فاروق سلہریا
لمز کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مریم چغتائی نے نور مقدم کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں اس بات کی وکالت کی ہے کہ’لڑکیوں اور لڑکوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جانی چاہئے‘۔
ڈاکٹر مریم چغتائی کچھ عرصہ قبل یکساں قومی نصاب پر شروع ہونے والی بحث کے دوران قومی سطح پر توجہ کا مرکز بنیں۔ وہ ان ماہرین میں شامل تھیں جنہوں نے یکساں قومی نصاب ترتیب دیا۔ اس بحث کے دوران انہوں نے جی جان سے سلیبس کی’اسلامائزیشن‘کا دفاع کیا۔
وہ گاہے گاہے قومی اخبارات اور اپنے ٹویٹر پر (جہاں ان کے پندہ ہزار سے زائد فالورز ہیں) مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتی رہتی ہیں لیکن فی الحال ہم اس ٹویٹ تک ہی محدود رہیں گے جس میں سیلف ڈیفنس کی بات کی گئی ہے۔
ریپ او ر تشدد سے بچنے کے لئے خواتین یا بچوں کو سیلف ڈیفنس سکھانے کی بات منطقی طور پر بھی غلط ہے اور نظریاتی لحاظ سے بھی۔
پہلی بات: سیلف ڈیفنس سے مراد کیا لیا جائے؟ مارشل آرٹس سیکھنا کافی ہو گا (عموماً جب ریپ سے بچاو کے لئے عورتوں کو سیلف ڈیفنس سکھانے کی بات کی جاتی ہے تو مارشل آرٹس، پیپر سپرے کا استعمال یا اس طرح کے دیگر حربے استعمال کرنے کی بات کی جاتی ہے)۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سیلف ڈیفنس کے لئے مارشل آرٹس وغیرہ کافی ہو گا جہاں مجرم خنجروں، کلہاڑیوں اور بندوقوں سے لیس ہو کر حملہ آور ہوتے ہیں؟ یا پھر ’لڑکیوں اور لڑکوں‘ کو پستول اور بندوق چلانا بھی سکھایا جائے؟ ہماری معزز پروفیسر نے ان تفصیلات میں جانا مناسب نہیں سمجھا۔ مزید یہ کہ ریپ، تشدد، گھریلو تشدد اور نفسیاتی تشدد کی کئی شکلیں ہیں۔ ان سب کے ساتھ سیلف ڈیفنس کی مدد سے نہیں نپٹا جا سکتا۔ خاص کر نارویجن سکالر جان گلٹنگ (John Galtung) جس سٹرکچرل تشدد کی بات کرتے ہیں، اس کا علاج سیلف ڈیفنس کی شکل میں تو بالکل نہیں کیا جا سکتا۔
جان گلٹنگ سٹرکچرل تشدد سے، علاوہ اور چیزوں کے، مراد یہ لیتے ہیں کہ وہ سوچیں اور حالات جو تشدد کو جنم دیتے ہیں، سٹرکچرل وائلنس (Structural Violence ) کے زمرے میں آتے ہیں۔
عملی تشدد کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا ہے مگر یہ تشدد سٹرکچر اور نظام میں موجود حالات اور سوچوں کا ایک اظہار ہوتا ہے۔ سٹرکچرل تشدد کو سیلف ڈیفنس سے کیسے روکا جائے گا اس کی وضاحت بھی ڈاکٹر صاحبہ نے نہیں کی۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ بعض بچے تو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ سیلف ڈیفنس کی تربیت کے باوجود ممکن ہے کہ عین موقع پر وکٹم کے اعصاب جواب دے جائیں۔ حملے کے وقت طاری ہونے والے خوف کے بعد کون کس طرح کا رد عمل دے گا، اس کا حل تو پروفیشنل فوج آج تک تلاش نہیں کر سکی۔
دوم: ڈاکٹر مریم چغتائی کا بیان عملی سے زیادہ نظریاتی لحاظ سے دیوالیہ پن کا اظہار ہے۔ سیلف ڈیفنس ایک طرح سے وکٹم بلیمنگ والے سکے کا دوسرا رخ ہے۔
جب عمران خان عورت کے لباس کو ریپ کی وجہ قرار دیتے ہیں یا ایس ایس پی لاہور موٹر وے ریپ کیس میں جنسی درندگی کا شکار بننے والی خاتون کو مورد الزام ٹہراتے ہیں کہ انہیں رات دیر سے سفر نہیں کرنا چاہئے تھا یا آج سوشل میڈیا پر بعض لوگ نور مقدم بارے پوچھ رہے ہیں کہ وہ ظاہر جعفر کے گھر میں کر کیا رہی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ہم ریاست، حکومت، معاشرے، پدر سری اور طبقاتی نطام کو بری الذمہ قرار دے رہے ہوتے ہیں اور جرم یا تحفظ،دونوں کو فرد کی ذمہ داری بنا دیتے ہیں۔
اور عین یہی تو ہے نیو لبرزم…یعنی ریاست آپ کی ویلفیئر (بھلائی اور دیکھ بھال) کی ذمہ دارنہیں۔ آپ کی تعلیم، علاج، روزگار اور سکیورٹی ریاست کا دردِ سر نہیں۔ جیب میں پیسے ہیں تو بچوں کو بیکن ہاوس یا لمز میں پڑھا لو۔ پیسے ہیں تو چغتائی لیب سے ٹسٹ کروا لو۔ پیسے ہیں تو سکیورٹی گارڈ رکھ لو یا گیٹڈ کمیونٹی میں رہائش اختیار کر لو۔
سیلف ڈیفنس اسی سوچ کی ایکسٹنشن ہے۔ ذمہ داری انفرادی ہے: ’سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے‘ بطور ریاست ہمارا کا م کرائے (ٹیکس) کے نام پرصرف پیسے بٹورنا ہے۔
اکیڈیمکس اور دانشور کا کام ہے کہ مسائل کی تنقیدی انداز میں تشریح کریں اور مسئلے کا ایسا حل پیش کریں جس میں طاقت کے توازن کو پیش نظر رکھا جائے۔ بطور اکیڈیمک آپ اس حقیقت سے جان نہیں چھڑا سکتے کہ آپ طاقت اور ریاست کے ساتھ ہیں یا محکوم اور عام شہری کے ساتھ۔
اخلاقی سطح پر ہی نہیں، تحقیق اور مشاہدہ بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عمران خان کی وکٹم بلیمنگ بھی بے سرو پا تھیوری ہے اور ڈاکٹر مریم چغتائی کا سیلف ڈیفنس بھی۔
سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ مسئلے کا کوئی ایک حل ہے ہی نہیں۔ اس کے کئی حل ہیں۔ کچھ دیر پا۔ کچھ فوری…لیکن ایک بات طے ہے کہ عورتوں کو برقعے پہنانے اور ’لڑکیوں‘ کو سیلف ڈیفنس سکھانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔
امید ہے جس طرح عمران خان اپنے تازہ انٹرویو میں وکٹم بلیمنگ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، ڈاکٹر مریم چغتائی بھی سیلف ڈیفنس والے فلسفے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تسلیم کریں گی کہ سیلف ڈیفنس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یکسا قومی نصاب کو ڈی دیڈیکلائز کیا جائے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔