تاریخ

’بابائے سوشلزم‘ ایک اصول پسند سیاستدان تھے

ڈاکٹر مظہر عباس اور ڈاکٹر محمد ابرار ظہور

پاکستان میں سیاست کو ہمیشہ ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جہاں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان، دونوں، کسی نظریاتی رجحان پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کے بجائے فائدہ مند مواقع تلاش کرتے ہیں۔ نظریے اور اصولوں سے چلنے والی سیاست بہت کم رہی ہے۔ اکثر نظریہ اور اصول ذاتی قلیل مدتی اور معمولی فائدے کے لئے نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لئے ذاتی فائدے کے لئے کسی پارٹی کو دوسری پارٹی کے لئے چھوڑنا ملک کے سیاسی کلچر میں ایک استثنا سے زیادہ معمول ہے۔

شیخ محمد رشید (1915-2002ء)، جنہیں بابائے سوشلزم کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سب سے مستثنیٰ تھے۔ زیادہ تر بڑے سیاسی رہنماؤں کے برعکس وہ زندگی بھر اپنے سوشلسٹ نظریے اور اصولوں پر کاربند رہے۔ انہیں نہ تو منافع بخش پیشکشوں کے ذریعے خریدا جا سکا اور نہ ہی دھمکیوں کے ذریعے ڈرایا جا سکا۔

شیخ محمد رشید کے خیال میں سماجی اداروں کی ترقی قدرتی طور پر سوشلزم کی طرف لے جاتی ہے بشرطیکہ ہم بھی اس کی کامیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح انھوں نے انقلاب کے ذریعے کوشش کرنے کی بجائے اصلاحات کے ذریعے سوشلسٹ جمہوریت لانے کے لئے کاوش کی۔ لہٰذا وہ اپنے نظریاتی رجحان سے دستبردار ہوئے بغیر مختلف کسان تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا حصہ رہے۔

انھوں نے کافی زیادہ سیاسی جماعتیں تبدیل کیں لیکن ان نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جن کی وہ وکالت کرتے تھے حالانکہ انھیں نوابزادہ لیاقت علی خان، میاں افتخار الدین اور غلام مصطفی کھر جیسے قدآور لوگوں کی مخالفت بھی کرنی پڑی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کے بیک وقت پاکستان کے وزیر اعظم اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر بننے کے اقدام کی مخالفت ہی شیخ محمد رشید کی مسلم لیگ سے جبری استعفیٰ کا باعث بنی۔ انھوں نے دلیل دی تھی کہ لیاقت علی خان بیک وقت حکومت اور پارٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قدم ایک طرف مسلم لیگ کے آئین کی خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف سوشل ڈیموکریسی کو فروغ دینے کے بجائے طاقت کے ارتکاز کی ایک مثال قائم کرے گا۔

مسلم لیگ سے مستعفی ہونے کے بعد رشید نے 1950ء میں سردار شوکت حیات خان، میاں محمود علی قصوری اور میاں افتخار الدین کے ساتھ مل کر آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی جسے بعد میں اپنے شریک بانیوں سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے چھوڑنا بھی پڑا۔ مثال کے طور پر، افتخار الدین نے خان عبدالغفار خان کو پارٹی میں لانے کی کوشش کی۔ اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے رشید نے 1954ء میں پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ خان کی سیاست سوشلسٹ اصولوں کے بجائے لسانی اور نسلی بنیادوں پر مبنی تھی۔

شیخ محمد رشید پاکستان پیپلز پارٹی، جس کی بنیاد 30 نومبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر رکھی گئی تھی، کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسان کمیٹی نے پی پی پی میں شامل ہونے کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے اس یقین دہانی پر کیا تھا کہ غیر حاضر زمینداری کا خاتمہ اور کوآپریٹو فارمنگ کو متعارف کرانا پارٹی کے منشور کا حصہ ہو گا۔ فاؤنڈیشن اور پالیسی دستاویز کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن کے طور پر انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ منشور سماجی مساوات پر مبنی ہو۔

اگرچہ پی پی پی پر ابتدا میں بائیں بازو کے سیاست دانوں اور کارکنوں کا غلبہ تھا تاہم، زمیندار اشرافیہ جلد ہی پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ پارٹی میں شامل ہونے کے بعد ان میں سے کئی زمینداروں کو پارٹی میں اہم عہدے دئیے گئے۔ مثال کے طور پر، جنوبی پنجاب کے ایک زمیندار غلام مصطفی کھر کوپی پی پی پنجاب کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ تاہم، پارٹی میں زمینداروں کے مفادات کا دفاع کرنے والوں کا اثر و رسوخ بھی پی پی پی پنجاب کے صدر رشید کو زمیندار اشرافیہ کو پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں متوسط یا نچلے طبقے کے اراکین کی ایک بڑی تعداد پنجاب سے اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئی تھی۔

کسانوں کے حقوق کے حامی ہونے کے ناطے رشید نے بھٹو سے کہا کہ خوراک، زراعت اور زرعی اصلاحات کی وزارت وہ انہیں سونپ دیں۔ اس کے برعکس، زمینداروں کے مفادات کی مخالفت کی وجہ سے انھیں صحت کی وزارت سونپی گئی کیونکہ زمینداراچھی طرح جانتے تھے کہ رشید ایک سوشلسٹ تھے اور زرعی اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ وزیر صحت کی حیثیت سے رشید نے جنیرک نیم اسکیم متعارف کروائی جس کو ڈاکٹروں، غیر ملکی ادویات بنانے والوں اور ان کے مقامی شراکت داروں، فارماسیوٹکس کے ایجنٹوں اور سول اور ملٹری ڈرگ ڈیلرز کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے جرات مندانہ موقف اور مخالف عناصر کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے سزا کے طور پر ان کو صحت کی وزارت سے ہٹا کر وزارت خوراک، زراعت اور زرعی اصلاحات کا قلمدان سونپا گیا جس کی انھوں نے پہلے خواہش اور درخواست کی تھی۔

انھیں نہ صرف وزارت کا قلمدان سونپا گیا بلکہ ساتھ ساتھ فیڈرل لینڈ کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا۔ اس کمیشن کے اراکین کو عدالتی اختیارات دئیے گئے اور صوبائی لینڈ کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر نظرثانی کرنے کا اختیار دیا گیا۔ علاوہ ازیں، انھیں لینڈ ریفارمز کے کسی بھی معاملے کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے اور ان کا جائزہ لینے کا اختیار بھی دیا گیا۔ خلاف ورزیوں سے متعلق اپیلوں اور درخواستوں کا انتظار کرنے کے بجائے رشید نے از خود کارروائی کی اور کئی زمینداروں سے زمینیں حاصل کر لیں۔ لینڈ ریفارمز کے نفاذ میں ان کے فعال کردار کی وجہ سے زمیندار اشرافیہ اس قدر ان کے خلاف ہو گئے کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا ڈالا۔ تاہم، بھٹو کی بروقت مداخلت کے باعث وہ بال بال بچ گئے۔

نظریے اور اصولوں پر کاربند رہنے کی وجہ سے نہ صرف انھیں پارٹی کا عہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ انھیں عام انتخابات میں پارٹی نے ٹکٹ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ 1980ء کی دہائی میں جلا وطنی کے دوران انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ پارٹی کی تنظیم سازی اور قومی سیاست میں کارروائی کے سلسلے میں اختلافات پیدا کر لئے تھے۔ خاص طور پر ان اختلافات اور ان کے سوشلسٹ نظریے کی وجہ سے بے نظیر نے انہیں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ اس کے باوجود وہ پیپلز پارٹی میں ہی رہے حالانکہ وہ کسی اور پارٹی میں شامل ہو کر رکن اسمبلی اور وزیر بن سکتے تھے۔

ایک اصلاح پسند سوشلسٹ (ریفارمسٹ سوشلسٹ) کے طور پر رشید کو آج بھی بابائے سوشلزم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے سوشلسٹ جمہوریت کے قیام کے لئے انقلاب کے بجائے اصلاحات کا راستہ اختیار کیا۔ 12 ستمبر 2002ء کو ان کی موت نے ایک طویل اور باوقار جدوجہد کا خاتمہ کیا۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔

Dr. Muhammad Abrar Zahoor
+ posts

ڈاکٹر محمد ابرار ظہور نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور یونیورسٹی آف سرگودھا میں شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان کے چیئرمین ہیں۔