خبریں/تبصرے

’ہمارا جسم تمہاری مرضی‘: 40 فیصد پاکستانی خواتین کو جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کے زیر اہتمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین صنفی بنیاد پر تشدد پر کی گئی بات چیت سے پتہ چلا ہے کہ مختلف مطالعات کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد خواتین اپنی زندگی میں جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔

اس دوران طلاق یافتہ، بیوہ اور علیحدگی پسند خواتین کو شادی شدہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

’جیو‘ کے مطابق این سی ایچ آر کی چیئرمین رابعہ جویری آغاکی زیر صدارت مشاورتی مکالمہ گھریلو تشدد کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں مسلسل اضافے اور ایڈووکیسی، پالیسی اور قانونی مداخلت کیلئے اہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ممکنہ تعاون کے گرد تھا۔

پاکستان کیلئے آخری ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق 15 سے 49 سال کی عمر کی 39 فیصد خواتین، جن کی کبھی شادی نہیں ہوئی تھی، انٹیمنٹ پارٹنر وائلنس (آئی پی وی) کا نشانہ بنی ہیں۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گھریلو تشدد صرف ازدواجی تعلقات تک محدود نہیں ہے۔ شرکا نے گھریلو تشدد کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہر سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے منظم کوششوں پر زور دیا ہے۔

گھریلو تشددکی تعریف خاندان کے کسی فرد کی طرف سے خاندان کے اندر کسی بھی عمل سے کی جاتی ہے، یا ایسا رویہ جس کے نتیجے میں کسی قریبی ساتھی یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کو جسمانی نقصان یا نفسیاتی چوٹ پہنچتی ہے۔

مشاورت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف 2021ء میں پاکستان میں صنفی بنیاد پرتشدد کے 14189 کیس رجسٹر ہوئے۔

شرکا کو قانونی فریم ورک کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی، جیسا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے بنائے گئے تین قوانین بشمول پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016ء، گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ ایکٹ سندھ 2013ء اور گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ ایکٹ بلوچستان 2014ء، جبکہ گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ 2020ء زیر التوا ہے۔

این سی ایچ آر کی چیئرپرسن نے بتایا کہ صوبائی قوانین کے قواعد ابی زیر التوا ہیں۔ سندھ میں گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ ایکٹ سندھ کے تحت پہلی سزا میں چھ سال لگے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ گھریلو تشدد پر قابو پانے میں بنیادی چیلنجز اس کی سماجی قبولیت، ایف آئی آر کے اندراج میں مشکلات، خواتین کی قانونی معلوماتکی کمی اور عدالتی نظام سے خوف کے ساتھ ساتھ لواحقین کی مالی آزادی کی کمی ہے۔

30 جنوری کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے پاکستان کے عالمی جائزہ کے موقع پرسویڈن، آسٹریلیا، برازیل اور جاپان سمیت بہت سے ملکوں نے پاکستان کو گھریلو تشدد سے متعلق بل پاس کرنے کی سفارش کی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts