نو عمر لڑکیوں کی تعلیم اور سماج میں ان کے حقوق کے لئے ملالہ ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں اور ہم ترقی پسند ان کی بہادری اور عزم کا ہمیشہ دفاع کرتے رہے ہیں لیکن ایک فیشن میگزین کے سر ورق پر ایک روائتی لباس میں نظرآنے والی یہ لڑکی کیا اب مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل حصہ بننے جا رہی ہے؟ کیا وہ اب اپنے کلچر کو سرمایہ دارانہ نظام کا بکاؤ مال بنانے جا رہی ہیں؟
شاید ا ب یہ سوالات ان کا نظریاتی دفاع کرنے والے ترقی پسند وں کے ذہنوں میں بھی گردش کرنے لگے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔