لاہور (جدوجہد رپورٹ) ہارن آف افریقہ کہلانے والے شمال مشرقی افریقی ریجن میں خشک سالی کے رجحانات اب 2011ء کے قحط سے بھی بدتر ہیں، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق آئی جی اے ڈی کلائمیٹ پریڈکشن اینڈ ایپلیکیشن سنٹر نے بدھ کو کہا کہ اگلے تین مہینوں میں برسات کے موسم میں معمول سے کم بارش متوقع ہے۔
سنٹرکا کہنا تھا کہ ’ایتھوپیا، کینیا، صومالیہ اور یوگنڈا کے وہ حصے جو حالیہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان کیلئے یہ لگاتار چھٹا ناکام بارش کا موسم ہو سکتا ہے۔‘
سنٹر نے مزید کہا کہ برونڈی، مشرقی تنزانیہ، روانڈا اور جنوب مغربی سوڈان کے کچھ حصوں میں بھی معمول سے زیادہ خشک سالی ہو گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بدھ کے روز کہا کہ 8.3 ملین افراد کو اس سال انسانی امداد کی ضرورت ہو گی۔
صومالیہ میں ریکارڈ پر سب سے زیادہ طویل خشک سالی تقریباً تین سال تک جاری رہی اور دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ مہینے صومالیہ کے لئے اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈی نیٹر نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں زیادہ اموات یقینی طور پر 2011ء میں ملک میں اعلان کردہ قحط سے بڑھ جائیں گی۔ اس وقت 2 لاکھ 60 ہزار سے زائد لوگ فاقہ کشی سے مر گئے تھے۔
خشک سالی کے باعث صومالیہ میں تقریباً 1.3 ملین افراد، جن میں 80 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں۔ مسلسل 5 ناقص برساتی موسموں کے بعد جاری خشک سالی پہلے ہی صومالیہ کی حالیہ تاریخ میں سب سے طویل اور شدید ترین بن چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا میں تقریباً 23 ملین افراد انتہائی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ 11 ملین مویشی، جو بہت سے خاندانوں کی صحت اور دولت کیلئے ضروری ہیں، مر چکے ہیں۔ پورے خطے میں متاثر ہونے والے بہتسے لوگ چرواہے یا کسان ہیں، جنہوں نے فصلوں کو مرجھاتے اور پانی کے ذرائع کو خشک ہوتے دیکھا ہے۔