فاروق طارق
چھ جولائی کو مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ایک پریس کانفرنس میں پیش کی گئی جس میں جج صاحب یہ اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ بلیک میلنگ کے نتیجے میں دیا۔ سات جولائی کو ارشد ملک کی جانب سے تردیدی بیان آ گیا لیکن تردید پر لوگ مشکل سے ہی اعتبار کریں گے۔ اس واقعے سے حکمران طبقات کی جاری آپسی لڑائی کا ایک نیا اور اہم موڑ سامنے آیا ہے۔ انصاف کا ڈھونگ تحریک انصاف کی حکومت میں خوب بے نقاب ہو رہا ہے۔
ویڈیو ریلیز کرنے سے قبل مریم نواز گھبرا رہی تھیں کہ شاید اس پریس کانفرنس کو آف ائیر کر دیا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا مگر حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اس پریس کانفرنس کے فوری بعد مریم نواز کا جواب دیا جائے گا۔
فردوس عاشق اعوان نے البتہ جو طویل جواب دیا وہ آئیں بائیں اور شائیں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جواب تو ان کے پاس نہ تھا البتہ سابقہ الزامات کی ایک طویل فہرست کو وہ دہراتی رہیں۔ تحریک انصاف کی یہ وفاقی ترجمان حکومت کے موثر دفاع کی بجائے اس کی غیر مقبولیت میں اضافہ کرنے کا مسلسل باعث بن رہی ہے۔
ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد حسب توقع تحریک انصاف کے تمام مرثیہ گو میدان میں اتر آئے اور مریم نواز کے خلاف الزامات لگانے والوں کی ایک قطار لگ گئی۔ ان میں ایاز امیر بھی شامل تھے۔ ان کو موقع چاہیے تھا یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جو بھی بات ان کے خلاف سامنے آئے گی اس کا وہ میرٹ دیکھے بغیر آنکھیں کان بند کر کے غیر معقول جواب دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ سب کا اصرار یہ تھا کہ ویڈیو جعلی ہے۔
اس ویڈیو کو جاری کرنے کا وقت بڑا اہم ہے۔ جیل میں نواز شریف کی واپسی کے بعد یہ ویڈیو اس وقت جاری کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے جاری کرنے میں کافی سوچ بچار سے کام لیا گیا۔ وقت کا انتظار کیا گیا۔ تمام مسلم لیگی قیادت کو اکٹھا کیا گیا اور پھر یہ دھماکہ اس وقت کیا گیا جب تحریک انصاف حکومت بجٹ کے بعد عوام اور تاجروں کی شدید نفرت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ تاجروں کی ہڑتالوں کا موسم آتے ہی اس ویڈیو کی ریلیز نے تحریک انصاف کی حکومت کو مزید کمزور اور مسلم لیگی بیانیے کو مزید مضبوط کیا ہے۔
یہ ویڈیو رانا ثنااللہ کے خلاف 15 کلو ہیروئین رکھنے کے الزام میں گرفتاری کا جواب بھی تھا۔ شاید ہی اس قدر بھونڈا مقدمہ کسی نے اپنے سیاسی مخالف کے خلاف درج کیا ہو جتنا رانا ثنا کے خلاف کیا گیا ہے۔ مسلم لیگی قیادت کو یہ تحریک انصاف کا ایک پیغام تھا کہ ہم ہر سطح تک گر سکتے ہیں۔
مریم نواز نے یہ درست کہا کہ اس ویڈیو کی ریلیز سے جو کچھ دیوار کے پیچھے ہوتا ہے وہ میں سامنے لے آئی ہوں۔ سرمایہ داری نظام میں جو سامنے نظر آتا ہے وہ ضروری نہیں درست ہو۔ وہ تو ایک تصویر ہوتی ہے جو منصوبے کے مطابق پیش کی جاتی ہے۔ حقیقت میں تو اس تصویر کو سامنے لانے کا بھی ایک پس منظر ہوتا ہے جسے جانچنا لازمی ہے۔
یہ تو ہم شروع سے لکھتے آئے ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے اہم حصوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ اب کسی صورت مسلم لیگ ن کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی پوری تیاری کی گئی۔ تحریک انصاف اور منہاج والوں کے دھرنے سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ ایمپائر کی انگلی اس وقت تو نہ اٹھ سکی مگر وہ انگلی اٹھنے کے لئے تڑپتی رہی اور تیاری میں مصروف رہی۔
پس پردہ جو منصوبہ تیار کیا گیا اس میں نواز شریف کو مقتدر قوتوں کو چیلنج کرنے پر سبق سکھانا بھی شامل تھا۔ مگر مسلم لیگ حکومت کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، بڑے ترقیاتی منصوبوں اور نسبتاً مستحکم معاشی صورتحال نے ان کی مقبولیت میں کمی نہ ہونے دی۔
پس پردہ کھیلے گئے کھیل میں کافی مشکل پیش آئی۔ عدلیہ کا سہارہ لینا پڑا۔ اس کام کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا‘ یہ ویڈیو اس سارے کھیل کی عکاسی کرتی ہے۔
جیسے ہی ریاست کے کچھ ستونوں میں آمرانہ روش اور فسطائی رحجانات نے تیزی اختیار کی‘ جبر کے اقدامات اس کی عکاسی کرتے نظر آئے۔ کچھ حکومت مخالف صحافیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ٹوئٹر مہم نے صحافی برادری کو بھی متنبہ کیا ہے۔ تاہم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اسلام آباد میں اجلاس کے بعد فوجی ترجمان کی جانب سے اس ٹوئٹر مہم کی مخالفت میں بیان جاری ہوا۔ یہ بھی شاید اس ویڈیو کا اثر تھا۔
یہ ویڈیو لیک پس پردہ کام کرنے والوں کے لئے بھی ایک تنبیہ ہے اور وہ اب مزید محتاط رہ کر یہ کھیل کھیلیں گے۔ یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہوا۔ یہ غیر معمولی واقعات ہیں جن کا رد عمل بھی غیر معمولی ہو گا۔
یہ ویڈیو وہ گند باہر لے آئی ہے جو ابھی تک پوشیدہ تھا۔ اب اس کا تعفن کافی دیر تک پھیلتا رہے گا۔