پاکستان

جمہوریت کی بقا و آئین کی بالادستی یا طاقت کی رسہ کشی

حارث قدیر

پاکستان میں آئینی اور سیاسی بحران ایک ایسی کیفیت میں پہنچ چکا ہے کہ جس کے نتائج کے حوالے سے صرف امکانات ہی کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونے والے واقعات کے بعد کسی بھی امکان کو یقینی قرار دیا جانا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن آئین کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ پر سراپا احتجاج تو ہے، تاہم عدالتوں کے ذریعے سے انصاف کی منتظر ہے۔ دوسری طرف حکمران تحریک انصاف تحریک عدم اعتماد سے فرار اختیار کرنے سے اسمبلی توڑنے اور نگران وزیر اعظم کے نام کی تجویز تک آئین اور قانون کو روندھنے کی اپنی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

بظاہرشہری اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدے کے طور پر پیش کیا جانے والا آئین ایک طبقاتی نظام میں حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کی دستاویز کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آئین کو محنت کش طبقے کو حکمران طبقے کے تابع رکھنے، دبانے اور کچلنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جب بھی بحران گہرا ہوتا ہے تو حکمران طبقات کے آپسی تصادم میں یہ آئین کی دستاویز بے معنی ہو کر عبرت کا نشان بنا دی جاتی ہے۔

اسی طرح طبقاتی نظام میں جمہوریت بھی ایک ایسی مراعات ہوتی ہے جس سے محنت کش طبقے کو مستفید ہونے کا حق ترقی کے ادوار میں ہی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ بحرانی کیفیت میں یہ مراعات چھین لی جاتی ہیں۔ فسطائیت اور آمریت کا راستہ اپناتے ہوئے محنت کش طبقے کی روح اور احساس تک کو کچل دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں شہری درمیانے طبقے کی تحریک کے زور پر مقبولیت حاصل کرتے ہوئے اقتدار پر پہنچنے والی عمران خان کی تحریک انصاف کا سب سے مقبول نعرہ کرپشن کا خاتمہ اور آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا تھا۔

تاہم اقتدار میں آنے کے طریقے سے لے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے اسمبلی توڑنے اور نگران وزیر اعظم کے نام کی تجویز تک کوئی ایک کام آئین اور قانون کو پاؤں تلے روندھے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ کرپشن کا خاتمہ محض اپوزیشن رہنماؤں کو بے معنی کیسوں میں جیلوں میں ڈالنے تک ہی محدود رکھا گیا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد کرپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ اب پی ٹی آئی کے اپنے منحرف رہنما پنجاب میں ٹھیکوں سے تقرریوں اور تبادلوں تک میں ہونے والی کرپشن اور رشوت خوری کے خوب چرچے کر رہے ہیں۔

سب سے بڑھ کر تحریک انصاف نام نہاد قانون کی حکمرانی (جو تاخیر زدہ سرمایہ داری کے ہوتے پسماندہ ملک میں ممکن ہی نہیں ہے) کا جنازہ نکال کر عمران خان اور ان کے کچن کابینہ کے افراد بغلیں بجا رہے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک جشن منانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ جس آئین کی بالادستی قائم کرنی تھی، اس کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد فتح کے جشن منانے اور تصادم آرائی پر لوگوں کو اکسانے کی مسلسل کوششوں نے یہ عیاں کر دیا کہ تحریک انصاف اور عمران خان بھی اسی نظام کا ہی نہ صرف ایک چہرہ تھا بلکہ ایک بھیانک چہرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

اپوزیشن بھی جمہوریت کی بالادستی کیلئے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر تحریک کو منظم کرتے کرتے فیصلہ کن مرحلہ میں عدالتوں کے پیچھے چھپنے پر ہی مجبور ہو کر یہ ثابت کر رہی ہے کہ حکمران طبقات آخری تجزیے میں اپنے نظام کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اقتدار کی حوس اور لوٹ مار میں حصہ داری کیلئے ہی جمہوریت کی مضبوطی، آئین اور قانون کی حکمرانی کی لفاظی کو استعمال کر کے محنت کش طبقے کی امنگوں کی سوداگری کی جاتی ہے۔

اپوزیشن کے پاس یہ ایک وقت تھا کہ وہ عوام کے پاس جائیں، ریاست اور شہری کے مابین قائم عمرانی معاہدے کے تحفظ کیلئے عوامی اور جمہوری طریقہ کار کو اپنائیں۔ تاہم یہ طریقہ کار محنت کش طبقے کو سیاسی میدان میں متحرک کرنے کا موجب بن سکتا ہے، جو حکمران طبقے کے ہی ایک حصے یعنی اپوزیشن کے قابو سے بھی باہر جا کر اس نظام کیلئے ایک حقیقی خطرے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

اپوزیشن نے ماضی قریب میں ہی بار بار ثابت کیا کہ وہ بھی جمہوریت کی محافظ نہیں بلکہ ناقابل اعتبار ہے۔ نواز شریف کے جیل میں ہونے تک ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سمیت عمران خان کو حکومت میں لانے کیلئے ریاست کی مداخلت کی نشاندہی تک کی جاتی رہی۔ تاہم نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت ملنے کے بعد جمہوریت کی یہ جدوجہد ’سلیکٹر‘کی بجائے ’سلیکٹڈ‘کی طرف رخ پھیر گئی۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے موجودہ وقت بھی عدالت کے پیچھے چھپنے کو ہی ترجیح دی ہے۔ اگر عدالت نے حکومت کے اقدامات کو درست قرار دے دیا تو اپوزیشن کا بہت کچھ داؤ پرلگ سکتا ہے۔ تاہم اس نظام کو لاحق خطرے سے بچانے کیلئے یہ نقصان اپوزیشن کیلئے معمولی قرار پائے گا۔ البتہ اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں کو پھر بے یار و مدد گار ہی چھوڑ دیا جائے گا۔

معاشی بحران جس قدر گہرا اور سنگین ہوتا جا رہا ہے، سماجی اور سیاسی بحران بھی اسی قدر گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ریاست دیوالیہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ متضاد اور باہم مشترک مفادات کے حامل دھڑوں میں تقسیم مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بحران جب اس حد تک بڑھ جائے تو آئین، قانون، جمہوریت اور اقتدار کے تمام تر روایتی طریقے اپنی اہمیت اور افادیت کھو دیتے ہیں۔

حکمران دھڑوں نے بظاہر نظر آنے والے تمام تر سیاسی اور آئینی بحران، جو حقیقی معنوں میں ریاستی بحران کا بوجھ ہے، عدلیہ کے سر ڈال دیا ہے۔ عدلیہ بھی یہ بوجھ نا اٹھانے جوگی ہے اور نہ ہی اس بوجھ سے جان چھڑوا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کی حفاظت کرنے والے ادارے کو اس قدر سنگین بحران کے نتائج اور اس کے اثرات کابخوبی اندازہ ہونے کے باوجود آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے اقدامات کیخلاف حکم امتناعی جاری کر کے اس بوجھ کو اپنے سر لینے سے مسلسل کترانے کی کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے۔

تمام تر ریمارکس ڈپٹی سپیکر کے اقدامات کے خلاف دینے کے باوجود 2 روز کی سماعت میں یہ بات طے نہیں کی جا سکی کہ آیا ڈپٹی سپیکر کا تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا۔ اس دوران نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ سامنے آنے اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے ممکنہ فیصلہ سے متعلق مباحثوں سے بات آگے بڑھ کر ریاست کی اندرونی لڑائی سے متعلق افواہوں کے پھیلنے تک پہنچ چکی ہے۔ روایتی میڈیا پر تو محتاط تجزیے اور تبصرے جاری ہیں، تاہم سوشل میڈیا پر سینئر ترین تجزیہ نگار کھل کر ریاست کے اندر لڑائی پر بات کر رہے ہیں۔ سب سے طاقتور ادارے کے اندرونی تضادات کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔

ملکی سالمیت کی بقا، آزاد خارجہ پالیسی، غیر ملکی مداخلت مخالف نعرے بازی اور بھڑک بازی کا عقدہ گھاگ سمجھے جانیوالے دانشوروں کے مطابق محض ایک تقرری کے اختلاف تک چھوٹا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہ درحقیقت متضاد معاشی مفادات کے باعث چھینا جھپٹی میں ملکی معیشت، سیاست اور معاشرت تک کو برباد کر دینے کی ایک پیچیدہ اور مشکل لڑائی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے، جس میں تقرری ایک انتہائی اہم کڑی ضرور ہو سکتی ہے، مگر کل لڑائی نہیں۔

حکمرانوں کی یہ تصادم آرائی محنت کش طبقے کے ذہنوں کو مزید پست، شکستہ اور پسماندہ کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ ابھی تک جو کچھ پاکستان میں ہو چکا ہے، اس کا نظریہ ضرورت کے تحت نکالا جانے والا اس ملک کے اکثریتی محنت کش طبقے کو اس سیاست سے مزید بدظن اور بیگانہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب معاشرے کی اکثریت سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو فسطائیت کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے اقدامات کو کسی بھی سودے بازی کے تحت ملنے والا تحفظ نہ صرف فسطائیت کے ابھار میں ممد و معاون ہو سکتا ہے، بلکہ بڑی طاقت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں لانے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

تاہم تحریک عدم اعتماد کی بحالی اور کامیابی کے ذریعے بھی محض سرمایہ دارانہ لولی لنگڑی جمہوریت کی مضبوطی جیسے اقدامات بھی ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بحران اور ٹوٹ پھوٹ اس قدر گہری ہے کہ کسی بھی سطح کی سودے بازی اور ساز باز کے باوجود جلد یا بدیر یہ تضادات بھڑک اٹھیں گے۔

حقیقی جمہوریت کے قیام کا فریضہ اس ملک میں صرف محنت کش عوام بطور طبقہ سیاست میں متحرک ہوتے ہوئے ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ جب تک طبقات موجود ہیں، طبقاتی نظام حکمرانی ناگزیر ہے اور بحران زدہ نظام میں ریاستی ٹوٹ پھوٹ مسائل میں مسلسل اضافہ ہی کرتی جائے گی۔ محنت کش طبقے کی نجات اس نظام کو اکھاڑتے ہوئے حقیقی مزدور جمہوریت کے قیام میں ہی مضمر ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔