فاروق سلہریا
پاکستان میں نظریاتی لحاظ سے چاروں بڑی پارٹیاں (فوج، پی پی پی، نواز لیگ، پی ٹی آئی) ایک ہی صفحے پر ہیں۔ کشمیر، ہندوستان، نج کاری، افغانستان، چین، سعودی عرب، قرضوں کی واپسی، امریکہ اور عوام دشمنی سب کی مشترکہ سیاست ہے۔
اس کا تازہ اظہار یہ ہے کہ عمران خان ہوں، شاہ محمود قریشی یا شاہد خاقان عباسی…اسامہ کو دہشت گرد قرار دینے سے کترا رہے ہیں۔
بات افغان چینل’طلوع‘ پر شاہ محمود قریشی کے اس انٹرویو سے شروع ہوئی جس میں انہیں بار بار خفت کا سامنا کرنا پڑا (کیونکہ افغان صحافی لطف اللہ نہ صرف تیاری کر کے آئے تھے بلکہ وہ جیو یا اے آر وائی کے ملازم بھی نہیں تھے اور سی این این والوں کی طرح بد دماغ بھی نہیں)۔
لطف اللہ نے عمران خان کی جانب سے اسامہ کو شہید قرار دئیے جانے پر سوال کیا تو شاہ محمود قریشی نے اس بیان کو میڈیا کی جانب سے مس رپورٹنگ قرار دے دیا۔ جب لطف اللہ نے پوچھا کہ ان کے اپنے خیال میں اسامہ شہید ہے یا نہیں، تو چابک زبان وزیر خارجہ نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا کی وجہ سے بات جب بڑھ گئی تو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بعد ازاں یہ وضاحت پیش کی کہ اسامہ کو عمران نے لغزش زبان کی وجہ سے شہید قرار دیا۔
یہ وضاحت سراسر جھوٹ ہے۔
مندرجہ بالا چاروں بڑی سیاسی جماعتیں نظریاتی، جذباتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر اسامہ کو شہید سمجھتی ہیں (پی پی پی وقت کی مناسبت سے پینترا بدلتی رہتی ہے۔اس کا ریکارڈ منافقت کی وجہ سے باقیوں سے بھی برا ہے)۔ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم: مولوی پارٹی تو ببانگ دہل اسامہ کو شہید قرار دیتی ہے۔ فی الحال بات کو پی ٹی آئی تک محدود رکھتے ہیں۔ فواد چوہدری کی بات کے جواب میں دو نقطے توجہ طلب ہیں:
۱۔ اگر لغزش زبان تھی تو عمران خان خود اپنی بات کی تردید جاری کریں۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟
۲۔ ایسا کیوں ہے کہ عمران خان نے لغزش زبان کی وجہ سے بینظیر بھٹو یا ذالفقار علی بھٹو کو شہید نہیں کہا حالانکہ بے نظیر بھٹو کو تو قاضی حسین احمد نے بھی شہید بولا تھا۔ بلوچ قوم پرست اکبر بگٹی اور کریمہ بلوچ کو شہید قرار دیتے ہیں۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی نے عثمان کاکڑ کو شہید قرار دیا ہے (عثمان کاکڑ کی تو تعزیت کرنے کی جرات بھی نہیں ہوئی)۔ بایاں بازو بھگت سنگھ، حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید شاہین کو شہید قرار دیتا ہے۔ کبھی ان سب کے حوالے سے عمران خان کی زبان میں لغزش آئی ہو؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔