لاہور (جدوجہد رپورٹ) معروف انقلابی رہنما و سابق صدر جام پور بار ایسوسی ایشن عبدالرؤف خان لنڈ کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ جمعرات کے روز جیل سے رہائی کے بعد ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
انہیں 12 فروری کی شب راجن پور پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ایک روز بغیر کسی مقدمہ کے تھانہ میں قید رکھنے کے بعد ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
عبدالرؤف خان لنڈ کی گرفتاری پر وکلا، سیاسی رہنماؤں اور سرائیکی وسیب کی سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا تھا، جبکہ محنت کشوں کی عالمی تنظیموں کی جانب سے بھی عبدالرؤف خان لنڈ کی گرفتاری کی مذمت کی جا رہی تھی۔
جمعرات کے روز جیل سے رہائی کے بعد عبدالرؤف لنڈ نے سوشل میڈیا پرپیغام جاری کرتے ہوئے ان کی رہائی کیلئے احتجاج کرنے اور ان سے یکجہتی کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے لکھا کہ ”اپنی روز مرہ معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی دہشت گردی کی کمینگیوں کے سرپرستوں کے سازشی کرداروں کے ذریعے میرے دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث کردئے جانے سے لے کر رہائی تک پاکستان کے چپے چپے سے لے کر دنیا کے کئی ممالک میں جس جس دوست، تنظیم، شناسا و نا شناسا شخص نے جو اور جتنا بھی کردار ادا کیا۔ اس کے اظہارِ تشکر کے لئے آج میں خود کو دو حوالوں سے بے بس محسوس کر رہا ہوں۔ ایک یہ کہ اس کیلئے شکریہ کس ترتیب سے شروع کروں اور دوسرا کن الفاظ سے کروں۔ سو سرِ دست اس حوالے سے الفاظ کی جگہ تو میری آنکھوں کی نمناکی قبول ہو۔ رہی دوستوں اور خیر خواہوں کے ناموں کی ترتیب تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بھی نام رہ جائے یا کسی کا نام حفظ مراتب میں آگے پیچھے ہو جائے تو مَیں اپنے ضمیر کی عدالت میں ایسے کسی جرم کے بوجھ اٹھانے کے قابلِ نہیں۔‘
انہوں نے اپنی بارایسوسی ایشن، ڈسٹرکٹ بار راجن پور، ڈیرہ غازیخان بار، اسلام آباد بار، پنجاب بار کونسل، سرائیکی وسیب کی مختلف بارز، پنجاب بھر کے وکلا، ممبر ان پنجاب بار کونسل، ہائیکورٹ ملتان بار کے امیدوار سمیت عدالت میں اور رہائی کے وقت ان کے ساتھ موجود رہنے والے تمام ساتھیوں اور صوبائی بار کونسلوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کامریڈوں، انقلابی دوستوں، پیپلز پارٹی کارکنوں، قیادت، امیدوار، سابق ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اور سینٹ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے طلبہ، کسانوں، مزدوروں، شعرا و ادیبوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے عام کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے بلاتخصیص علاقہ، وسیب، وطن، مسلک، وابستگی، قوم، برادی ان کی گرفتاری کی مذمت کی اور ان کی رہائی تک سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’ان سب دوستوں کے اس اظہارِ محبت نے نہ صرف سازشی کرداروں کو لرزا کے رکھ دیا بلکہ یہ میری بے گناہی کے تصدیقی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ میری طاقت و توانائی اور شکتی و مضبوطی کا سبب بنا۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’میں مقروض ہوں محنت کش طبقے کے ایک ایک فرد کا کہ جن سے میرا درد کا رشتہ ہے۔ میرا عہد رہا کہ میں آپ سب کا قرض چکانے کی سرخروئی کیلئے محنت کش طبقے کی زندگیوں سے دکھ درد کے نجات کی خاطر دکھ درد، ذلتوں اور اذیتوں، اس طبقاتی نظامِ سرمایہ و طبقاتی سماج کے خاتمہ کی جدوجہد اپنی آخری سانس تک جاری رکھوں گا۔ فیض احمد فیض کے ان الفاظ کے ساتھ سرخ سلام کہ’نہ اُن کی ہار نئی اور نہ اپنی جیت نئی۔‘