مجیب خان
’سریلی آبشار‘ گاؤں کی اکلوتی آبشار تھی۔ اس آبشار کا مسکن فقیر پور گاؤں تھا۔ فقیر پور گاؤں کے خدوخال اور ظاہری عکس سے پیالہ نما گماں کیا جا سکتا ہے، چونکہ یہ گاؤں چاروں طرف سے قدرے کم بلندی کے پہاڑوں کی آغوش میں زندگی کے میلے سجائے قدرت کا نمائشی منصوبہ دکھتا تھا۔ سریلی آبشار گاؤں کے نکڑ پر واقع ایک پہاڑ سے گرتی تھی۔ آبشار کے گرتے ہوئے پانی کی رہنمائی میں مختلف نالیاں بنائیں گئیں تھیں، جو بلندی سے گرتے ہوئے پانی کو سرسوں کے کھیتوں کی سیر کراتیں اور کھیتوں کو زندگی بخشنے والے اس پانی کی عزت افزائی کے لیے سرسوں کے لہلہاتے کھیتوں کی ہوا اسے حسین موسیقی سے محظوظ کرتی۔
سریلی آبشار کے قریب کچھ ہی فاصلے پر فضلو دادا کی چائے اور پکوڑوں کی چھپر نما دکان تھی، جو اکثر راہ گیروں اور گاؤں والوں کی موجودگی سے پر رونق ہوا کرتی۔ گاؤں کے لوگ یہاں بیٹھ کر اخبار پڑھتے اور تبصرے کرتے۔ اسی دکان کے عقبی چبوترے پر بلا کی سنجیدگی سجائے ہوئے شاہ زاد معمول کی طرح گہری فکر میں بیٹھا ہوا تھا۔ چوڑی پیشانی، لمبی ناک اور گھنگھریالے بالوں کا مالک یہ نوجوان مشرقی حسن کے تمام پیمانوں میں پورا تھا۔ ایک نسوانی آواز نے اس کے گہرے فکر میں خلل ڈالا اور شاہ زاد آواز کی سمت متوجہ ہوا؛
”شاہ زاد کب سے میں تمھیں آوازیں دے رہی ہوں“
ایک پر اسرار قسم کی مسکراہٹ شاہ زاد کے چہرے پر بکھر گئی، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا وہ پھر سے گویا ہوئی؛
”کیا تم کوئی نئی غزل سنانے والے ہو؟ اور یہ شہر سے آنے کے بعد تم زیادہ ہی پراسرار ہوتے جا رہے ہو؟“
”نہیں میں سریلی آبشار کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس آبشار کے نام میں ایک عجیب مخمصہ ہے۔ آبشار کی ظاہری خوبصورتی، بصری خوبصورتی ہے، جس کا تعلق آنکھوں کو لطافت بخشنے سے جڑا ہوا ہے جبکہ اس کا نام سماعتی حسن کا عکاس ہے۔ شاہ زاد نے فوراً جواب دیا۔
عائشہ کو یہ بات انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوئی اور انتہائی سنجیدگی سے سننے کے باجود وہ ہنسی نہ روک سکی اور اس گہری فکر کو مسکراہٹ کے پرے اڑا تے ہوئے گویا ہوئی؛
”کیوں اس کا کیا نام ہونا چاہیے تھا؟ تم بھی تو اسی سریلی آبشار کی طرح فقیر پور میں رہنے والے شاہ زاد ہو؟ کیا یہ عجیب نہیں لگا تمھیں؟ فقیروں کی بستی میں شاہ زاد کیسے جنم لے گیا؟ تمہارے والدین کو تمہاری طرح فلسفیانہ بیماری نہ تھی، معلوم نہیں انہوں نے تمہارا اتنا غیر منطقی نام کیوں رکھ دیا؟“
اپنی ہی بات پر حسب معمول اس نے قہقہہ لگایا اور اس قسم کی بے باکی اس کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھی اور ہوتی بھی کیوں نا…؟
عموماً بچپن کی سنگتیں سماجی گند سے بالاتر رویوں پر پروان چڑھی ہوتی ہیں اور شہر کی نسبت گاؤں میں سماجی مرتبوں میں اتنی زیادہ تفریق نہیں ہوتی۔ مشترک طبقاتی تعلق اور پیٹی بورژوا رجحانات کی عدم موجودگی تعلقات اور رشتوں کی فکری ساکھ کو متاثر نہیں کرتی۔
”اس کے نام پر اتنا سر کھپانے سے بہتر تھا اس کی خوبصورتی کو محسوس کیا جائے۔“
”نہیں حقیقی سرور حاصل کرنے کے لیے گہرائی کو پرکھنا انتہائی لازمی ہے۔ ظاہری حسن کے باطن کی خوبصورتی سے تعلق کو جانچنا حسن و قدر کے عظیم ملاپ کو جنم دیتا ہے۔ یہاں پر اخلاقی پیمانوں کو ہمیشہ نظر اندازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور…“
”بس کر دو اب بہت ہو گیا، تمہیں ابا جان نے بلایا ہے۔ میں تمہارے گھر گئی تھی تو پتا چلا کے تم یہاں بے پرکی اڑا رہے ہو، گاؤں والے تو ویسے بھی اب تمہاری باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔“ عائشہ نے شاہ زاد کو دوران گفتگو ٹوکتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بتایا۔
ایک زور دار قہقہے کے بعد وہ واپس پلٹ گئی اور شاہ زاد کی نگاہیں اس کے تعاقب میں منظر غائب ہونے کے بعد واپس سریلی آبشار کی طرف پلٹ گئیں۔
شاہ زاد کا شمار گاؤں کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں ہوتا تھا اور وہ ایک منجھا ہوا لکھاری ہونے کی حیثیت سے بھی پہچان رکھتا تھا۔ شہر میں ملازمت کی تلاش میں ایک سال ڈگریاں اٹھائے ہر قسم کی ذلت اور خواری کاٹنے کے بعد اس کی سنجیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا کیونکہ والدین کی انتھک کوششوں نے اس کو اعلیٰ تعلیم کے قابل بنایا تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کے ماں باپ کی بوڑھی آنکھوں میں بسنے والے خوابوں کے بے رحمانہ قتل کو وہ اپنے تئیں ہزاروں کوششوں کے باوجود نہیں روک سکتا تھا۔ ہر طرح کی مایوسی، حسرتوں کا قتل، محرومی اور بہتر زندگی کی خواہش کے اندھیرے میں امید کا کمزور جلتا ہوا چراغ روشنی کی بجائے اندھیرے کو مزید وحشی بنا دیتا ہے۔
شاہ زاد کی تحریروں میں چیختی مایوسی میں روز بروز اضافہ ہو تا جارہا تھا اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی، کیونکہ ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربات کی عملی عکاسی، الفاظ کو شفاف اور پر امید نہیں بنا سکتی تھی۔ نوجوانی کے عہد میں جب اعصاب ہر قسم کی چاشنی اور لطافت کو اپنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں، لیکن محرومیاں منہ چڑا رہی ہوں،توایسی حالت میں بیگانگی اور مایوسی کا اظہار کرنا ایک فطری ردعمل ہوتاہے۔
جس شام شاہ زاد کو عائشہ کے والد سے ملنے جانا تھا، اسی شام گاؤں کی کچی سڑک پر جیپ کے سفر میں حادثے کے دوران اس کے والدین کی موت ہو گئی۔ بیچارہ بوڑھا کرم دین اور اسکی بیوی اختر جان، معمولی زخموں سے بہنے والے خون کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔
شاہ زاد ایک سکتے کے عالم میں تھا اور گاؤں والوں نے چند دن روایتی ماتم جاری رکھا۔ اس حادثہ کے کچھ دنوں کے بعد شاہ زاد کسی کو نظر نہ آیا۔ چند دنوں تک گاؤں والوں نے مختلف چہ مگوئیاں ضرور کیں مگر پھر واپس اپنی مصروف زندگیوں میں مشغول ہو گئے۔
فضلو چاچا کی دکان کا عقبی چبوترہ اب ویران تھا، لیکن عائشہ ہر بار اس چبوترے کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک لاحاصل امید بھری نگاہوں سے اس پر نظریں ڈالتی اور ہر بار مایوسی اس کے انتظار اور بے قراری کا تمسخر اڑاتی۔
ایک دن جب وہ کالج سے واپس پلٹ رہی تھی تو اس نے فضلو چاچا کی دکان سے پکوڑے خریدے، جو اخبار کے ٹکڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔ گھر جا کر جب اس نے اخبار کو کھولا تو بے دھیانی میں اس کی نظر اخبار کے اس حصے پر پڑی، جس پر موٹے الفاظ میں شاہ زاد کا نام لکھا تھا۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور اس کی نظریں تیزی سے الفاظ پر گھومنے لگیں۔
”چلتے پھرتے مردوں کا ہجوم ہر سو پھیلا ہوا ہے، کہیں بھی زندگی کی رمق موجود نہیں ہے۔ خواہشات ہر جگہ سر اٹھاتی ہیں، جذبات مچلتے ہیں، محبتیں پنپتی ہیں اور اگلے ہی لمحے ان کا بے رحمی سے قتل ہو جاتا ہے۔ چمک دمک سے چندھیا جانے والی آنکھیں، ہجوم کے اندر کا کھوکھلا پن اور مایوسی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ مصنوعی پن اور جھوٹ کی آوازوں کے عادی کان کربناک چیخوں کو سننے سے عاری ہیں۔“
”لاشعوری طور پر اپنے ہی نظریے سے منحرف عمل پر مبنی زندگی اورخیالی وبے عمل نظریات اور خیالات کی تبلیغ سے شخصیتوں کے اندرونی تضادات کی ایک قابلِ رحم فضا ہر سو قائم ہے۔ ایک بے وجہ قسم کی دوڑ اور نفرتوں بھری گھٹیا مقابلہ بازی ہر سو جاری ہے۔ نفرت، دشمنی، دھوکہ، لالچ، خودغرصی، بیگنانگی اور سب سے بڑھ کر جھوٹی انا پرستی کی وبا نے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا۔ کوئی بھی معالج اس وبا کی ویکسین تیار نہیں کرنا چاہتا۔ زندگی بند کمروں کے اندر موبائل کی سکرین تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حقیقی خوشیاں اور خالص انسانی رشتے، جن کی رہنمائی لطیف انسانی جذبات کرتے ہیں، وہ سب مٹ چکے ہیں۔ ذات پات، نسل، رنگ اور قبیلے کی تقسیم ہے۔ شناحت کے بحران نے ایک پوری نسل کو تباہ کیا ہوا ہے۔ برتری اور کمتری کا احساس انسان کی روح تک کو چھلنی کرتا ہے۔ کسی مخصوص معروض میں، کسی مخصوص قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا انسان کا جرم ہے اور یہ وہ جرم ہے جو اس کی مرضی کے خلاف اس پر مسلط کیا جاتا ہے۔ کہاں پیدا ہونا ہے یا کہاں نہیں یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ہر چیز کے اندر مصنوعی پن ہے، جس طرح شیکسپیئر نے کہا تھا ’یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں‘۔“
اس سے آگے درمیان کا حصہ پکوڑوں کے تیل کی وجہ سے پڑھنے کے قابل نہیں تھا اور اس کے بعد آخری سطور قدرے واضح تھیں۔
”ہم کو ایسا مستقبل تراشنا ہو گا، ایک شاندار مستقبل جہاں ہم مایوسی کو دیکھ نہیں سکیں گے اور یوں اس کو لکھیں گے بھی نہیں۔ ایک خوشگوار مستقبل جہاں امن اور خوشی کے گیت ہوں گے۔ ماضی کی تلخ یادوں سے آزادی اور مستقبل کی فکر سے نجات ملے گی۔ میرے خیال میں میرے گاؤں کی سریلی آبشار کی خوبصورتی کو حال میں زندہ رہ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آنسوؤں بھری آنکھیں، سریلی آبشار کے منظر کو دھندلا کر دیتی ہیں۔“
اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور نئی آنکھیں لیے سریلی آبشار کی طرف چل دی تاکہ آبشار کے حسن کو دیکھ سکے۔