دنیا

بھارتی جموں کشمیر میں فوجیوں سمیت لاکھوں غیر مقامی افراد کو ووٹ کا حق

التمش تصدق

گزشتہ 74 سال میں 1 لاکھ سے زائد کشمیری عوام کا قتل ہو یا پیلٹ گن سے نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنا، تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں ہوں یا پھر نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کرنا، ہندوستانی ریاست کے ظلم و جبر کا کوئی بھی طریقہ کشمیر عوام کی جدوجہد آزادی کو ختم نہیں کر سکا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومتیں بدلنے سے ریاستی پالیسیاں اور حکمران طبقے کے سامراجی عزائم نہیں بدلتے ہیں۔ ایسا ہی ہمیں جموں کشمیر میں نظر آتا ہے جہاں مقامی کشمیری اور ہندوستانی حکومتیں بدلتی رہیں لیکن کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو فوجی جبر کے ذریعے کچلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بھارتی حکمران طبقے نے جہاں کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے وہاں کشمیر کے مظلوم عوام میں بغاوت کے طوفان بھی ابھرتے رہے۔ ہندوستان میں نریندر مودی کی فاشسٹ ہندو بنیاد پرست حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کشمیر عوام پر جبر میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

مودی سرکار نہتے کشمیری عوام کو فتح کرنے کے لیے اور کشمیر میں اپنی فاشسٹ حکومت قائم کرنے کے لیے جبر کی ہر حد پار کر رہی ہے۔ جموں کشمیر میں جاری مزاحمت کو کچلنے کے لیے مودی سرکار اسرائیل کی طرز پر بیرونی آباد کاری کے ذریعے مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت نے5 اگست 2019ء کو دفعہ 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کر کے ریاست کو براہ راست وفاق کے کنٹرول والے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ 5 اگست 2019ء کو ہی انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیم نو بل‘ منظور کیا تھا جس کے مطابق یہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے یا الیکشن لڑنے کے لیے جموں کشمیر کا مستقل باشندہ ہونا لازمی نہیں ہے۔ اس کے 9 ماہ بعد اپریل 2020ء میں جموں اور وادی کشمیر کے لیے ایک نیا قانون اقامت تشکیل دیا گیا، جس نے 1927ء سے لاگو سٹیٹ سبجیکٹ لا کی جگہ لے لی۔

اپریل 2020ء میں بھارت کی وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے، ایک نوٹیفکیشن کے مطابق کوئی بھی شخص جو جموں کشمیر میں 15 سال تک رہائش پذیر رہا ہو یا جس نے یہاں 7 برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور 10 ویں اور 12 ویں جماعت میں کسی ادارے کے امتحانات میں حصہ لیا ہو، وہ ڈومیسائل لینے کا حق دار ہے۔ اس کے علاوہ جموں کشمیر ریلیف اینڈ ری ہبیلٹیشن کمشنر (مہاجر) کے ذریعے تارکین وطن کے طور پر رجسٹرڈ افراد کو بھی اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ ان قوانین کے بعد بڑی تعداد میں غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دئیے جا رہے ہیں۔

2018ء میں بی جے پی نے پی ڈی پی کی حکومت کے ساتھ اتحاد توڑ کر صدارتی راج نافذ کیا تھا، جو اس وقت تک رائج ہے۔ بی جے پی کی حکومت اس وقت تک الیکشن نہیں کروانا چاہتی جب تک وہ اسمبلی میں اکثریت لینے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ اسمبلی میں اکثریت لینے کے لیے بی جے پی ہر جائز اور ناجائز راستہ اختیار کر رہی ہے۔ اس کے لیے غیر مقامی فوجیوں اور نیم فوجیوں سمیت تقریباً 25 لاکھ افراد کو ووٹنگ کا حق دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی انتخابی حلقہ بندیوں میں تبدیلی اور فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں سمیت سبھی عارضی باشندوں کو ووٹنگ حقوق دے کر نہ صرف انتخابی نتائج کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ جموں کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیل کر کے جموں کشمیر کے عوام کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مودی حکومت کے ان فاشسٹ اقدامات کے نتائج مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں، جن کا اظہار غیر مقامی مزدوروں اور سرکاری اہلکاروں کی ٹارکٹ کلنگ کی صورت میں ہو رہا ہے۔ ان اقدامات کے خلاف نفرت کو پاکستانی حکمران طبقہ بھی اپنی پراکسی جماعتوں کے ذریعے اٹھانے کی کوشش کرے گا جس کے لیے مستقبل میں مداخلت کرنے کے حالات مزید سازگار ہوں گے۔ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائی کا نتیجہ جموں کشمیر کے محنت کشوں اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے محنت کشوں کے قتل عام اور خونریزی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کا فائدہ صرف ہندوستانی حکمران طبقے اور جموں کشمیر کی سیاسی اشرافیہ کو ہو سکتا ہے۔ ہندوستان نواز دیگر سیاسی جماعتیں ان اقدامات کی بیان بازی کی حد تک مخالفت کر رہی ہیں اور عدالتی لڑائی لڑنے کا کہہ رہی ہیں یعنی کوئی لڑائی نہ لڑنے کافیصلہ کر چکی ہیں۔ مودی حکومت کے اقدامات نے لبرلوں کے مقدس سرمایہ دارانہ نظام کے ملکی اور عالمی قوانین کی حقیقت سب کے سامنے پہلے ہی آشکار کر دی تھی، جب کروڑوں انسانوں کو بندوق کی نوک پر گھروں میں محصور کیا گیا۔ جموں کشمیر کے عوام کو ان عدلتوں اور قوانین پر کوئی یقین نہیں ہے اور نہ ہی وہ قانونی لڑائی لڑنے والی ان جماعتوں پر یقین کرتے ہیں، جنہوں نے جموں کشمیر کی عوام کی حمایت کو ہمیشہ ہندوستانی حکمران طبقے کے ساتھ سودے بازی اور اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔

مودی حکومت کے متذکرہ بالا ان اقدمات کے پیچھے جہاں اس کے سیاسی مفادات کارفرما ہیں، وہیں ہندوستانی سرمایہ داروں کے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ ہندوستانی سرمایہ دار طبقہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سمیت جموں کشمیر میں سیاحت، زراعت اور باغبانی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ جموں کشمیر میں رائج پرانے قوانین،جن کے تحت کوئی غیر مقامی فرد زمین نہیں خرید سکتا تھا، ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ ہندوستان میں ترقی اور غریبی کے خاتمے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کی حکومت نے سرمایہ داروں کو نوازنے کے لیے انتہائی جارحانہ انداز میں نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا اطلاق کرتے ہوئے قومی اداروں کی نجکاری اور زرعی قوانین میں تبدیلی کے ذریعے زمین، بینکوں اور دیگر صنعتی اداروں کو عالمی اور ملکی سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستانی محنت کشوں اور کسانوں کی انتہائی جراتمندانہ لڑائی نے کئی مرتبہ مودی سرکار کو پسپا ہونے پر مجبور کیا ہے۔

بی جے پی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف ہندوستانی محنت کشوں پر معاشی حملوں میں اضافہ ہے، کشمیری عوام پر جبر میں اضافہ ہوا بلکہ خواتین، مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف تعصب کو بھی بڑے پیمانے میں فروغ دیا گیا۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین بنائے گئے، شہریت کا نیا قانون نافذ کر کے کروڑوں انسانوں کو شہریت سے محروم کیا گیا۔ مودی سرکار کے ان غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کے خلاف مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی، جن میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں عوام نے حصہ لیا ہے۔ انتہائی جراتمندانہ جدوجہد کے باوجود ان تحریکوں کی ایک کمزوری تھی، ان کی کوئی واضح نظریاتی بنیادیں نہیں تھی اور یہ تحریکیں ایک دوسرے سے مکمل کٹی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں تمام بڑی پارٹیاں فاشزم کے مقابلے میں لبرل جمہوریت کو حل کے طور پر پیش کرتی ہیں، جس کی ناکامی نے ہی بی جے پی کی فاشسٹ حکومت کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا۔ مودی حکومت کے فاشسٹ اقدامات کا مقابلہ ہندوستان کے نام نہاد سیکولر آئین کے دفعہ کا راگ الاپنے سے نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے سرمایہ داری کے خلاف انقلابی پروگرام مرتب کرتے ہوئے مزدوروں، کسانوں، مذہبی اور نسلی اقلیتوں، خواتین اور مظلوم قومیتوں کی تنظیموں پر مشتمل متحدہ محاذ کو تشکیل دے کر مشترکہ جدوجہد کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری تحریکوں کو محنت کشوں کی طبقاتی تحریک سے جوڑتے ہوئے متحدہ محاذ کا قیام نہ صرف مودی کی فاشسٹ حکومت کو شکست دے سکتا ہے بلکہ سرمایہ دارنہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے جنوبی اشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے، جس میں نہ صرف کروڑوں محنت کشوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی استحصال سے نجات دلائی جا سکتی ہے بلکہ قومی، نسلی،مذہبی اور صنفی تعصب اور جبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔