سید مجاہد علی
ان دنوں ٹونی عثمان ایک نئے اسٹیج ڈرامہ کی تیاری کر رہے ہیں جسے 13 اکتوبر کواوسلو کے ایک تھیٹر میں نمائش کے لئے پیش کیا جائے گا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہوں نے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جس کے ذریعے وہ معاشرتی ناہمواری سامنے لانے کے علاوہ انسانوں کے درمیان رنگ، نسل و عقیدہ کی بنیاد پر پیدا کی گئی تقسیم کے بارے میں ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالنے کا رادہ رکھتے ہیں۔ ’سو فیصد‘ نام کا یہ ڈرامہ ٹونی عثمان نے نارویجئن ادیب کرستیان استروم اسکاگ کے ساتھ مل کر لکھا ہے جبکہ وہ خود اسے ڈائیریکٹ کررہے ہیں۔
یوں تو ٹونی عثمان کو ناروے میں ایک اچھے اداکار کے بعد ایک اچھے فلم و ڈرامہ ڈائیریکٹر کی شہرت حاصل ہے لیکن حال ہی میں حلقہ ااربابِ ذوق اور آفتاب وڑائچ نے ان کی کتاب ’تاریک ایام‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا جس سے وہ بطور ترجمہ نگار و ادب شناس بھی متعارف ہوئے ہیں۔ یہ کتاب سویڈش ڈرامہ نگار ہینّی مانکل کے سویڈش زبان میں لکھے ہوئے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور اسے چند سال پہلے ٹونی عثمان نے ہی اوسلو میں اسٹیج کیا تھا…چونکہ یہ ایک نامعلوم ملک میں پھنسے ہوئے بے یقینی کا شکار پناہ گزین باپ اور بیٹی کی کہانی ہے لہٰذا ٹونی نے اس ڈرامہ کو نارویجئن کی بجائے اردو زبان میں پیش کیا تھا۔
بعد ازاں اسٹیج ڈرامے کے اس اردو مسودے کو کتابی صورت میں ترتیب دیا گیا جسے لاہور کے فولیو بکس نے خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ مانکل کے ڈرامے کا اردو زبان میں یہ ترجمہ اگرچہ دو برس قبل شائع ہو گیا تھا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث اس کتاب کے تعارف اور ترجمہ نگار کے اعزاز میں کوئی تقریب منعقد نہیں ہوسکی تھی۔ جمعہ 30 ستمبر کو یہ کام خوش کلام شاعر اور بے پناہ محبت کرنے والے دوست آفتاب وڑائچ نے حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام تقریب منعقد کر کے کیا۔
یہ خوبصورت تقریب اوسلو کے ’مین ہیٹن‘ بیورویکا میں واقع مرکزی لائبریری کے ایک خوبصورت ہال میں منعقد ہوئی۔ ہال میں نشستوں کی محدود تعداد کے پیش نظر اس تقریب میں قلیل تعداد میں ہی لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ مرکزی لائبریری کے تمام ہالز میں منعقد ہونے والی تقریبات میں مقررہ تعداد سے زیادہ لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیوں کہ کسی ہنگامی صورت حال یا آگ وغیرہ لگنے کے کسی سنگین وواقعہ کی پیش بندی کے لئے یہ اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ’تاریک ایام‘ کی افتتاحی تقریب میں بھی دو درجن کے لگ بھگ افراد ہی مدعو تھے۔ اس قلیل تعداد کی وجہ سے اگرچہ ایک اہم ترجمہ اور ترجمہ نگار کو وسیع اجتماع تک پہنچنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے سامعین کے درمیان مکالمہ اور ترجمہ نگار ٹونی عثمان کے ساتھ بات چیت کا سیشن بہت بامقصد رہا اور حاضرین کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
اس تقریب کی صدارت کا اعزاز راقم الحروف کے حصے میں آیا۔ اس حیثیت میں ٹونی عثمان جیسے محبت کرنے والے دوست اور فن کی دنیا میں نئی جہتیں تلاش کرنے والے فنکار کے بارے میں بات کرنا آسان کام نہیں تھا۔ مجھ سے پہلے ویژن فورم کے صدر اور ممتا زسیاسی ایکٹوسٹ ارشد بٹ، ٹونی کی فنی خدمات، ان کی انسان دوستی اور مظلوم طبقات کے لئے جد و جہد کے حوالے سے جامع گفتگو کر چکے تھے۔ راقم نے البتہ سامعین کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کروائی کہ ٹونی عثمان نے نارویجئن معاشرے میں پاکستانی نژاد تارک وطن ہونے کے باوجود مشکلات کا بھر پور مقابلہ کیا اور ناروے میں اپنی ایک علیحدہ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔
ٹونی عثمان کم عمر میں ناروے آ گئے تھے۔ انہوں نے اسکول کی عمر سے ناروے میں تعلیم حاصل کی۔ اس طرح انہیں پاکستان کے علاوہ نارویجئن زبان اور ثقافتی و تہذیبی روایات سے شناسائی حاصل ہو گئی۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کوتعصب ختم کرنے کے لئے وقف کیا اور ایک مغربی معاشرے میں تیسری دنیا کے تارکینِ وطن کی شناخت اور جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی مشکلات کی حقیقت پسندانہ تصویر سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ اعزاز بھی ٹونی عثمان ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو نارویجئن معاشرے میں متعارف کروایا اور ان کے لکھے ہوئے افسانوں اور ڈراموں کی بنیاد پر متعدد ڈرامے اسٹیج کئے۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کے علاوہ ’انکل سام کے خطوط‘اس سلسلہ میں بے حد اہم ہیں۔
ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کو آئے ہوئے پچاس برس سے زائد مدت ہوچکی ہے۔ اب یہ نسلی و تہذیبی اقلیتی گروہ کسی حد تک ناروے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے تاہم یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ اس دشوار اور مشکل سفر میں ٹونی عثمان جیسے فنکاروں نے دن رات محنت سے آسانیاں پیدا کیں۔ انہوں نے اپنے کام سے ایک طرف معاشرے کو ان لوگوں کے احساسات و تجربات سے آگاہ کیا تو دوسری طرف تارکین وطن کو بھی ان کی کمزوریوں اور سماجی علتوں کے بارے میں باخبر کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ اس طرح کسی نئے معاشرے میں نئے لوگوں کی آباد کاری کے عمل کو سہل بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ نارویجئن معاشرہ میں پاکستانیوں کی صورت حال کے حوالے سے کمیونٹی کے بہت سے لوگوں نے کردار ادا کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی جبری شادیوں، گھریلو تشدد اور صنفی امتیاز جیسے مسائل پر بات کی اور پاکستانی ثقافت و رویہ میں پائی جانے والی کمزوریوں کا برملا اظہار کیا۔
تاہم ٹونی عثمان کو ایسے لوگوں میں یوں امتیاز حاصل ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کمزوریوں اور سماجی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان عوامل کو چھاننے پھٹکنے کی کوشش بھی کی ہے جن کی وجہ سے یہ رویے جنم لیتے ہیں۔ پھر ان سے مقابلہ کرنے کا راستہ دکھایا۔ ٹونی عثمان اپنے اس منفرد اور ممتاز کردار کی وجہ ناروے میں پاکستانی اقلیت کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی جد و جہد میں ایک باقاعدہ ادارے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے مسلسل معاشرے کومالا مال کر رہے ہیں اور یہاں آباد پاکستانیوں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔