لاہور (جدوجہد رپورٹ) تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے منگل کے روز ایک سابق سرکاری ملازم خاتون کو بادشاہت کی توہین یا بادشاہ کو بدنام کرنے سے متعلق ملک کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 43 سال قید اور 6 ماہ کی سزا سنائی ہے۔
بنکاک کی فوجداری عدالت نے اس خاتون کو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 29 مرتبہ فیس بک اور یوٹیوب پر آڈیو پیغامات کے ذریعے بادشاہت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا قصور وار قرار دیا گیا۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق وکلا اور انسانی حقوق کے گروپ نے بتایا کہ ”عدالت نے ابتدائی طور پر خاتون کو 87 سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن خاتون کے اعتراف جرم کے بعد آدھی سزا کم کر دی گئی۔“
انسانی حقوق کے گروپوں نے اس سزا کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ سزا ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب بادشاہت کے خلاف شدید عوامی تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینئر محقق سنائی فاسوک نے کہا کہ ”آج کا عدالتی فیصلہ چونکا دینے والا ہے اور ایک سنگین اشارہ بھی بھیجتا ہے کہ نہ صرف بادشاہت کے خلاف تنقید برداشت نہیں کی جائے گی بلکہ سخت سزا بھی دی جائے گی۔“
تھائی لینڈ کے اس قانون کو آرٹیکل 112 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی ہر گنتی میں 3 سے 15 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ قانون نہ صرف اس لئے متنازعہ ہے کہ اس کا استعمال فیس بک پر کسی پوسٹ کو پسند کرنے جیسے اقدامات پر بھی سزا دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ محض شاہی خاندان یا انتظامیہ ہی نہیں بلکہ کوئی بھی شخص اس قانون کے تحت شکایت درج کر سکتا ہے اور کئی سالوں تک ملزمان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
تھائی لینڈ میں گزشتہ 15 سالوں کی سیاسی بدامنی کے دوران اس قانون کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ بادشاہت کے خلاف تنقید حالیہ عرصہ میں بہت کم رہی ہے۔
قبل ازیں حکام تبصرے اور تنقید کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے بعد جلد ہی چھوڑ دیتے تھے لیکن گزشتہ سال نومبر کے بعد سے اب تک تقریباً 50 افراد کو گرفتار کر کے آرٹیکل 112 کے تحت کاروائی کا آغاز کیا گیا۔
سنائی فاسوک نے کہا کہ ”ممکنہ طور پر منگل کی سزا ایک پیغام بھیجنا ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ تھائی حکام نوجوانوں کے زیرقیادت جمہوری بغاوت کے ردعمل میں اس قانون کو آخری حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بادشاہ کے اختیارات کو روکنے اور اسے آئینی حکمرانی کے پابند رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تھائی لینڈ کی سیاسی کشیدگی اب بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔“
اپنے والد کی موت کے بعد 2016ء میں شاہ مہاواجرالونگ کورن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں ے حکومت کو مطلع کیا کہ وہ یہ متنازعہ قانون استعمال نہیں کرنا چاہتے لیکن جب گزشتہ سال مظاہروں میں اضافہ ہوا اور بادشاہت کے خلاف سخت تنقید کا عمل شروع ہوا تا وزیراعظم پرتوت چن اوچا نے متنبہ کیا کہ ایک لکیر عبور ہو گئی ہے اور اب اس قانون کو استعمال کیا جائے گا۔