خبریں/تبصرے

لاشے تو افغان روز دفناتے ہیں، عید پر ہم نے مسکراہٹیں دفن کیں

یاسمین افغان

افغانستان پر مسلط جنگ نے ایک اور بدنما موڑ لیا ہے۔ اب ہر کوئی نشانے پر ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ہر صبح آنکھ کھلتے ہی معصوم بچوں، نوجوانوں اور بے گناہ شہریوں کے مرنے کی خبریں ملتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونامہ کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ میں سویلین افراد کی ریکارڈ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس سال مئی میں عالمی افواج کے اخراج کے بعد ان ہلاکتوں میں زبردست تیزی آئی ہے۔

یوں گویا لاشیں تو افغان روز ہی دفن کرتے ہیں مگر گذشتہ ہفتے ہونے والی عید کے دن انہوں نے اپنی مسکراہٹیں بھی دفن کیں: اس روز قندھار کے معروف کامیڈین نذر محمد المعروف خاشہ زوان کو طالبان نے گھر سے اغوا کیا اور جان سے مار ڈالا۔

وہ کلپ تو رائرل ہو چکا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی میں لے جاتے ہوئے ایک طالب ان کے منہ پر طمانچہ رسید کرتا ہے (اب ان کی لاش کی بے حرمتی کی ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے)۔

اس بہیمانہ قتل پر افغانستان میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غم و غصے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا بنا ہوا ہے۔ اس واقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افغان نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے بانی ڈاکٹر احمد سرمست نے اپنے ٹویٹ میں لکھا: ”خاشہ زوان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں میں خوشی اور ہنسی بانٹتا تھا…اس کی ہتک در اصل اس خطے کی ثقافت اور آرٹ کی ہتک ہے“۔

سماجی کارکن ڈاکٹر پتونی نے ٹویٹ کیا: ”خاشہ زوان کے منہ پر طمانچہ سارے افغانستان کے منہ پر تھپڑ ہے“۔

یاد رہے پچھلے ایک سال سے یہاں ٹارگٹ کلنگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ صحافی، اساتذہ، مقامی مذہبی رہنما، قبائلی مشران…سب نشانہ بنے ہیں۔

اسی سیاق و سباق میں فری لانس صحافی مالک اچکزئی نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ”انہوں نے خاشہ زوان کو مادڈالا۔ ذرا سوچئے وہ ایک متحرک سول سوسائٹی، فنکاروں، سیاستدانوں، نوجوانوں اور خواتین حقوق کیلئے کام کرنے والوں کو کیسے برداشت کریں گے“۔

طالبان جان بوجھ کر ہر کسی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مقصد لوگوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو محفوظ نہ سمجھے اور اگر کوئی تبدیلی کا خواہش مند ہے اپنے انجام کے لئے تیار ہو جائے۔

افغان جنگ ایک اہم موڑ پر ہے۔ افغان حکومت اور افغان عوام کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ادہر عالمی میڈیا میں طالبان کی بربریت بارے کوئی رپورٹنگ نہیں ہو رہی۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ طالبان کے ساتھ ہے یا افغان عوام کے ساتھ۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔