لاہور (جدوجہد رپورٹ) طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے دو اہم شہروں میں مانع حمل ادویات کی فروخت روک دی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ادویات کا استعمال مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی مغربی سازش ہے۔
’گارڈین‘ کے مطابق طالبان گھر گھر جا کر دائیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور فارمیسیوں کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ پیدائش پر قابو پانے والی تمام ادویات اور آلات کو الماریوں سے ہٹا دیں۔
شہر میں ایک دکان کے مالک کاکہناتھا کہ ’وہ بندوقیں لے کر دو مرتبہ میرے سٹور پر آئے اور مجھ دھمکی دی کہ مانع حمل گولیاں فروخت کیلئے نہ رکھیں۔ وہ کابل میں ہر فارمیسی کو باقاعدگی سے چیک کر رہے ہیں اور ہم نے مصنوعات کی فروخت بند کر دی ہے۔‘
ایک تجربہ کار دائی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرف پر بتایا کہ انہیں کئی بار دھمکیا ں دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک طالبان کمانڈڑ نے کہا کہ ’آپ کو باہر جانے اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے مغربی تصور کو فروغ دینے کی اجازت نہیں ہے اور یہ غیر ضروری کام ہے۔‘
کابل اور مزار شریف میں دیگر فارماسسٹوں نے تصدیق کی کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ پیدائش پر قابو پانے والی ادویات کا ذخیرہ نہ کریں۔
کابل میں ایک اور دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ ’برتھ کنٹرول گولیاں اور ڈیپوپروویرا انجیکشن جیسی اشیا کو اس مہینے کے آغاز سے فارمیسی میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور ہم موجودہ سٹاک کو فروخت کرنے سے بہت ڈرتے ہیں۔‘
’گارڈین‘ کے مطابق یہ طالبان کی طرف سے خواتین کے حقوق پر تازہ ترین حملہ ہے، جنہوں نے اگست 2021ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم ختم کر دی ہے، نوجوان خواتین کیلئے یونیورسٹیاں بند کر دی ہیں، خواتین کو ملازمتوں سے نکالنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کے گھر چھوڑنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ پہلے سے ہی کمزور صحت کی دیکھ بھال کے نظام والے ملک میں مانع حمل ادویات پر پابندی ایک اہم دھچکا ہو گا۔
ہر 14 میں سے ایک افغان خاتون حمل سے متعلق وجوہات کی وجہ سے موت کی منہ میں جاتی ہے اور یہ پیدائش کیلئے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
کابل میں طالبان کی وزارت صحت عامہ نے اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے اور افغانستان میں یو این ایف پی اے کے نمائندے نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
کابل میں سڑکوں پر گشت کرنے والے طالبان جنگجوؤں نے ذرائع کو بتایا کہ ’مانع حمل ادویات کا استعمال اور خاندانی منصوبہ بندی ایک مغربی ایجنڈا ہے۔‘
17 سالہ زینت کی دو سال قبل شمالی شہر مزار شریف میں شادی ہوئی تھی۔ انہیں جب گزشتہ ہفتے ایک دائی نے بتایا کہ مانع حمل ادویات پر پابندی لگ گئی ہے تو انہیں شدید جھٹکا لگا۔
زینب کی 18 ماہ کی بیٹی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں فوری حمل سے بچنے کیلئے خفیہ طور پر مانع حمل ادویات استعمال کر رہی تھی۔ میں اپنی بیٹی کی صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات کے ساتھ اس کی اچھی پرورش کرنا چاہتی ہوں، لیکن میرے خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب گزشتہ ہفتے دائی نے بتایا کہ اس کے پاس مجھے دینے کیلئے کوئی مانع حمل گولیاں اور انجیکشن نہیں ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’میں نے شادی کرنے کیلئے تعلیم کو چھوڑ دیا اور میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ میں اپنی بیٹی کیلئے ایک مختلف مستقبل کی تلاش میں ہوں۔ میری زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کی آخری امید بھی ختم ہو گئی ہے۔‘
برطانیہ میں ایک افغان نژاد سماجی کارکن شبنم نسیمی نے کہا کہ ’طالبان کا نہ صرف خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے انسانی حق پر بلکہ اب ان کے جسموں پر بھی کنٹرول اشتعال انگیز ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل خدمات تک بغیر جبر کے رسائی ہو۔ اس طرح کی خودمختاری خواتین کے حقوق کے ضروری اجزا ہیں، جیسے مساوات کے حق، عدم امتیاز، زندگی، جنسی صحت، تولیدی صحت اور دیگر بنیادی انسانی حقوق ہیں۔‘
کابل میں ایک دائی فاطمہ نے کہا کہ ’ہم ایک دم گھٹنے والے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ میں نے اپنے پورے کیریئر میں اتنا غیر محفوظ محسوس نہیں کیا۔‘
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ زیادہ تر افغان خواتین کو زچگی کی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق بنیادی معلومات دستیاب نہیں تھیں۔
رپورٹ نے انکشاف کیا کہ ’ایک اندازے کے مطابق 61 سے 72 فیصد افغان خواتین کیلئے یہ نظام ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے، جس میں جدید مانع حمل ادویات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین کی خواہش سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے خطرناک حمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی معاہدوں کی پابندی کریں، جن میں جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک عالمی رسائی کا تعین کیا گیا ہے۔
شبنم نسیمی نے کہا کہ ’مانع حمل ادویات تک رسائی اور خاندانی منصوبہ بندی کا حق نہ صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے، بلکہ یہ خواتین کو بااختیار بنانے اور ملک کو غربت سے نکالنے کیلئے بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔‘