راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستان کی وفاقی حکومت نے 3 سالہ اقتدار کے دوران عوامی قرضوں میں 14.9 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا ہے جو کہ گزشتہ حکومت کے 5 سالوں میں حاصل کئے گئے مجموعی قرض کے سے 140 فیصد زیادہ ہے۔
’ایکسپریس ٹربیون‘ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سالانہ قرضوں کے بلیٹن کے مطابق رواں سال جون تک عوامی قرض بڑھ کر 39.9 ٹرلین روپے ہو گیاہے جس میں گزشتہ 3 سالوں کے دوران 14.9 ٹرلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
جولائی 2018ء سے جون 2021ء تک کل عوامی قرضوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ہر سال اوسط 20 فیصد تک کا ناقابل برداشت اضافہ ہے۔ صرف 3 سالوں میں 14.907 ہزار ارب کا عوامی قرضوں میں اضافہ مجموعی عوامی قرض کے 82 فیصد کے برابر تھاجو پیپلزپارٹی (2008-2013ء) اور مسلم لیگ ن (2013-2018ء) کی گزشتہ دو حکومتوں نے 10 سالوں میں حاصل کیا۔
مرکزی بینک کی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ مالی سال 2018-19ء سے 2020-21ء تک کے تازہ اضافے کے ساتھ 30 جون 2021ء تک مجموعی عوامی قرض 39.9 ہزار ارب روپے یا جی ڈی پی کا 83.5 فیصد ہو گیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے عوامی قرضوں میں روزانہ اوسط 13.6 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے جو گزشتہ حکومت میں روزانہ اوسط 5.8 ارب روپے اضافے سے دگنا ہے۔
جب مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی تب کل عوامی قرض 24.95 ہزار ارب روپے تھا جو کہ جی ڈی پی کے 72.5 فیصد کے برابر تھا۔ صرف 3 سال میں یہ جی ڈی پی کے 83.5 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے، معیشت اور ملک کی خارجہ پالیسی کیلئے بہت بڑے خطرات کا باعث ہے۔
فروری 2019ء میں وزیراعظم عمران خان نے عوامی قرض کو 20 ہزار ارب روپے تک لانے کا عزم کیا تھا، وہ سابقہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں پر بہت تنقید کرتے تھے اور انہوں نے 10 سالوں میں قرضوں کے ذخیرے میں 18 ہزار ارب روپے کی وجوہات کی تحقیقات کیلئے قرض انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔ تاہم انکوائری مکمل ہونے کے باوجود وزیراعظم نے رپورٹ جاری کرنے سے روک دی تھی۔
قرض میں اضافہ آمدن اور اخراجات میں فرق کا براہ راست نتیجہ ہے جو کہ ڈیٹ سروسنگ اور دفاعی اخراجات میں عدم استحکام اور ایف بی آر کی آمدن کو پائیدار سطح تک بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کرنسی کی قد رمیں کمی بھی قرض میں اضافے کا باعث بنی۔
دوسری طرف پاکستان کا کل قرض اور واجبات بھی گزشتہ تین مالی سالوں میں 18 ہزار ارب روپے کے اضافے کے ساتھ ریکارڈ 47.8 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ملک کے کل قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 100.3 فیصد تک پہنچ گئے ہیں، 3 سال پہلے یہ تناسب 86.3 فیصد تھا۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کا کل داخلی قرضہ بڑھ کر 26.2 ہزار ارب روپے ہو گیا ہے جس میں گزشتہ 3 مالی سالوں میں 9.9 ہزار ارب روپے یا 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ حکومت کے اختتام پر داخلی قرضہ 16.4 ہزار ارب روپے تھا۔
وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ بھی گزشتہ 3 مالی سال میں 60 فیصد اضافے کے ساتھ 12.4 ہزار ارب روپے ہو گیا ہے۔ بیرونی قرضوں میں 4.6 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ کرنسی کی قدر میں کمی اور قرض کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی تعمیر ہے۔
گزشتہ دور حکومت کے اختتام پر کل بیرونی قرضہ 7.8 ہزار ارب روپے تھا۔
واضح رہے کہ 12.4 ہزار ارب روپے کے بیرونی قرض میں ذخائر کی تعمیر اور کرنسی کے تبادلے کے انتظامات کیلئے حاصل کئے گئے قرضے شامل نہیں ہیں، یہ قرضے مرکزی بینک کی ذمہ داری ہیں۔
جون 2021ء تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 152.3 روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو کہ جون 2018ء میں 121.54 روپے فی ڈالر کے برابر تھی، جس میں تقریباً 36 روپے یا 29.4 فیصد کی بڑی کمی ظاہر ہوئی ہے۔ موجودہ وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 166 روپے فی ڈالر کے ارد گرد ہے۔
رپورٹ کے مطابق کل بیرون قرض اور واجبات جو کہ تین سال قبل 95.2 ارب ڈالر تھے، اب ریکارڈ 122.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں 27 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور صرف ایک سال میں بیرونی قرضے میں 9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ گزشتہ پانچ سالہ دور میں بیرونی قرضوں میں مجموعی طور پر 34 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔
بیرونی قرض، جو وفاقی حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے، جون 2018ء میں 75.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر رواں سال جون میں 95.2 ارب ڈالر ہو گیا ہے، 3 سالوں کے دوران قرض میں 20 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق آئی ایم ایف کا قرض جو تین سال پہلے 6.1 ارب ڈالر تھا، اس سال جون تک بڑھ کر 7.4 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
بڑھتے ہوئے قرضوں کا براہ راست نتیجہ ڈیٹ سروسنگ کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہے، جون 2018ء میں ملک نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور سروسنگ کی مد میں کل 7.5 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، یہ لاگت اب بڑھ کر 13.4 ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ تین سالوں میں 79 فیصد اضافہ ہے۔ تاہم یہ ادائیگی نئے قرضے حاصل کر کے ہی کی جاتی ہے۔
ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تین چوتھائی اضافہ ہوا ہے، اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے نئے قرضے لیکر زرمبادلہ کے ذخائر تعمیر کرنے کا فیصلہ ہے۔